کہنے کو اک الف تھا مگر اب کھلا کہ وہ پہلا مکالمہ تھا مرا زندگی کے ساتھ اے سعدؔ فن یہی ہے کہ کہہ جائے آدمی مشکل ترین بات بڑی سادگی کے ساتھ آپ میرا حال دیکھیں کہ میرے ہاتھ عامر ہاشم خاکوانی کی کتاب زنگار نامہ لگ گئی اور میں نے رات سرداروں کے وقت پر اٹھ کر اپنے لئے کافی بنائی اور ابوالکلام کی چائے کی طرح اسے نوش کیا اور مزے لے لے کر کتاب کا ابتدائی حصہ پڑھ ڈالا۔ اصل میں آج ہی سرشام ایک مقامی ہوٹل میں ہمارے محمد ضیاء الحق نقش بندی نے اس کتاب کی تقریب پذیرائی کا اہتمام کر رکھا تھا جس کی صدارت ہمارے عہد کے مقبول و محبوب ترین شاعر امجد اسلام امجد نے کی ۔ عامر خاکوانی کے انداز نگارش کے بارے میں میرا جو احساس ہے وہ میں نے وہاں بھی بیان کیا کہ coolاور deepہے یعنی اس میں ٹھنڈک ہے مگر گہرائی اور گیرائی رکھتی ہے۔ خالد شریف کا شعر مدد کو آ گیا کہ ’’نہ اترے گا ہمارے پیار کا رنگ۔یہ دھیما ہے مگر کچا نہیں ہے۔حقیقتاً ان کی لکھی ہوئی تحریر یں اپنا اثر چھوڑتی ہیں۔ میں خود انہیں ایک عرصہ سے پڑھ رہا ہوں۔یہ خوش اتفاقی ہے کہ ان کا ساتھ سی این این(کونسل آف نیشنل افیئر) میں بھی رہا اور روزنامہ دنیا میں بھی اور اب 92نیوز میں بھی۔ وہ ایک بھر پور شخصیت کے مالک ہیں۔ محنتی‘ مخلص ‘وضعدار اور اپنے کام میں طرحدار۔سید ارشاد احمد عارف نے ایسے ہی 92نیوز کے لئے ان کا انتخاب نہیں کیا تھا۔ آپ ان کی صلاحیتوں پر اعتماد کر سکتے ہیں اور وہ اپنی توانائیاں اپنے پیشہ پر نچھاور کر دیتے ہیں۔کبھی ان سے ملیں تو ان کی دوسری آنکھ اپنے کام پر ہوتی ہے۔ وہ بائی چوائس صحافت سے وابستہ نظر آتے ہیں‘تبھی اتنے کامیاب و کامران ہیں۔انہوں نے اپنے مزاج سے ہٹ کر معلوم نہیں کیوں کچھ صحافتی دوستوں کا شکوہ کیا۔ میں نے تو ان سے سیکھا کہ: مت شکایت کرو زمانے کی یہ علامت ہے ہار جانے کی ان کی اس خوبی کے تو سب ہی قائل ہیں کہ وہ مخالف رائے کو اہمیت دیتے ہیں اور ہمیشہ دلیل اور منطق سے بات کرتے ہیں۔ وہ مکالمے پر یقین رکھتے ہیں۔یہ تو ہم نے ان سے سیکھا کہ دوسرے کے موقف میں ردو قبول میں جلد بازی کا ردعمل نہیں دینا بلکہ سوچ سمجھ کر ایک وقار کے ساتھ بحث کرنی ہے اور دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش نہیں کرنی بلکہ اس کو سمجھنے کا چارہ کرنا ہے۔میرا خیال ہے کہ یہ ان کی تربیت کا حصہ ہے کہ خاندانی روحانیت اور ان کے استاد سرفراز شاہ کا فیضان۔وہ مزاجاً بھی دھیمے اور پیارے ہیں اوریا مقبول جان نے سٹیج پر آ کر خوب کہا کہ وہ تو صرف یہ اعتراف کرنے آئے ہیں کہ ان کی حسرت رہی کہ وہ عامر خاکوانی کی طرح سہل ممتنع میں نثر لکھ سکیں۔واقعتاً یہ آسان نہیں میں نے آغاز میں اسی لئے ان کے لئے شعر لکھا تھا۔چلیے سہل ممتنع سمجھانے کے لئے ایک شعر لکھ دیتا ہوں: اس نے پوچھا جناب کیسے ہو اس خوشی کا حساب کیسے ہو سجاد میر صاحب نے عامر خاکوانی کی بہت تحسین کی اور خاص طور پر نظریات کے حوالے سے کہ وہ نظریاتی جنگ وہ پچھلے کئی برسوں سے لیفٹ کے لوگوں سے لڑتے رہے وہ اب عامر خاکوانی جیسے باصلاحیت کالم نگاروں نے جاری رکھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ 92نیوز کے جس صفحہ پر میں چھپتا ہوں اسی جگہ عامر خاکوانی چھپتے ہیں۔ وجاہت مسعود نے برجستہ گرہ لگائی ’’آکے سجادہ نشین قیس ہوا میرے بعد‘‘وجاہت مسعود نے بھی بہت تخلیقی باتیں کیں اور کہا کہ اب معاشرہ زوال آمادہ ہے ایک دوسرے کے نظریے کو برداشت کرنے کا حوصلہ نہیں۔ برداشت نہیں۔ انہوں نے اس حوالے سے عامر خاکوانی کی کالم نگاری کو بہت سراہا۔انہوں نے بہت اچھی بات کہی کہ صحافت ادب کی جگہ نہیں لے سکتی۔ عامر خاکوانی کی خوبی یہ کہ وہ بے شمار کتب پڑھتے ہیں اور پھر انہیں اپنی تخلیق کا حصہ بناتے ہیں۔ حسین پراچہ صاحب نے بھی اپنے سے انداز میں صاحب کتاب کی تعریف کی اور ان کے متنوع موضوعات کی طرف اشارہ کیا کہ وہ اتنی ساری سمتوںمیں کیسے سفر کر لیتے ہیں۔طاہر ارشاد صوفی صاحب نے تو باقاعدہ خاکوانی صاحب کے روحانی کالموں پر بات کی اور داد دی۔ میں غالب کو تو کوٹ نہیں کروں گا کہ جس نے کہا تھا: یہ مسائل تصوف یہ ترا بیان غالب تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا حافظ زہیب اور خالد ارشاد صوفی نے بھی صاحب کتاب کے ساتھ اپنی اپنی محبت کا اظہار کیا۔ڈاکٹر لبنیٰ ظہیر اور سعدیہ بشیر نے بھی ان کے کالموں پر روشنی ڈالی اور کہا کہ وہ تو ان کی قاری ہیں۔آخر میں امجد اسلام امجد نے اپنے صدارتی خطبے میں بہت اچھی اور پتے کی باتیں کیں کہ عامر خاکوانی نے اپنے عہد کی تصویر کشی کی ہے۔ان کالموں میں اس عہد کا نوحہ بھی ہے اور منظر نامہ بھی۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے ترکوں کے ہاں دیکھا کہ وہ غلط اور صحیح کا فیصلہ نہیں کرتے بلکہ بہتر اور بہترین کام کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ عامر خاکوانی کے ہاں وژن ہے اور وسعت ہے۔امجد صاحب سے پہلے محمد ضیا الحق نقش بندی نے عامر خاکوانی کو تقریب کا دولہا کہہ کر بلایا تو سب قہقہہ بار ہو گئے کہ یہ تو اشتعال دلانے والی بات ہے۔ بہرحال صاحب تقریب نے بہت زبردست گفتگو کی اور اس میں سب سے اہم بات یہ کہ ان کے ہاں تشکر کا جذبہ ایسا کہ جو ان کی قوت بھی ہے اور سہارا بھی۔ شعر یاد آ گیا کہ ان کی نذر کر دوں: کیا بتائوں نوازشات اس کی ایک پتھر پہ پھول گرتے رہے ’’زنگار‘‘ کے بعد ’’زنگار نامہ‘‘ ان کے کالموں کا دوسرا مجموعہ ہے جس کا انتساب انہوں نے اپنی والدہ محترمہ کے نام کیا ہے۔ انہوں نے کالموں کو نوعیت کے اعتبار سے گوشوں میں بانٹ دیا ہے۔واقعتاً یہ ایسی تحریریں ہیں جو آپ کی زندگی بدل سکتی ہیں۔ ’’اسے نئی سوچ پبلشرز‘‘کے تحت سید قاسم علی شاہ کے زیر نگرانی شائع کیا گیا ہے کہ یہ ایک فکری سلسلہ بھی ہے کہ آدمی کو انسان کیسے بنایا جائے کہ اس میں محنت تو درکار ہے۔واقعتاً میں نے بھی سوچا کہ میں اپنے بچوں کو اس کتاب کے مطالعہ کے لئے کہوں۔ یہ مقام ان کو ان کی کتاب دوستی کے باعث ملا ہے کہ انہوں نے کہا کہ ان کی کتاب بھی پڑھنے کے لائق ہے۔وہی کہ ایسا لکھ جائو کہ پڑھا جائے۔تقریب کے آخر میں بہت اچھا لگا کہ نعمت اللہ خاں کے لئے دعائے مغفرت کروائی گئی۔نعمت اللہ خان ایسے عظیم لوگ نایاب نہیں تو بہت کمیاب ہیں۔اللہ ان کی مغفرت فرمائے آمین۔