زنگار نامہ میں نے پہلی فرصت میں ہی پڑھ لیا تھا۔ مگر اس پڑھنے میں تاخیر یہ بات ہوئی کہ ایک ادبی تنظیم اس کتاب کی تقریب رونمائی کرنا چاہتی تھی۔ نواز کھرل صاحب نے مجھ سے رابطہ کیا، آپ اس پر مضمون لکھیں۔ سوچا کہ لکھ کر تو کبھی پڑھا نہیں۔ چلو‘ اس تقریب میں جو کتاب پر تاثرات پیش کروں گی، وہی قلم بند کر کے اگلے روز کالم کے لئے بھیج دوں گی۔ تقریب جو مارچ کے دوسرے ہفتے میں ہونا تھی تاحال ملتوی ہے ، وجہ آپ سب کے سامنے ہے۔ زندگی جب سے کورونائی ہوئی ہے‘ زندگی کے سارے رنگ ڈھنگ بدل چکے ہے۔ زنگار نامہ کی تقریب کیا۔ زندگی میں بہت کچھ ملتوی ہوکر رہ گیا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے چلتی ہوئی فلم کا کسی نادیدہ ہاتھ نے Pauseکا بٹن دبا دیا ہے۔ بہرحال اب سے ہمیں رحمت کی امید ہے۔ اسی کا وعد ہے کہ ہر مشکل کے بعد آسانی ہے۔آج جب زنگار نامہ پر لکھنے کے لئے کتاب اٹھائی تو اس کے پہلے صفحے پر نیلی روشنائی سے لکھی ہوئی ایک سطر پر نظر پڑی۔ وہی روایتی الفاظ جو کتاب کسی کو پیش کرنے کے لئے لکھے جاتے ہیں نیچے تاریخ درج تھی ،21فروری 2020ئ! اور اس کے ساتھ ہی جاتی ہوئی سردیوں کی وہ خوشگوار شام ،اپنی ساری چہل پہل کے ساتھ لاک ڈائون کی خاموشی میں رنگ بھرنے لگی، جب عامر خاکوانی اپنی اہلیہ سعدیہ اور بیٹے عبداللہ کے ساتھ ہمارے گھر آئے تھے بلکہ میں نے چائے پر مدعو کیا تھا۔ ان کی اہلیہ سعدیہ مسعود بہاولپور یونیورسٹی میں میری بیج فیلو تھیں۔ میں انگریزی ڈیپارٹمنٹ میں تھی اور سعدیہ پولیٹیکل سائنس ڈیپارٹمنٹ کی طالبہ تھیں۔ سو میں نے چائے پر بلایا کہ چلو بہت عرصہ کے بعد ملاقات ہو جائے گی۔ اس شام کی چہل پہل‘ گھر میں مہمانوں کی رونق اور ہم خیال دوستوں سے گپ شپ آج اتنے دنوں کے لاک ڈائون اور سماجی دوری کے اس خوف سے لبریز عہد میں ایک بھولی بسری سی یاد لگ رہا ہے۔اندازہ نہیں تھا کہ زندگی چند ہی ہفتوں کے بعد بالکل ایک نئے ڈھب سے گزارنی پڑے گی۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ میں نے پہلی فرصت میں ہی کتاب کا ایک بڑا حصہ پڑھ لیا تھا، اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ عامر خاکوانی کا انداز تحریر سادہ، رواں اور سلیس ہے۔ اظہار بیان میں ایک دلنشین بے ساختگی جھلکتی ہے۔ تصنع سے پاک سیدھا سادہ بیانیہ قاری کو اپنے ساتھ باندھے رکھتا ہے۔ اس پر بوجھ نہیں بنتا۔ ایک رواں ندی جیسے بہتی چلی جائے یا کوئی دوست آپ کو قصے کہانیاں سناتا جائے تو آپ سنتے جائیں۔ ایک بات جو کبھی گراں گزرتی ہے ،وہ کالم کی طوالت ہے۔ میرا مخلصانہ مشورہ ہے کہ کالم میں طوالت سے گریز کرنا چاہیے۔ تحریر کا حسن کچھ باتیں ان کہی چھوڑ دینے میں ہے۔خاکوانی صاحب ماشاء اللہ سوشل میڈیا پر مداحین کا ایک بڑا حلقہ رکھتے ہیں۔ مداحین کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کی کمی بھی نہیں جو ان کے خیالات اور نظریات پر سوال اٹھاتے ہیں۔ بحث‘ مباحثہ ایک مناظرے کی سی کیفیت۔ مگر اس میں بھی عامر خاکوانی جس تحمل‘ تہذیب اور برداشت کا مظاہرہ کر کے ایک بار ہجوم بھر میں سبقت لے جاتے ہیں۔ بہرحال مجھے تو حیرت ہوتی ہے کہ پیشہ ورانہ زندگی میں مصروف اور پھر گھر اور خاندان سے جڑا ہوا شخص اتنا وقت آخر کیسے نکال لیتا ہے کہ کالموں کے ساتھ ساتھ طویل سوشل میڈیا کی پوسٹیں تحریر کرے اور پھر مداحوں اور مخالفوں کے پھول اور پتھر۔کھانے کے لئے بھی بنفس نفیس آن لائن موجود رہے۔ ایسی کمٹمنٹ اور ٹائم مینجمنٹ کی داد دینا پڑتی ہے۔ زنگار نامہ میں زندگی سے کشید کئے ہوئے ایسے موضوعات کا انتخاب شامل ہے جو پڑھنے والے کی زندگی میں سوچ کا کوئی چراغ ضرور روشن کریں۔ وہ تحریریں جو زندگی کو بدلیں اور سفر کو بہتر سمت میں موڑ سکیں۔عمل خیر ‘ کتابوں کی دنیا‘ زندگی کے سبق‘ یادیں‘ موٹیویشنل کالم‘ یہ چند ابواب کے نام ہیں ۔کتاب کا دیباچہ اس لئے منفرد ہے کہ اس میں ان تمام لوگوں کے سوالوں کے جواب دیے گئے ہیں جو کالم لکھنا چاہتے ہیں اور اپنے تئیں یہ سمجھتے ہیں کہ وہ پروفیسری کرتے ہوئے پرچون کی دکان چلاتے ہوئے یا کسی کارپوریٹ سیکٹر میں نائن ٹو فائیو جاب کے بعد‘ کالم لکھیں گے ۔اخبار میں چھپے گا اور وہ بھی کالم نگار کہلانے لگیں گے۔ عامر خاکوانی نے ایسی تمام خوش گمانیوں کے سامنے صحافت کے کار زار سے کشید کئے ہوئے اپنی زندگی کے تلخ و شیریں تجربات کا ایک آئینہ قارئین کے سامنے رکھ دیا ہے کہ خود فیصلہ کر لیں کہ کالم نگاری آپ کے بس کا روگ ہے یا نہیں۔ مجھے بھی ایسی ای میلز تواتر سے آتی رہتی ہیں کہ میں کالم نگار بننا چاہتا ہوں۔ کچھ خوش گمان تو اپنی لکھی ہوئی تحریریں بھی ساتھ روانہ کر دیتے ہیں کہ کالم کے صفحے پر شائع کروا دیں۔ایسے تمام افراد کو عامر خاکوانی کی یہ کتاب اور اس کا پہلا باب بطور خاص پڑھنا چاہیے ،تمام سوالات کے جوابات اس میں مل جائیں گے۔سچی بات ہے کالم نگاری ایک طویل میراتھون ہے۔ صرف تحریر لکھنا کالم نگاری نہیں۔ یہ آپ کی بہت سی صلاحیتوں کا مسلسل امتحان ہے۔ زنگار لکھنے والے کا سفر ایک ایسے خواب نگار کا سفر ہے جس نے اپنی زندگی کے سارے خوابوں‘ خواہشوں اور آدرشوں کو‘ صحافت کے بے یقین موسموں کی نذر کیا۔ بلاشبہ صحافت پاکستان میں ایک ایسا شعبہ ہے جہاں نوکری کی سکیورٹی نہیں‘ مالی آسودگی کی ضمانت نہیں۔ ان حالات میں اخبار کی سب ایڈیٹری سے آغاز کرنے والا میگزین کی ایڈیٹری اور کالم نگاری تک پہنچے تو اس کے پیچھے ایک طویل مسافت ہے۔ ایک مسلسل ریاضت کی داستان ہے اور میں وثوق سے اس لئے کہہ سکتی ہوں کہ خود میں نے صحافت کے بے یقین موسموں میں سب ایڈیٹری سے کالم نگاری تک کا سفر طے کیا ہے۔میں اس سفر کے اتار چڑھائو اور دھوپ چھائوں سے شناسا ہوں۔ عامر خاکوانی اس شاندار سفر پر مبارکباد کے مستحق ہیں۔ اس لئے کہ ان کا یہ سفر ان کالم نگاروں کے سفر سے یقینی طور پر مختلف ہے جن کی زندگیوںمیں مالی آسودگی کا بندوبست کسی اور شعبے کا مرہون منت ہے۔ جبکہ اس نے تو اپنے جیون کے سارے خواب ساری آدرشیں صحافت کے ان بے یقین موسموں کی نذر کئے ہیں۔طویل ریاضت کے بعد یہ سب کچھ حاصل کیا ہے۔زنگار لکھنے والا بجا طور پر کہہ سکتا ہے: فصیل شہر میں پیدا کیا ہے در میں نے کسی بھی بابِ رعایت سے میں نہیں آیا