ایسا آدمی چلا گیا ہے، جس پر کسی کا قرض نہیں ہوتا۔ اپنی شادمانی سے مگر سب جاننے والوں کو مقروض چھوڑ جاتاہے۔ ایک ایک کر کے بہت سے چلے گئے، جن کی موجودگی کے احساس سے طمانیت جاگ اٹھتی۔ آج نہیں تو کل ان سے ملیں گے۔ کچھ دیر کے لیے، کچھ دیر ہی کے لیے سہی! زندگی کے غم باطل نظر آئیں گے۔ کوئی کہانی، کوئی قصہ۔ چاروں طرف نوحہ گر، بے سمت حیات میں لطف کے چند لمحات۔ یہ ایک شادکام سہ پہر تھی۔ آدمی جب اپنے بیشتر کام نمٹا چکتا ہے۔ اس خیال سے جی تسکین پاتا ہے کہ کچھ زیادہ بوجھ اب باقی نہیں۔ ہو رہے گا کچھ نہ کچھ، گھبرائیں کیا۔ ایسے میں شعیب بن عزیز کا پیغام ملا۔ ’’نعمان چلا گیا۔‘‘ اسی کا شعر یاد آیااور اب ایک گہری معنویت کے ساتھ۔ خوب ہوگی یہ سرا دہر کی لیکن اس کا ہم سے کیا پوچھتے ہو، ہم کو ٹھہرنا کب ہے کچھ لوگ ہوتے ہیں، جن کے تصور ہی سے طبیعت میں تازگی پھوٹنے لگتی ہے۔نعمان انہی میں سے ایک تھا۔ کچھ دن ہوتے ہیں، محمد حسین آزاد کی ’’آبِ حیات‘‘ پڑھتے ہوئے چند جملے دھنک کی طرح ابھرے۔ جی شاد ہوا تو دل چاہا کہ اس شادمانی میں کسی کو شریک کیا جائے۔ شعیب بن عزیز کے سوا یہ اور کون ہوتا۔ فون کی گھنٹی بجی تو ایک بجھی ہوئی آواز سنائی دی’’نعمان کو کینسر ہو گیا۔‘‘ پھرسب کچھ جیسے ہوا میں تحلیل ہوگیا۔ نعمان سے ملاقات کچھ زیادہ نہ تھی۔ جب تک لاہور میں تھا، شعیب کے ساتھ آمنا سامنا ہوا کرتا۔پھر وہ کراچی کو پیارا ہو گیا۔ ان نادر و نایاب لوگوں میں سے ایک مصنوعی طور پر تیز رفتار زندگی میں تیزی سے جو معدوم ہوتے جا رہے ہیں۔ کسی پرانے دوست سے بھی بات ہو تو گاہے تعجب ہوتاہے۔ اس تکلف اور تصنع پہ تعجب جو اب زندگی کا لازمہ ہو چکا۔ اقبالؔ نے کہا تھا: حیاتِ تازہ اپنے ساتھ لائی لذتیں کیا کیا رقابت، خود فروشی، ناشکیبائی، ہوسناکی ہوسناکی اور ناشکیبائی تو الگ، تہیہ کر لیا جائے تو ایسے لوگوں سے بچا بھی جا سکتاہے مگر یہ جوش ملیح آبادی نے کہا تھا: جینا نہیں،اب یہ جینے کی نقل ہے، اداکاروں کی دنیا۔ ہمہ وقت آدمی جیسے روشنیوں سے نہائے کسی سٹیج پر ہو اور خود کو نمایاں کرنے پر تلا ہوا۔ آدمی کیا ہے اور کیسا ہے، کن علوم و محاسن، کن اطوار، کس مزاج اور تیور کا حامل۔ گردو پیش میں سبھی آشنا ہوتے ہیں۔ ایک ذرا سا احساس اور شعور بھی کارفرما ہو تو کچھ نہ کچھ ادراک خود کو بھی ہوتاہے۔ اس کے باوجود اپنے آپ کو آدم زاد مختلف، منفرد، صالح اور بے لوث ثابت کرنے پر کیوں تلا رہتاہے؟فائدہ اس زیاں میں کچھ ہے؟ ان عجیب لوگوں میں سے نعمان ایک تھا، جن کے ظاہرو باطن میں تفاوت نہیں ہوتا۔ مرعوبیت، احساسِ کمتری اور خود ترسی کے اس معاشرے میں یکسر ایک بے تکلف آدمی۔ اس قدربے ساختہ کہ کبھی تو حیرت بڑھتی چلی جاتی۔جو کچھ زبان پہ ہے، وہی دل میں، جو دل میں ہے، اسی کا اظہار و اقرار۔صرف دوسروں پہ نہیں، خود اپنے آپ پہ ہنسنے کی جرات وجسارت۔ اہلِ ہنر اور اہلِ منصب بہت، علم و آبرو والے بہت مگر وہ سچا اور کھرا آدمی خال ہی دکھائی دیتاہے، ہمیشہ نہیں تو اکثر جو پورا سچ بول سکتا ہو۔ تمہید کے بغیر بات کر سکتا ہو۔ ذاتی پسند اور ناپسند سے قطعِ نظر کسی بھی عنوان پر لکنت کے بغیر بات کر سکتا ہو۔ جیسے پتھر کا جگر چیر کے جھرنا پھوٹے یادوں کے خزانے میں، کراچی میں نعمان کے ساتھ بیتے ہوئے وہ تین دن ہمیشہ جگمگاتے رہیں گے۔ اب یاد نہیں پڑتا کہ پنجاب ہاؤس کے سرسبز گوشہ ٔ تنہائی میں قیام تھا یا کسی ہوٹل میں۔ اچانک وہ نمودار ہوا۔ سامان اٹھایا، گاڑی میں رکھا اور کھینچ کر لے گیا۔ ایک سہل کوش آدمی جہاں پڑا ہو، پڑے رہنے میں عافیت پاتا ہے۔ محض ایک جواں سال دوست کی خوشنودی عزیز تھی، مہمان داری پہ جو تلا تھا۔ منزل پہ پہنچے تو اس چھوٹے سے خوبصورت گھر نے سب ملال دھو دیا۔ سمندر کا کنارہ، بچوں کی بشاش آوازیں۔ غروبِ آفتاب کا نظارہ اور بحرِ ہند سے امنڈتی، گداز بوتی ہوا۔ تب و تاب ہو کہ ماندگی، جس میں جی بات کرنے لگتاہے۔ فراقؔ گورکھ پوری کے بقول بیتا ہوا وقت زندہ ہو جاتا ہے۔ شام بھی دھواں دھواں، دل بھی تھا اداس اداس دل کو کئی کہانیاں یاد سی آکے رہ گئیں نعمت اللہ خاں،وہ نجیب آدمی جس کے تابناک شب و روز کی کہانی کسی نے لکھی نہیں، چند ماہ پہلے کراچی کے مئیر منتخب ہوئے تھے۔ ان کی ریاضت، تخلیقی اندازِ کار اور دردمندی کا بہت شہرہ تھا۔ نعمان کے ساتھ مل کر ایک محدود سا سروے کرنے کا فیصلہ کیا۔ مرحوم کا نام سنتے ہی بعض تو جو ش و جذبے سے بھر جاتے، عام لوگ۔ ایک رکشہ ڈرائیور نے کہا: قائدِ اعظم کے بعد ایسا لیڈر کبھی نصیب نہ ہوا تھا۔قائدِ اعظم سے تو خیر کسی کا کیا موازنہ، نعمت اللہ خاں ایسے ہی تھے۔ خالص اور کھرے، صاف اور سیدھے، سچ کی طرح سادہ۔ دوسرے دن خان صاحب سے ملاقات کا وقت طے ہوا۔ ان کاسیکرٹری مگر ایک سویا ہوا سا آدمی تھا۔ اصرار اس کا یہ تھا کہ جب تک غایت نہ بتائی جائے، ملاقات ممکن نہیں۔ اصرار کی بجائے کہ خان صاحب نے خود طلب کیا ہے، واپس چلا آیا۔ یہ کوئی کارنامہ تو بہرحال نہ تھا۔ نعمان کی خوش خیالی نے مگر اسے معرکہ سمجھا۔ اس کی رائے میں یہ ایسی بے نیازی تھی، کسی اخبار نویس سے جس کی امید نہیں کی جاتی۔ بلدیہ کے صحن میں سرخوشی سے ایک نعرہ اس نے بلند کیا۔ زندگی سے لبریز، اس جواں سال چہرے سے پھوٹتی بے کراں بہجت، ہمیشہ ہمیشہ کے لیے حافظے میں نقش ہو گئی۔ اب یاد آتی ہے اور دل دکھتا ہے۔ ایسے لوگ بھی کیا مٹی کے مستحق ہوتے ہیں؟ آرزو تھی مگر طبیعت ماند۔ جنازے پر پہنچ نہ سکا۔ تصور میں اب دیکھتا ہوں کہ چہروں پر چھائے سکوت اور سناٹے میں جنازے کی نماز پڑھی جا رہی ہے۔ دھیمی آوازوں میں بات کرتے سوگوار اب قبرستان کو روانہ ہیں۔ قبر پہ اب مٹی ڈالی جا رہی ہے۔ مٹھیوں میں خاک لے کر دوست آئے وقتِ دفن زندگی بھر کی محبت کا صلہ دینے لگے المیہ خاندان کے لیے ہوتاہے، جہاں موت کا سیاہ دیو اترتا اور سب کچھ نوچ لے جاتاہے۔ نعمان مگر ان لوگوں میں سے ا یک تھا، جس کا کوئی بھی شناسا شایدعمر بھر اسے بھلا نہ سکے۔ ترنگ، توانائی اور تمناؤں سے بھرپور ایسی زندگی جب خاک میں اترتی ہے تو احساس ہوتاہے کہ موت کیسی مہیب چیز ہے۔ پل بھر میں زندگی کیا سے کیا ہو جاتی ہے۔ ایسا آدمی چلا گیا ہے، جس پر کسی کا قرض نہیں ہوتا۔ اپنی شادمانی سے مگر سب جاننے والوں کو مقروض چھوڑ جاتاہے۔