زندگی اتنی سادہ نہیں جتنی بظاہر نظر آتی ہے۔ بہتوں کے لئے زندگی ہمدرد ہے اور بعض صورتوں میں سفاک بھی۔ سفاکیت بھی ایسی کہ اختر سعید خاں بھی چیخ اٹھے’’ زندگی تیری حقیقت نہیں دیکھی جاتی‘‘۔ دو ہفتے کے اخبارات مولانا فضل الرحمن کے آزادی مارچ‘ میاں نواز شریف کی بیماری، ڈیل ڈھیل اور بیرون ملک علاج کے لئے روانگی کی خبروں سے بھرے پڑے ہیں ۔ کسی بھی اخبار میں عام آدمی کے مسائل کے لئے کوئی جگہ ہے نہ ہمارے لیڈروں کو غربت مہنگائی اور بے روزگاری ایسے عوامی مسائل سے کوئی سروکار۔ دھرنے، مارچ حکومت کی تبدیلی، سب کا جواز حکومت اوروزیر اعظم کا سلیکٹڈ ہونا بتایا جا رہا ہے۔ ہفتے بھر کے اخبارات میں عام آدمی کو جگہ ملی بھی تو، دو روز میں 30افراد کے اپنی زندگی خود ختم کرنے کی خبروں سے۔ فیصل آباد کی ثمینہ نے پنکھے سے لٹک کر زندگی کے عذاب سے نجات پائی تو خوشاب کی سمیرا بتول جو زندگی جیتی رہی تھی اسے اس درد سے موت سہل لگی تبھی سمیرا نے اپنے اڑھائی برس کے بیٹے عبدالہادی کو زہر دے کرخود بھی اذیت کی اس دوا کو پھانک لیا۔ عالمی ادارہ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں ہر 40سیکنڈ میں ایک شخص خودکشی کرتا ہے۔ اس طرح ہر سال 8لاکھ افراد خودکشی کرتے ہیں اور یہ تعداد جنگوں اور کینسر ملیریا ایسی موذی امراض سے مرنے والوں کی تعداد سے کہیں زیادہ ہے۔ ماہرین نفسیات کے مطابق انسان مرنے کے لئے اس وقت مجبور ہوتا ہے جب اس کو موت سے فرار کے تمام دروازے بند ملتے ہیں ۔ ان تمام دروازوں میں معاشی مسائل توصرف ایک در ہیں۔ پاکستان میں 15سے 29سال کی عمر میں مرنے والوں کی موت کی دوسری بڑی وجہ خودکشی ہے ۔کسی شخص نے موت کو زندگی پر ترجیح کیوں دی اس کا پتہ لگانا اس کے ماضی کو جانے بغیر ممکن نہیں۔ فانی بدایونی نے شاید اس لئے کہا تھا: ؎ ہر نفس عمر گزشتہ کی ہے میت فانی زندگی نام ہے مر مر کے جیے جانے کا انسان خودکشی اس وقت کرتا ہے جب اسے محسوس ہوتا ہے کہ اس سے مر مر کر جیے جانے کا حق بھی چھین لیا گیا ہے۔ تحلیل نفسی کے موجد سیگمڈ فرائڈ کے مطابق ماضی میں جھانکے بغیر آج کو سمجھنا ممکن نہیں۔ پاکستانیوں کی مگر بدقسمتی یہ ہے کہ ہمیں تو اپنی ذات سے پرے اور آگے کے کچھ سجھائی ہی نہیں دیتا۔ ہم ٹماٹر کی قیمت میں اضافے سے لے کر خودکشی کے رجحان میں اضافے تک کا جواز انتخابات میں فوج کی مداخلت کو سمجھتے ہیں۔پاکستان میں خودکشی کرنے والے 11فیصدمرد اور 39فیصد خواتین شامل ہے۔1970ء میںملک میں طلاق کی شرح 13فیصد تھی، خودکشی کرنے والوں کی تعداد بھی اس کے لگ بھگ تھی آج اس شرح میں 60فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔ صرف صوبائی دارالحکومت لاہور کی عدالتوں میں 2018ء میں 15800خلع کے دعوے دائر ہوئے۔ علماء اس معاشرتی بگاڑ کی وجہ دین سے دوری اور خاندانی نظام کی کمزوری بتا کر بری الذمہ ہوجاتے ہیں اور سیاسی اشرافیہ کو پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ امور حکومت میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار نظر آتا ہے۔ ماہرین سماجیات خودکشی کے رجحان میں اضافے کا سبب معاشرتی ناہمواری اور محرومیوں کو قرار دیتے ہیں۔ نیاز فتح پوری نے تاریخ اور حقائق کی روشنی میں ثابت کیا ہے کہ 90فیصد خواتین معاشی مجبوریوں کے باعث جسم فروشی پر مجبور ہوتی ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال 40لاکھ خواتین کو عصمت فروشی کی طرف دھکیل دیا جاتا ہے۔ پاکستان ہندوستان اور بنگلہ دیش میں ہر سال 10لاکھ عورتوں کو فروخت کیا جاتا ہے۔ کوئی لاکھ انکار کرے مگر یہ سچ ہے کہ پاکستان کی جیلوں میں 60فیصد خواتین حدود آرڈیننس کے جرم میں قید ہیں۔ اوسطاً سالانہ ایک ہزار عورتوں کو صرف پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل کر دیا جاتا ہے۔صرف خواتین ہی کیوں خودکشی کرنے والوں میں 11 فیصد مرد ہیں۔ غیرسرکاری تنظیم کی تحقیق کے مطابق پاکستان میں خودکشی کرنے والے مردوں میں 60 فیصد نوجوان محبت میں ناکامی کے باعث موت کو لگے لگاتے ہیں۔ 40 فیصدکے اپنے ہاتھوں زندگی ختم کرنے کا سبب بیروزگاری، مہنگائی اور ازدواجی مسائل ہوتے ہیں۔ گزشتہ دنوں ایک شخص نے اس لئے خودکشی کر لی کیونکہ اس کے بچے گھر میں بھوکے تھے اور اس سے اپنے جگرگوشوں کابھوک سے تڑپنا دیکھا نہ گیا۔ ملتان سے ایک خاتون کو جسم فروشی کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ پولیس کی تحویل میں اس نے اعتراف کیا کہ اس نے اپنے بچوں کے لئے سکول بیگ اور کتابیں خریدنی تھیں، اس لئے وہ اس دھندے میں آئی۔ شاید ہی کوئی روز ایسا ہو جب گھروں میں کام کرنے والے معصوم بچوں پر دولت مند مالکوں کے بہیمانہ تشدد کی خبر نہ آئی ہو۔ سیاسی اشرافیہ کے لئے محض ایک خبر ہے مگر اس دل سے کوئی پوچھے جو اپنے جگر کے ٹکڑے کو محض دووقت کی روٹی نہ دے پانے کے جرم میںدولت مندوں کے ہاں رہن رکھ دیتا ہے۔ اگر کوئی غریب خاتون اپنے بچوں کو محنت کی کمائی سے روشن مستقبل دینے کا خواب دیکھ کر گھروں میں کام کرتی ہے تو سرمایہ دار اس سے خوب تاوان طلب کرتا ہے۔ مگر ہمارے سیاستدان آج بھی دھرنے، مارچ اور شٹ ڈائون حکومت کی ان ناکامیوں اور عوام کی محرومیوں کے خلاف نہیں، دوبارہ انتخابات منعقد کروانے اور اقتدار میں حصہ داربننے کے لئے کر رہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کا آزادی مارچ اور دھرنا قومی شاہراہیں بند کرنے تک پہنچ چکا۔ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی اپنے مقدمات اور اپنے قائدین کی رہائی اور بیرون ملک علاج کے لئے توانائیاں حکومت گرانے کے لئے جھونک رہی ہیں۔ کوئی ہے جو سماجی انصاف،مساوات اور کمزوروں کے حقوق کے لئے دھرنا دے۔ شٹر ڈائون کی کال دے؟