آج ذوالفقار علی بھٹو کی چالیسویںبرسی ہے۔ چالیس برس بہت ہوتے ہیں۔ چالیس برسوں کے دوراں بہت کچھ بھول کی دھول بن کر اڑ جاتا ہے مگر پورے پاکستان کے نہیں تو کم از کم سندھ کے سارے راستے سسکیاں بھر کر اس شخص کو یاد کر رہے تھے جس نے کہا تھا کہ ’’میں سندھ کا رانو ہوں۔ سندھ کی دھرتی میرا انتظار مومل کی طرح کرے گی‘‘ ہم اپنے پرانے دور کو بہت پیچھے چھوڑ آئے ہیں۔ ہمارا تعلق اپنی تہذیب سے کٹ چکا ہے۔ آج پاکستان میں کتنے لوگ ہیں جن کو ’’مومل رانو‘‘ کا پس منظر معلوم ہو۔ مومل رانو کی لوک کہانی کا تعلق سندھ سے ہے۔ اس وقت تو سندھ کی نسل نو بھی فراموشی کے دریا میں ڈوب چکی ہے ۔ اب تو وہ سندھی بھی کم ہیں جن کو یہ معلوم ہو کہ مومل کون تھی اور رانو کون تھا؟ مومل اور رانو کی لوک کہانی کو شاہ عبد الطیف بھٹائیؒ نے اپنی شاعری میں اس طرح منظوم صورت میں محفوظ کیا ہے جس طرح وارث شاہ نے ’’ہیر رانجھا‘‘ کو اپنے سروں میں سجایا ہے۔ مومل رانو کے بارے میں سندھ کی تاریخ خاموش ہے مگر شاہ لطیف بتاتے ہیں کہ مومل سندھ کی خوبصورت شہزادی تھی۔ اس نے جادو کا ایک ایسا محل بنوایا تھا جس کی رکاوٹوں کو عبور کرنا کسی کے لیے ممکن نہ تھا۔ مومل نے یہ شرط رکھی تھی کہ جو اس طلسمی محل میں سارے رکاوٹیں عبور کرکے مجھ تک پہنچے گا ؛ میں اس کی ہوجاؤں گی۔ شاہ لطیفؒ نے بیان کیا ہے کہ مومل کی محبت میں گرفتار بہت سارے شہزادوں نے اپنی جان گنوائی مگر وہ مومل تک پہنچنے میں کامیاب نہ ہو پائے ۔اس دور میں رانو نامی ایک خوبصورت ؛ بہادر اور ذہین نوجوان تھا جس نے جادوئی محل کی ہر رکاوٹ کو عبور کیا اور مومل تک پہنچنے میں کامیاب ہوگیا۔جب مومل نے رانو کی ایک جھلک دیکھی تو وہ اس پر فدا ہوگئی۔ شاہ لطیف نے یہ بھی بتایا ہے کہ رانو کے رشتہ دار مومل کے خاندان کے خلاف تھے۔ اس لیے رانو مومل سے شادی نہیں کرسکتا تھا مگر اس نے مومل سے وعدہ کیا تھا کہ وہ ہر رات اس سے چوری چھپے ملنے آئے گا۔ رانو ہر رات مومل کے پاس آتا تھا اور صبح ہونے سے پہلے اپنے اونٹ پر بیٹھ کر لوٹ جاتا تھا۔ جب رانو کی محبت کے بارے میں اس کے رشتہ داروں کومعلوم ہوا توانہوں نے رانو پر پابندیاں عائد کردیں مگر رانو پھر بھی کسی نہ کسی طرح مومل کے محل میں آتا اور اس سے ملاقات کرتامگر سختیوں کے باعث مومل کے پاس رانو کا آنا جانا کم ہوگیا۔ مومل ہمیشہ ہر رات اس کا انتظار کرتی مگر کسی رات رانو آتا اور کسی رات وہ نہ آ پاتا۔ ایک رات مومل کو رانوکے انتظار میں نیند نہیں آ رہی تھی تو اس کی بہن نے رانو کے کپڑے پہنے اور مومل کے ساتھ سوگئی۔ اس رات رانو دیر سے آیااور جب وہ مومل کے کمرے میں پہنچا تو اس نے سمجھا کہ مومل کسی غیر مرد کے ساتھ سو رہی ہے۔ رانو کو یہ سب کچھ دیکھ کر بہت غصہ آیا۔ اس نے پہلے تو سوچا کہ وہ دونوں کو قتل کردے مگر اس کو مومل سے بہت محبت تھی۔ اس نے مومل کے سرہانے نشانی کے طور پر اپنی چھڑی چھوڑی اور خود واپس چلا گیا۔ جب صبح کو مومل بیدار ہوئی تب اس کو معلوم ہوا کہ رات رانو آیا تھا اور وہ غلط فہمی کے بنیاد پر روٹھ کر چلا گیا ہے۔ مومل نے رانو کے پاس کئی قاصد بھیجے مگر رانونے مومل کے پاس آنے سے انکار کردیا۔ مومل اپنے رانو کے انتظار میں ہر رات جاگ کر کاٹتی ۔ محبت میں غلط فہمی اور اس کے نتیجے میں جنم لینے والا فراق مومل رانو کی کہانی کا موضوع بن گیا۔جب مومل کو محسوس ہوا کہ رانو اس پر اعتبار نہیں کرتا تو اس نے آگ کا بہت بڑا الاؤ بھڑکایا اور اس میں کود کر راکھ بن گئی۔ یہ المیاتی کہانی مومل رانو کی کہانی ہے۔ اس کہانی میں سب سے زیادہ تکلیف دہ مرحلہ اس انتظار کا تھا جس کی اذیت کو مومل کے لیے برداشت کرنا ممکن نہیں تھا۔ مومل رانو کی کہانی اذیت سے بھرے ہوئے انتظار کی کہانی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو صرف انگریزی ادب کا عاشق نہیں تھا۔ اسے اپنی دھرتی کے لوک ادب سے بھی عشق تھا۔ اس لیے اس نے اسیری کے دوراں لکھا تھا کہ ’’میں سندھ کا رانو ہوں۔ سندھ کی دھرتی میرا انتظار مومل کی طرح کرے گی‘‘ سندھ کی سیاسی تاریخ نے ثابت کیا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے یہ بات سچ لکھی تھی کہ سندھ اس کا انتظار اس طرح کرتی رہے گی جس طرح مومل نے رانو کا انتظار کیا تھا۔سندھ کو اب تک اپنے رانو کا انتظار ہے۔ سندھ اس تلخ سچائی کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں کہ اس کا رانو چالیس برس قبل قتل ہوچکا ہے۔ وہ لاڑکانہ کی گڑھی خدا بخش میں دفن ہے۔ مگر سندھ کی فضاؤں میں اب تک یہ نعرہ گونج رہا ہے’’زندہ ہے بھٹو زندہ ہے‘‘ ذوالفقار بھٹو کے نام کے نیچے اپنی کرپشن چھپانے کی کوشش آج بھی ہور ہی ہیں لیکن سندھ کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ بھٹو کے نام پر ان کی امانت جو گیارہ برس خیانت ہوتی رہی اس کا ذمہ دار زرداری ہے۔ زرداری نے ذوالفقار علی بھٹو کے نعرے کو اپنے کرتوت چھپانے کے لیے ایک ڈھال کے طور پر استعمال کیا ہے ۔ زرداری نے اپنے بیٹے بلاول کے نام کے ساتھ بھٹو کا نام جوڑ کر یہ تاثر دینے کی کوشش کرتا رہا ہے کہ بھٹو کا اصل وارث اس کا بیٹا ہے مگر نہ صرف سندھ بلکہ پورے پاکستان کو انتظار ہے کہ بھٹو خاندان کے اصل وارث آئیں اور سیاست کے قتل گاہ سے اپنے دادا کا پرچم اٹھائیں اور ذوالفقار علی بھٹو کے عشاق عوام کو بتائیں کہ ’’زندہ ہے بھٹو زندہ ہے‘‘ سندھ آج بھی منتظر ہے کہ اپنے دادا کی وارث دانشور پوتی فاطمہ بھٹو آئے اور عوام کو بتائے کہ بھٹو کے نام پر عوام کا کس قدر استحصال کیا گیا ہے۔ میڈیا اور خاص طور پر سوشل میڈیا پر اس قسم کی خبریں ایک عرصے سے گردش کر رہی ہیں کہ فاطمہ بھٹو عملی سیاست میں قدم رکھنے کا فیصلہ کر چکی ہیں مگر فاطمہ بھٹو نے اب تک باضابطہ عملی سیاست میں آنے کا اعلان نہیں کیا مگر اس نے ہمیشہ اشارے کیے ہیں کہ کسی بھی وقت عملی سیاست کے میدان میں اترنے کا اعلان کرسکتی ہیں۔ لاہور لٹریچر فیسٹول میں ان کی شرکت اور اس موقعے میں ان کی باتیں اس کا اشارہ تھیں کہ وہ سیاست سے لاتعلق نہیں ہے۔ فاطمہ کواچھی طرح سے معلوم ہے کہ وہ جب عملی سیاست کے میدان میں اترنے کا اعلان کریں گی تب بھٹو سیاست کے حوالے سے ایک ایسا طوفان برپا ہوجائے گا جس میں زرداری کا ڈرامہ کسی سوکھے ہوئے پتے کی طرح اڑ جائے گا۔ سندھ کو اس گھڑی کا انتظار ہے۔ اس گھڑی سے آصف زرداری بھی گھبرا رہے ہیں۔ اس گھڑی کے انتظار میں سندھ کے سارے راستے سانس روکے کھڑے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کو معلوم نہ تھا کہ حالات کا رخ اس طرح بھی بدل جائے گا۔ مگر حالات کے سامنے سب بے بس ہیں۔ سندھ تاریخ برائے بحالی جمہوریت کی تحریک کے بعد کوئی بڑی سیاسی اور جمہوری تحریک چلانے کے سلسلے میں اب تک تیارنہیں۔سندھ کی سیاست میں جو تحرک تھا۔ سندھ کی سیاست میں جو سرکشی تھی۔ سندھ کی سیاست میں جو ایک بھرپور امید تھی۔ وہ تحرک؛ وہ سرکشی اور وہ امید ختم نہیں ہوئی۔ سندھ کی سیاست زرداری کی زنجیروں میں قید ہے۔ سندھ کی دھرتی اس شہزادی کی طرح قید ہے جس کے جسم میں کرپٹ سیاست کی بہت ساری سوئیاں چبھی ہوئی ہیں۔ سندھ کی سیاست اس گھڑی کی منتظر ہے جس گھڑی میں کوئی سیاسی مسیحا آئے اور سندھ کو زرداری کی سیاست سے نجات دلائے۔ سندھ کی سیاست مومل کے مانند اس پل کی منتظر ہے جس پل اقتداری سیاست کے طلسماتی محل کو کوئی رانی یا کوئی رانو آئے اور سندھ کو سیاسی کرپشن کے اس قید سے آزاد کرائے اور سندھ پوری قوت سے پکارے کہ ’’زندہ ہے بھٹو زندہ ہے‘‘ بھٹو زندہ ہے مگر سندھ کے عوام اس انتظار میں جس انتظار کا تذکرہ کرتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو نے چالیس برس قبل کہا تھا کہ ’’میں سندھ کا رانو ہوں۔ سندھ کی دھرتی میرا انتظار مومل کی طرح کرے گی‘‘