آج کل پھر وہی کام زیادہ اور وقت کم والی صورتحال چل رہی ہے۔ کسی زمانے میں یہ فقرہ بہت سنتے تھے، ’’وقت کم ہے اور مقابلہ سخت‘‘۔ اب آ کر سمجھ آئی کہ وقت ہمیشہ کم ہوتا ہے اور مقابلہ تو ہے ہی سخت۔سیانے کہتے ہیں(آپ چاہیں توموٹیویشنل سپیکر حضرات مراد لے لیں) کہ اصل با ت ترجیحات کی ہے۔ جو چیزیں ترجیحات میںٹاپ پر ہوں، ان کے لئے آدمی وقت نکال لیتا ہے۔ بات درست ہوگی، سیانوں سے کیا بحث کرنی۔ ویسے سیانے لوگوں کی مثال سن کر ہمیشہ ایک مشہور لطیفہ یاد آجاتا ہے ۔کہتے ہیں ایک طویل قامت شخص کراہتا ہوا اپنے لہولہان کان پر ہاتھ رکھے جا رہا تھا۔ کسی نے پوچھا ،پہلوان جی کیا ہوا؟ کہنے لگا کتے نے کاٹ لیا۔پوچھنے والے نے حیرت سے سوا چھ فٹ لمبے شخص کو دیکھا اور پوچھا کتے کان تک کس طرح پہنچ گیا؟زخمی نے کراہ کر جواب دیا … سیانوں کی وجہ سے ایسا ہوا۔ حیران پریشان سوال پوچھنے والے نے سوال کیا، اس میں سیانے کہاں سے آگئے؟ جواب ملا، سیانوں کا کہنا سن رکھا تھا کہ اگر کتا حملہ کرے تو بیٹھ جانا چاہیے ، یوں مشتعل کتا پرسکون ہو کر ٹھیر جاتا ہے، میں نے ایسا ہی کیا ، مگر یہ کتا تھا ہی بدبخت یا اسے سیانوں کی بات جھٹلانے کا شوق تھا، اس خبیث نے میرا کان ہی چبا ڈالا۔ صاحبو! ترجیحات کی اپنی اہمیت ہے، مگر کچھ حالات اور وقت کی بات بھی ہوتی ہے۔ایک زمانہ تھا، جب ہم رات بھر مزے سے کتاب پڑھا کرتے۔ سات ، آٹھ سو صفحات کا ناول رات بھر میں چاٹ ڈالتے۔ زندگی تب سادہ انداز میں گزر رہی تھی۔ امتحانات کے بعد چھٹیاں ہیں تو مطلب چھٹیاں ہی ہیں۔ آج کی طرح نہیں کہ امتحانات کے بعد فوری طور پر اکیڈمی جوائن کر کے اگلی کلاس کی تیاری شروع کر دی۔ تب زندگی میں اچھے خاصے لمبے وقفے مل جاتے تھے۔ پڑھائی شروع بھی ہوگئی تب بھی ہمارے جیسے طلبہ آرام ، سکون سے کام کے ماڈ (Mode) میں آتے۔عام طور سے آخری چندماہ اس کے لئے وقف ہوتے۔ اس سے پہلے راوی چین ہی چین لکھتا تھا، بلکہ کبھی تو جاپان، کوریا بھی لکھ ڈالتا۔ براہ کرم اب کوئی قاری ہماری اصلاح کی کوشش نہ فرمائے کہ اس محاورے میں چین سے مراد ملک چین نہیں بلکہ چَین یعنی آرام ، سکون مراد ہے، اس لئے جاپان ، کوریا والا اضافہ فنی اعتبار سے غلط ہے۔اتنی سی بات خاکساربھی جانتا ہے۔ طویل عرصہ پہلے جب یہ پتہ چلا کہ کہانیوں کا مشہور کردار عمرو عیار اصل میںاَمر ہے ، اسے عُمرو نہیں پڑھنا چاہیے، اسی زمانے میں نہ صرف راوی چین ہی چین والا محاورہ سمجھ آ گیا بلکہ یہ بھی علم ہوا کہ خط وکتابت غلط ، درست خط کتابت ہے اور درست لفظ بے نیل ومرام نہیں بے نیلِ مرام ہوتا ہے۔اس سے پہلے ہی سب رنگ ڈائجسٹ پڑھ کر ہم جان گئے تھے کہ ناراضگی کی جگہ ناراضی، درستگی کے بجائے درستی لکھنا چاہیے۔ اردو ڈائجسٹ میں ملازمت کے ابتدائی برس انہی موشگافیوں میں گزرے۔ ماہرین اردو ڈائجسٹ روزانہ اخبارات کا بغور معائنہ فرماتے اور پھر صحافیوں کی غلطیاں پکڑ کر ایک خاص مسرت وانبساط سے سرشارکیفیت میں اس پر تبصرے فرمایا کرتے۔ خلاصہ اس علم افروز گفتگو کا یہی ہوتا کہ آج کل کے لونڈے زبان لکھنا ہی نہیں جانتے، مطالعہ صفر ہے۔ نہ ہوا ظفر علی خان، سالک، حسرت، مہر کا دور ،ورنہ یک بینی دوگوش نکالے جاتے ، وغیرہ وغیرہ۔ ہم جیسے نوواردان صحافت یہ سب دیکھ کر عبرت پکڑتے اور پھر کوشش ہوتی کہ اغلاط سے پاک خالص اردو لکھی جائے۔ یہ تو بھلا ہو ہمارے اردو اخبارات کا ، وہاں بعد میں کام کر کے’’ اصلاح‘‘ ہوئی ۔ زبان کو خالص رکھنے کا خبط ذہن سے نکلا۔ یہ سمجھ میں آئی کہ جس طرح خالص دیسی گھی کی حمایت میں چلائی تحریک ناکام رہی اور بناسپتی کا زمانہ آ کر ہی رہا۔ ویسے زبان کو خالص رکھنے کا خواب دیکھنے والوں سے ہمدردی ضرور کرنی چاہیے، ان کے اخلاص کا احترام کریں، بزرگوں کے آگے کان پکڑ کر معافی بھی مانگ لیں۔ زبان مگر اب وہی چلے گی، جو عوام سے زیادہ قریب اور ہم آہنگ ہوگی۔ بات کہاں سے کہاں نکل گئی، بحث سے بچنے کا ارادہ تھا، مگر ایک اور بحث میںجا گرا۔ کہنے کا مقصد تھا کہ ترجیحات اپنی جگہ ،مگرکچھ یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ حالات کیا چل رہے ہیں، آسماں کس قدر مہربان ہے، کتنا وقت میسر ہے اور زندگی کس سلوک پر آمادہ ہے؟ کچھ قصور آج کے طرز زندگی کا بھی ہے، جس میں سنگل ٹاسک نہیں بلکہ ملٹی ٹاسک شیڈول چلتا ہے۔ انسان بیک وقت کئی کامو ں میں مصروف ،یہ سب اسے ایک ساتھ اور اچھے طریقے سے کرنے ہیں۔ آج کا جدید ذہن اسی لئے سوچتا بھی کئی زبانوں میں ہے۔ یوسفی صاحب نے شائد کہا تھا کہ انسان گالی اور گنتی اپنی مادری زبان میں دیتا ہے۔ بات مزے کی ہے، ٹھیک ہوگی، مگر وہ بھی سادہ زمانوں ، سادہ ذہنوں کا قصہ تھا۔ ہم نے آج کے بچوں کو گنتی اور پہاڑے بزبان انگریزی بولتے سنا ۔ آج کا جدید ذہن سوچتا بھی کئی زبانوں میں ہے۔ کچھ باتیں مادری زبان میںتو عشق محبت کے قصے کسی اور زبان میں اسے جچتے ہیں۔ سائنس اور جدید علوم پر بحث مختلف زبان میں۔ بہت کچھ انگریزی میں پڑھا، سنا، سیکھا جاتا ہے تو سوچتے، لکھتے ہوئے بھی انگریزی کے الفاظ ٹپک جاتے ہیں۔ یہی ملٹی ٹاسکنگ لائف آج کل ہمارا مسئلہ بھی بن گئی اور اس کی افادیت بھی آشکار ہوئی ہے۔ اگر سنگل ٹریک زندگی گزارتے تو بہت کچھ سے محروم رہتے۔ پھر تو شائد دو ڈھائی سو سال چاہیے تھے ہمیں اس ایکسپوژر کے لئے ، جس کا موقعہ ان چار ، ساڑھے چار عشروں میں مل گیا۔پچھلے چند دنوں کی روداد سن لیجئے۔ ایک طرف تو پی ایس ایل چل رہی ہے، کرکٹ کے ہم طویل عرصے سے دیوانے، خود تو نہیں کھیل سکے، مگر اس قدر دلچسپی اور غور سے دیکھتے رہے کہ اب اس پر رائے قائم کرنے کے لئے ہمیں ماہرین کے تبصرے نہیں سننے پڑتے۔پی ایس ایل میچز روزانہ دیکھ رہا ہوں، لائیو نہ دیکھ سکوں تو کرک انفو پر کمنٹری پڑھ کر اپ ڈیٹ رہتا ہوں۔ گزشتہ روز آسکر ایوارڈز کی تقریب تھی، اب ایوارڈ یافتہ فلمیں دیکھیں گے۔ادھرڈراموں کے سیزن میں دلچسپی رکھنے والے اپریل کا انتظار کر رہے ہیں کہ اس میں ایچ بی او کے مشہور زمانہ ڈرامہ گیمز آف تھرون کا آخری سیزن شروع ہونا ہے۔ گیمز آف تھرون (GOT)کا بھی دنیا بھر میں ایک اپنا ہی فین کلب اور کریز ہے۔ کروڑوں لوگ اس کے اسیر ہیں۔ یہ خاکسار بھی ان میں شامل ہے۔ 2017ء میں اس سے متعارف ہوا اور پھر اس کے ساتوں سیزن دیکھ ڈالے، اسے سمجھنے کے لئے اتنی ریسرچ کر ڈالی کہ اس کے تمام کرداروں پر چلتا پھرتا انسائیکلو پیڈیا بن گیا۔ آخری سیزن پچھلے سال نشرنہیںہوسکا تھا، اس سال اپریل میں یہ ختم ہوجائے گا۔ ایک اور مشہور ڈرامہ سیزن ’’ہائوس آف کارڈز‘‘ دیکھنے کی آرزو ہے ، ہمارے دوست اور منفرد موٹیویشنل سپیکر، رائٹر عارف انیس ملک نے یہ تجویز کیا اور ہر باذوق شخص اس کی تائید کرتا ملا۔ سنا ہے کہ امریکی سیاست کو سمجھنے کے لئے اس سے بہتر ڈرامہ اور نہیں۔ تھوڑا سی فرصت ملے تو اسے بھی شروع کرتے ہیں۔ یہ نہ سمجھئے کہ صرف ڈرامے ، فلمیں اور کرکٹ چل رہی ہے۔ صحافتی مصروفیات ساتھ ساتھ ہیں۔ پچھلے دنوں ففتھ جنریشن وار فیئر پر لکھنے کا سوچا تو بے شمار آرٹیکل اور ریسرچ مواد پڑھنا پڑا، کئی ویڈیوز دیکھیں۔ بہت سرکھپانے کے بعد جو کچھ سمجھ آیا، اسے آسان ، عام فہم الفاظ میں لکھا۔ تین کالم لکھنے کے بعد بھی احساس ہے کہ موضوع سے مکمل انصاف نہیں ہوسکا، کچھ اور لکھنا چاہیے ۔ وقت ملا تو ان شااللہ ضرور لکھا جائے گا۔ پچھلے ہفتے معروف ادیب اور اکادمی ادبیات لاہور کے ڈائریکٹر عاصم بٹ کا ناول بھید پڑھنے کا موقعہ ملا۔ مستنصر حسین تارڑ نے دیباچہ لکھا ہے۔ تارڑ صاحب نے بھول بھلیاں (Labyrinth)کا تذکرہ کیا اور مشہور اطالوی ادیب کی تحریروں، اس موضوع پر ایک مشہور کتاب کا حوالہ دیا۔ناول تو خیر کمال ہے، پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ عاصم بٹ کا پہلا ناول دائرہ بھی پسند آیا تھا۔ بھید ان کے ادبی ارتقائی سفر کا غماز ہے۔ لاہور کو لینڈ سکیپ بناتے ہوئے انہوں نے کمال کے کردار تراشے اور کہانیوں کی ایسی بھول بھلیوں سے متعارف کرایا، جس سے آدمی نکل سکتا ہے نہ اس کی آرزو باقی رہتی ۔Labyrinthکے حوالے سے نیٹ پر کچھ سرچ کی تو حیران رہ گیا۔ اتنا کچھ مواد۔ یونانی مائتھالوجی سے جڑی یہ اصطلاح آرٹ، کلچر کا اتنا اہم حوالہ بنی اور ہمیں اس بارے میں کچھ نہیں معلوم ، اس پر مزید پڑھنے کی آرزو، ہوس باقی ۔ اس سال بک ایکسپو سے کئی کتابیں خریدیں اور ارادہ ہے کہ انہیں جلد پڑھنا ہے۔ محمد حسن عسکری کے مضامین پھر سے پڑھنے ہیں، ان کے بعد مضامین سلیم احمد کو بھی پڑھنے کا ارادہ ہے۔ عسکری صاحب کے تراجم بھی خریدے ہیں۔ اللہ نے چاہا تو گرمیوں سے پہلے یہ بھی پڑھ ڈالنے ہیں۔ بات وقت کی کمی ، سخت مقابلے اور بے پناہ کام سے شروع ہوئی تھی۔ یہ سب کچھ ملٹی ٹاسک زندگی کی طرف لے جاتا ہے۔ یہی ملٹی ٹاسک سوچ ہی ہمارا آج اور شائد مستقبل ہے۔ کچھ پانے کا اطمینان، بہت کچھ رہ جانے کی تشنگی۔ یہی تو مگر زندگی ہے،کچھ مکمل، کچھ ادھوری۔