معزز قارئین!۔ پرسوں (3 اپریل کو ) پاکستان اور بیرون پاکستان ’’ مفسرِ نظریۂ پاکستان‘‘ جناب مجید نظامی کی 91 ویں سالگرہ منائی گئی۔ جنابِ مجید نظامی 3 اپریل 1928ء کو پنجاب کے ضلع ننکانہ صاحب کی تحصیل "Sangla Hill"۔میں پیدا ہُوئے اور 26 جولائی 2014ء کو علی الصبح انتقال کرگئے۔جنابِ مجید نظامی کے برادرِ بزرگ ، تحریکِ پاکستان کے نامور کارکن اور روزنامہ ’’ نوائے وقت ‘‘ کے بانی ایڈیٹر جناب حمید نظامی کا 22 فروری 1962ء کو انتقال ہُوا تو، لندن سے واپس آ کر جنابِ مجید نظامی نے ’’ نوائے وقت‘‘ کی ادارت سنبھالی اور اپنی کارکردگی کے باعث نہ صِرف  ’’نوائے وقت‘‘ کے معمار کہلائے‘اُنہوں نے 1986ء میں انگریزی روزنامہ "The Nation" جاری کیا اورعلاّمہ اقبالؒ ، قائداعظمؒ اور مادرِ ملّت محترمہ فاطمہ جناحؒ کے افکار و نظریات کے مطابق نظریہ ٔپاکستان کی ترویج و اشاعت پر ’’ مفسرِ نظریۂ پاکستان‘‘ کہلائے۔ 

میرا جنابِ مجید نظامی سے تعلق فروری 1964ء میں ہُوا۔ جب اُنہوں نے مجھے سرگودھا میں ’’ نوائے وقت‘‘ کا نامہ نگار مقرر کِیا۔ سرگودھا سے لاہور میری آمدورفت اور مختلف اخبارات میں خدمات انجام دینے کے بعد ، لاہور میرا خوابوں کا شہر بن گیا۔ ( اب بھی ہے )۔ 7 جولائی 1970ء کو جنابِ محمد حنیف رامے کی ادارت میں جنابِ ذوالفقار علی بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی کا سرکاری ترجمان روزنامہ ’’ مساوات‘‘ لاہور جاری ہُواتو، مَیں نے وہاں سوا سال تک سینئر سب ایڈیٹر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ یکم نومبر 1971ء کو مَیں نے لاہور سے روزنامہ ’’ پنجاب‘‘ اور 11 جولائی 1973ء کو اپنا روزنامہ ’’ سیاست‘‘ جاری کِیا۔ پھر میری جنابِ مجید نظامی سے ملاقاتیں بڑھتی رہیں۔ 

مئی 1991ء میں مَیں نے اپنا کالم ’’ سیاست نامہ‘‘ روزنامہ ’’ پاکستان‘‘ سے ’’ نوائے وقت‘‘ میں منتقل کِیا ، جو ڈیڑھ سال تک جاری رہا ۔ ’’ نوائے وقت‘‘ میں ’’ سیاست نامہ ‘‘ کا دوسرا دَور جولائی 1998ء سے جون 1999ء تک اور تیسرا دَور اگست 2012ء میں شروع اور جو جنابِ مجید نظامی کی وفات کے بعد بھی فروری 2017ء تک جاری رہا ۔ کالم نویس کی حیثیت سے میرا یکے بعد دیگرے ’’ نوائے وقت‘‘ کے تین ڈپٹی ایڈیٹرز سے واسطہ رہا۔ ستمبر 1991ء میں جب ، مجھے صدر غلام اسحاق خان کی میڈیا ٹیم کے رُکن کی حیثیت سے اُن کے ساتھ خانہ کعبہ میں داخل ہونے کی سعادت حاصل ہُوئی تو، اُن دِنوں برادرِ عزیز سیّد ارشاد احمد عارف ڈپٹی ایڈیٹر تھے ۔ 

معززقارئین!۔ مَیں نے اپنے ایک کالم میں لکھا تھا کہ ’’ میرے خانہ کعبہ کے اندر داخل ہونے سے یقینا کچھ نہ کچھ ثواب تو ، جنابِ مجید نظامی اور برادرِ عزیز ارشاد احمد عارف کو ضرور ملا ہوگا؟‘‘۔ میرے کالم نویسی کے تیسرے دَور میں "The Nation" کے ایڈیٹر برادرِ عزیز سیّد سلیم بخاری اور ’’ نوائے وقت ‘‘ کے ڈپٹی ایڈیٹر برادرِ عزیز سعید آسیؔ سے میری دوستی ’’ ابدی‘‘ ہوگئی۔

 لاہور کے مرزا شجاع اُلدّین بیگ امرتسری (موجودہ چیئرمین "P.E.M.R.A" پروفیسر محمد سلیم بیگ کے والد مرحوم )سے بھی ایک ملاقات دوستی میں بدل گئی۔ تحریکِ پاکستان میں مرزا شجاع اُلدّین بیگ امرتسری کا آدھے سے زیادہ خاندان سِکھوں سے لڑتا ہُوا شہید ہوگیا تھا۔تحریک پاکستان کے (گولڈ میڈلسٹ ) کارکن۔امرتسر کے ڈاکٹر سیّد علی محمد شاہ امرتسری کے پوتے ، سیّد شاہد رشید 1977ء سے میرے دوست تھے ۔ ’’ نوائے وقت ‘‘ میں میرے کالم نویسی کے تیسرے دَور میں میری اُن سے دوستی پختہ ہوگئی۔ جب بھی مَیں اسلام آباد سے لاہور آتا تو، لاہور میں جنابِ مجید نظامی کے ’’ ڈیرے‘‘ ( ایوانِ کارکنانِ تحریکِ پاکستان) میں منعقدہ تقاریب کے آغاز اور اختتام پر اُن سے ملاقاتیںہوتی تھیں ۔ اِس طرح سے مجھے کئی ’’زائرین و فدائین قائداعظمؒ  ‘‘کی گفتگو سُن کر اپنا ’’ نظریۂ پاکستان‘‘ پختہ کرنے کا موقع ملا۔

اہم بات یہ کہ چیئرمین ’’ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ‘‘ کی حیثیت سے جنابِ مجید نظامی اپنے دفتر کے بجائے سیکرٹری ’’نظریۂ پاکستان ٹرسٹ‘‘ سیّد شاہد رشید کے کمرے میں (اُن کی کُرسی پر نہیں بلکہ الگ کُرسی پر ) رونق افروز ہوتے تھے ۔ 9 اگست 2012ء سے جنابِ مجید نظامی کے انتقال سے کچھ دِن پہلے تک میری جنابِ مجید نظامی سے مسلسل ملاقاتیں رہیں۔ اُن ملاقاتوں میں سابق صدرِ پاکستان (موجودہ چیئرمین ،نظریۂ پاکستان ٹرسٹ) جناب محمد رفیق تارڑ ، وائس چیئرمین ، ڈاکٹر پروفیسر شیخ رفیق احمد ، چیئرمین ’’ تحریکِ پاکستان ورکرز ٹرسٹ‘‘ کرنل (ر) ڈاکٹر جمشید احمد ترین (مرحوم) ، فیڈریل شریعت کورٹ کے سابق چیف جسٹس میاں محبوب احمد کوآرڈینیٹر ’’ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ‘‘ میاں فاروق الطاف اور اردو ، فارسی اور پنجابی کے ہزاروں اشعار کے حافظ ، تحریک پاکستان کے ( گولڈ میڈلسٹ) کارکن چودھری ظفر اللہ خان سے بھی مسلسل ملاقاتیں ہوئیں ( اب بھی ہوتی ہیں) ۔ 

معزز قارئین!۔ جب ’’ نوائے وقت‘‘ میں میرا کالم نہیں بھی شائع ہوتا تھا ، تب بھی مَیں نے جنابِ مجید نظامی کی شخصیت اور اُن کی قومی خدمات پر اردو اور پنجابی میں کئی نظمیں لکھیں ۔ 20 فروری 2014ء کے لئے ’’ ایوانِ کارکنانِ تحریک پاکستان‘‘ لاہور میں چھٹی سہ روزہ ’’ نظریۂ پاکستان کانفرنس‘‘ کا انعقاد طے پایا تھا۔ برادرِ عزیز شاہد رشید کی فرمائش پر مَیں نے کانفرنس کے لئے ایک ملی نغمہ ؔلکھا جسے ’’ نظریاتی سمر سکول ‘‘ کے میوزک ٹیچر جناب آصف مجید نے "Compose" کِیا ۔ جب 20 فروری کو "The Causeway School" کے طلبہ و طالبات نے وہ نغمہ گایا تو، ہال تالیوں سے گونج اُٹھا۔ پھر سیّد شاہد رشید نے اعلان کِیا کہ ’’ خواتین و حضرات جنابِ مجید نظامی نے اثرچوہان صاحب کو ’’ شاعرِ نظریۂ پاکستان‘‘ کا خطاب دِیا ہے تو ، ہال پھر تالیوں سے گونج اُٹھا۔

 جنابِ مجید نظامی کی 70 سال تک صحافت سے وابستگی اور 50 سال تک "Editorship"کے بعد اُن کے نظریاتی دوستوں اور عقیدت مندوں نے جشن منایا۔ یکم اکتوبر 2012ء کو پنجاب یونیورسٹی کی طرف سے جنابِ مجید نظامی کو ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری پیش کی گئی تو، مَیں نے ’’ بابا مجید نظامی، ہوراں تے ربّ، رسولؐ دا سایا اے‘‘ کے عنوان سے نظم لکھی ، جس کا ایک بند یوں ہے …

اللہ ھُو تے ‘ عِشقِ نبیؐ دی ‘ نماز نِیتی ‘ سُبحان اللہ!

ستّر ورھے ‘ صحافت دِی ‘ خدمت کِیتی ‘ سُبحان اللہ!

پنج دہائِیاں تِیکر ‘ ایڈیٹر دا رول ‘ نبھایا اے!

بابا مجیدؔنظامی ‘ ہوراں تے ٗ ربّ ٗ رسولؐ دا سایا اے!

معززقارئین!۔ 3 اپریل 2014ء کو جب پہلی بار ’’ایوانِ کارکنانِ تحریک ِ پاکستان‘‘ میں جنابِ مجید نظامی کی 86 ویں سالگرہ ’’دھوم دھڑکے ‘‘ سے منائی گئی تو، مَیں نے ’’ چمک رہا ہے ، صحافت کا مہرِ عالم تاب‘‘ کے عنوان سے جنابِ مجید نظامی کی شخصیت اور قومی خدمات پر نظم لکھی جس کے دو بند یوں ہیں…

سجائے بَیٹھے ہیں محفل خلُوص کی احباب!

کِھلے ہیں رنگ برنگے محبّتوں کے گُلاب!

بنایا قادرِ مْطلق نے جِس کو عالی جناب!

چمک رہا ہے صحافت کا مہِر عالم تاب!

…O…

خُوشا! مجِید نظامی کی برکتیں ہر سُو!

ہے فکرِ قائدؒ و اقبالؒ کی نگر نگر خُوشبُو!

اثرؔ دُعا ہے کہ ہو ارضِ پاک بھی شاداب!

چمک رہا ہے صحافت کا مہرِ عالم تاب!

…O…

جنابِ مجید نظامی خالق حقیقی سے جا ملے ہیں ۔ علاّمہ اقبالؒ نے تو، جنابِ مجید نظامی جیسے "National Heroes" کے بارے میں پہلے ہی کہہ دِیا تھا کہ …

مرنے والے مرتے ہیں لیکن ، فنا ہوتے نہیں!

وہ حقیقت میں ، کبھی ہم سے ، جُدا ہوتے نہیں!

…O…

جنابِ مجید نظامی کے انتقال پر میری نظم کا مطلع ہے ۔

 رَواں ہے ، چشمۂ نُور کی صُورت،

ہر سُو ، اُن کی ، ذاتِ گرامی!

جب تک ،پاکستان ہے زندہ،

زندہ رہیں گے ،مجید نظامی!