انسان کے بس میں کچھ بھی نہیں‘ بس جستجو واجب ہے مالی دا کم پانی لانا بھر بھر مشکاں پاوے۔ مالک دا کم پھل پھل لانا لاوے یا نہ لاوے۔ قدرت نے فطرت میں بہت کچھ رکھا ہے۔ یہ دوست بھی اور استاد بھی۔انسان کی افتاد طبع بھی مگر عجیب ہے ۔بے نیازی‘ لاپرواہی یا بغاوت اس کی زنبیل میں مگر ناکامیاں ہیں اور اس کے سامنے ابدی پیغام بھی ہے کہ وہ خسارے میں ہے وہ کرے بھی تو کیا کرے کہ صنوبر باغ میں آزاد بھی ہے پابہ گل بھی ہے اور پھر غالب کے بقول مرنے اور جینے میں کیا فرق رہ جاتا ہے کہ اسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کا فرپہ دم نکلے۔یہ کیسا اختیار اور کیسی بے اختیاری ہے۔ پائوں میں بیڑیاں نہیں خالد۔ حلقہ اختیارسا کچھ ہے۔ ہمارے دوست شوکت فہمی نے کیا اظہار کیا ہے: پہلا آنسو گرا تو ہنس دیا میں میری کوشش تھی دوسرا نہ گرے بس بہت ہو چکی اب مسکرانا شروع کر دیجیے کہ آپ اپنی مرضی سے نہیں مر سکتے۔ اس کی کوشش بھی نہ کیجیے۔ حضرت علیؓ نے فرمایا تھا کہ موت زندگی کی حفاظت کرتی ہے۔ ویسے بھی گِری ہے جس پہ کل بجلی وہ میرا آشیاں کیوں ہو۔ وبائیں آتی ہیں اور چلی جاتی ہیں ۔ہوا چراغ بجھاتی ہے اور جلاتی بھی ہے۔ وہ سانس جو تخلیق کرنے والے نے جسم کے اندر رکھے ہیں وہ پورے ہو کر رہیں گے۔ خوامخواہ خوف خود پر مسلط کرنا دانشمندی تو ہو سکتا عقلمندی نہیں۔ ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا۔ احتیاط اور پیش بندی اپنی جگہ ہے مگر اس سے کہیں زیادہ یقین اور ایمان ہے کہ مجھے اپنی زندگی جینا ہے یہ تو درست نہیں کہ اڑنے سے پیشتر ہی مرا رنگ زرد تھا۔ آج میں آپ سے ایک دو بہت ہی دلچسپ واقعات شیئر کروں گا آپ خود ہی سمجھدار ہیں مقصد اخذ کر لیں گے۔ جب میں پنجاب یونیورسٹی میں انگریزی کا طالب علم تھا تو ایک روز بینک سے باہر میں بھی لمبی قطار میں داخلہ فارم جمع کروانے کے لئے کھڑا تھا۔برابر میں ایک اور لمبی قطار تھی۔ بینک والے پیسے جمع کر رہے تھے۔بی فارمیسی کا ایک شریر ترین لڑکا یونس آیا اور کہنے لگا یار یہاں تو دو گھنٹے لگ جائیں گے پھر بولا اپنا طریقہ لگاتے ہیں اس کے ساتھ ہی اس نے آسمان کی طرف دیکھا اور کہا اوئے یہ کیا وہ زمین پر لیٹ گیا۔ اس کے ساتھ آئے دو تین لڑکے ڈر کر بھاگے۔ اللہ جانتا ہے کیا ہوا لڑکوں اور لڑکیوں کی قطاریں تتر بتر ہو گئیں۔ بنک والے بھی ڈر گئے۔ وہ لڑکا یونس کلرک سے کہنے لگا ڈرو نہیں۔فٹا فٹ یہ دو فارم جمع کرو کلرک بھی ہنسنے لگا۔ معزز قارئین آپ یقین نہیں کریں گے اس یونس نے ایک روز دوستوں سے مل کر بھاٹی گیٹ کے اندر ایک بارات کے ساتھ اسی انداز میں شرارت کی اور بارات کی دلہا سمیت دوڑیں لگ گئیں۔ دوستوں نے اس روز اسے کوسا کہ یار یہ اچھا نہیں ہوا اس روز اس نے اوپر دیکھ کر یوں ڈرامہ کیا تھا جیسے بارات پر کوئی بجلی کی تار گرنے لگی ہے۔ شاید یہ ڈرامہ ملکی سطح پر اور پھر عالمی سطح پر بھی ممکن ہے یا نہیں۔ آپ سوچیں۔ دوسرا واقعہ تو کل کا ہے میں چھوٹے بھائی احسان اللہ شاہ کے گھر اپنے والد محترم نصراللہ شاہ سے ملنے گیا۔ وہاں کچھ وقت گزارا تو وہاں ایک نوجوان سیف اللہ سے ملاقات ہوئی۔ وہ بنیادی طور پر مستری ہے ان دنوں کام بند ہیں۔ وہ اپنی بپتا سنانے لگا کہ ایک دو روز سے کرونا کی خبریں سن سن کر اس کی طبیعت اتنی خراب ہوئی رات کو یوں محسوس ہوا کہ کچھ نہ کچھ ہو جائے گا۔ اس پریشانی میں اس نے دوستوں کو فون بھی کیے۔ مختصر یہ کہ اس نے اچانک موبائل پر حسین عبداللہ ہارون کی گفتگو سنی اس گفتگو کا تذکرہ سجاد میر نے آج کے کالم میں کیا ہے۔ وہسیف اللہ مجھے بتانے لگا کہ حسین عبداللہ ہارون کی گفتگو سن کر وہ اچانک تندرست ہو گیا۔ وہ بازار کو نکلا کچھ کھایا پیا اور واپس اپنے بچوں میں آ گیا۔ وہ خوشی سے اپنے موبائل پر مجھے وہ گفتگو سنانے لگا۔ میرے والد صاحب تو پہلے ہی راسخ العقیدہ تہجد گزار ہیں۔ وہ مسکراتے ہوئے کہنے لگے یہ سب پراپیگنڈا ہے۔ وہ اپنے نورانی چہرے پر مسکراہٹ سجائے گفتگو فرماتے رہے۔ ایک انڈین ڈاکٹر نے بھی پنجابی میں کمال کی گفتگو کی ہے اور اس نے کرونا کی ساری واردات کو پراپیگنڈا اور سازش قرار دیا کہ جس کے پیچھے کوئی منطق اور دلیل نہیں اس نے کہا اگر وبا ہے تو اپنے اندر قوت مدافعت پیدا کریں۔ پھل فروٹ کھائیں ہلدی دال چینی اور ایسی ہی اشیا استعمال کریں گوشت نہ کھائیں اس سے ڈرنے کی کیا ضرورت ہے میڈیا تو سب کو ڈرا کر مارنا چاہتا ہے۔