وہ زمانہ دور نہیں جب آپ کسی درخت سے امرود توڑنے لگیں اور درخت پھل سے لدی شاخ اس وجہ سے آپ کی پہنچ سے دور کر دے کہ آپ نے کچھ مدت پہلے درخت کو بُرا بھلا کہا تھا۔ کے پی کے میں ضلع خیبر کے وہ ناسمجھ نوجوان جنہوں نے چیل کے جوان ہوتے پودوںکو اکھاڑ پھینکا ان کے لئے تو عین ممکن ہے جنگل دشمن کا علاقہ بن جائے۔ پاکستان میں پہلی بار درختوں سے محبت کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ شجر شناسی ختم ہوتی جا رہی ہے لیکن اس کی کوکھ سے نئے علوم اور تحقیق کے سرچشمے پھوٹنے کو ہیں۔ ہماری کہانیاں بھی عجیب ہیں۔ معلوم نہیں لکڑ ہارے کی کتنی داستانیں ہم بچپن سے لے کر جوانی تک پڑھ لیتے ہیں۔ مجھے آج تک اردو میں ایسی کوئی کہانی نہیں ملی جو کسی ایسے شخص کو ہیرو بنا کر لکھی گئی جو درخت لگاتا ہو‘ درختوں سے باتیں کرتا ہو اور درختوں کی نفسیات سمجھتا ہو۔ 1966ء کی بات ہے سی آئی اے کے سابق اہلکار کلیو بیکسٹر نے ایک تجربہ کرنے کا تہیہ کیا۔ بیکسٹر نے ایک بڑے سے کمرے میں کین پام کے قد آدم تک کے چند پودے رکھوائے۔ تین افراد کو ٹاسک دیا گیا کہ وہ ایک مخصوص گملے والے پودے کے سوا باقی پودوں کو گالیاں دیں‘ ان کے پتے نوچیں یا ان کو توڑ دیں۔بیکسٹر نے بچ جانے والے پودے کے ساتھ ایک پولی گرافک ٹیسٹ والی مشین منسلک کر دی۔ وہی مشین جس کا آج کل پاکستان میں استعمال کرتے ہوئے مجرموں کے بیان کی سچائی یا غلط بیانی کا اندازہ کیا جاتا ہے۔ پودے کے سامنے سے تمام افراد کو گزارا گیا۔ گالیاں دینے والا اور پتے نوچنے والا گزرا تو مشین کی سکرین پر نمودار لہر بے ترتیب ہو گئی‘ یہ اس بات کا ثبوت تھا کہ پودے نے ان لوگوں کو اپنے ساتھی پودوں پر ظلم کرتے دیکھا اور اب وہ انہیں پہچان گیا ہے۔ آخر میں وہ شخص سامنے آیا جس نے پودوں کو ٹکڑے ٹکڑے کیا تھا۔ اس کو دیکھ کر پودے میں حیرت انگیز تبدیلی آئی۔مشین کی لہریں تیز تیز حرکت کرنے لگیں‘ مشین سے آوازیں آنے لگیں۔ ثابت ہوا پودے لوگوں کو پہچانتے ہیں اور ان کی حرکات پر اپنا ردعمل بھی ظاہر کرتے ہیں‘ بعد کے تجربات نے ثابت کیا ہے کہ پودوں کی یادداشت ہوتی ہے‘ وہ خوف محسوس کرتے ہیں۔ اٹلی کے معروف سائنسدان Stefano man uroکا کہنا ہے کہ پودوں کی یادداشت 40روز تک کام کر سکتی ہے۔ پودے جاندار ہیں‘ یادداشت رکھتے ہیں‘ ردعمل ظاہر کرتے ہیں اور اگر یہ کہوں کہ پودے قدرتی طور پر پورے ماحول سے مربوط ہوتے ہیں تو غلط نہ ہو گا۔ آپ نے شاید کسی بڑے درخت یا گملے میں لگے پودے کی جڑوں کا مشاہدہ کیا ہو۔بڑی جڑیں جو سخت لکڑی کی ہوتی ہیں وہ پودے کو پانی اور غذائی اجزا پہنچاتی ہیں۔ بڑی جڑوں کے باہر چھوٹی چھوٹی دھاگا نما جڑوں کا گھیرا ہوتا ہے۔ مسلسل تجربات سے ثابت ہوا ہے کہ یہ دھاگے جیسی جڑیں پودے کی فائبر آپٹک کیبل ہوتی ہیں۔ یہ جڑیں اردگرد کے دوسرے پودوں اور درختوں کو زیر زمین کمیونیکیشن سسٹم کے ذریعے پیغام پہنچاتی ہیں۔ ایک پیڑ اپنے قریب کے 47پودوں اور درختوں کے کمیونی کیشن سسٹم سے جڑا ہوتا ہے۔ پودے اس نظام کے ذریعے ایک دوسرے کو خطرات سے آگاہ کرتے ہیں‘ کسی کو غذا کی کمی کا سامنا ہو تو یہ جڑیں موٹی ہونا شروع ہو جاتی ہیں اور قریب کے پودوں سے خوراک لے آتی ہیں سائنسدان پودوں کی زبان اور سگنلز کو ڈی کوڈ کرنے پر کام کر رہے ہیں۔ میں نے بی اے کا امتحان دیا تو ایک دوست نے اپنے عزیز کو انگریزی کی ٹیوشن پڑھانے کا کہا۔ فیس معقول تھی۔ نوجوان وزیرستان سے آیا تھا۔ بہت پرخلوص‘ قبائلیوں کے متعلق جو کہانیاں سن رکھی تھیں ان سے بہت مختلف۔چند روز بعد دو مزید وزیرستانی میرے شاگرد بن گئے۔ یہ لوگ بتایا کرتے کہ قبائلی نوجوانوں کے پاس زندگی کا کوئی واضح مقصد اور لائحہ عمل نہیں۔ فارغ وقت میں فائرنگ کرنا مشغلہ ہے۔ کئی بار سرکار کی طرف سے بنایا کوئی سکول یا دفتر راکٹ مار کر اڑا دیا جاتا اور یوں خوش ہوتے۔ بعد میں سی ایس ایس کا امتحان دینے والے کچھ قبائلی پٹھانوں کو انٹرنیشنل ریلیشنز اور انٹرنیشنل لا پڑھانے کا موقع ہمارے بزرگ مظفر بخاری صاحب نے عطا کیا۔یہ نوجوان اپنے ماحول کی گھٹن سے بیزار تھے۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ قبائلی آبادی کی روایات نوجوانوں کو بامقصد زندگی گزارنے میں مدد نہیں دے رہیں۔ میں نے وہ ویڈیو کئی بار دیکھی جس میں نوجوانوں کا ہجوم پودوں کو کھینچ کر زمین سے نکال رہا تھا‘ توڑ رہا تھا اور ٹائیگر فورس کے لوگوں سے بیلچے اور کدالیں لوٹ رہا تھا۔ پودوں سے محبت کے باعث مجھے شاید دوسروں سے زیادہ تکلیف پہنچی۔ اگلے دن علاقے کے مشران نے اس واقعہ پر معذرت کی اور بزرگ افراد نے اپنے ہاتھوں پودے دوبارہ لگائے۔ خیبر کے مشران نے اعلان کیا ہے کہ وہ دس ہزار مزید پودے لگائیں گے۔سابق قبائلی علاقوں کے شہریوں کو شکایت ہے کہ ان کی زمینوں پر قبضے ہو جاتے ہیں‘ کچھ شکایات سرکاری اداروں سے ہیں۔ میں نے خیبر کا علاقہ دیکھ رکھا ہے‘ درہ آدم خیل کے درمیان سے بھی درجنوں بار گزرنے کا موقع ملا۔ اردگرد ایسے کھلے علاقے دیکھے جہاں شجر کاری کی جا سکتی ہے۔ سرکار ان زمینوں کو دو درجوں، سرکاری رقبہ اور قبائلی ملکیتی رقبہ قرار دے کر دونوں کے لئے پالیسی بنا سکتی ہے۔ سرکاری رقبوں پر لکڑی والے درخت لگائے جائیں اور قبائل کی ملکیت والے رقبہ پر مالکان کی مشاورت سے پھلوں کے باغات لگائیں ۔ زیتون کی کاشت بھی کی جا سکتی ہے۔ یہ ایک ایسا انقلاب ہو گا جو بہت سی تبدیلیوں کی بنیاد رکھ سکتا ہے۔