اسکا نتیجہ یہ نکلا کہ وہاں کی آبادی پوری کرنے کیلیے آج انہیں مشینوں سے بچے پیدا کرنے پڑ رہے ہیں۔ جب انکی ماؤں نے گھروں سے نکل کر کام کرنے اور ملکی ترقی میں مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنے کی ٹھانی تو لا محالہ انہیں اپنی نسوانیت سے ہاتھ دھونے پڑے۔ ایک کامیاب اور پروفیشنل خاتون بننے کیلیے جہاں اپنے گھر کی راجدھانی کی قربانی دی تو وہیں ماں کے خوبصورت ترین رشتے سے بھی دستبرداری کا اعلان کرنا پڑا۔ آگے سے آگے بڑھنے کی دوڑ نے جہاں ماؤں سے انکے بچے چھینے وہیں بچوں سے والدین بھی ہتھیا لیے۔ بچپن نینی، بے بی سٹر اور ڈے کیئر سینٹرز میں گزارنے والے بچے جب بلوغت کی عمر کو پہنچے تو کم عمری میں ہی طرح طرح کے ڈیپریشن اور ذہنی امراض کا سامنا کرنا پڑا۔ ماؤں کی محبت اور گود کی گرمی سے نا آشنا بچوں نے بوائے فرینڈز اور گرل فرینڈز کی بانہوں میں وہ پیار اور سکون تلاشنا شروع کردیا جو ان کی دنیا میں ناپید ہے۔ جوانی میں پہلا قدم رکھتے ہی آزادی اور خودمختاری کا جو ٹھپہ لگتا ہے تو گھروں کی دیواریں الگ ہو جاتی ہیں۔ اٹھارہ سال کے بعد "نام نہاد" ماؤں اور باپوں سے جان تو چھوٹ جاتی ہے لیکن ترقی کے اس زینے پہ چڑھتے چڑھتے انسان اس مقام پہ پہنچ جاتا ہے جہاں سے خودکشی کے علاؤہ کوئی راستہ دکھائی نہیں دیتا۔ اگر یہ حقیقت نا ہوتی تو تمام ترقی یافتہ ممالک میں خودکشی کی شرح اتنی بلند نا ہوتی۔ ہمارے جیسے ممالک میں غربت، بھوک، افلاس تنگ دستی اور بے روزگاری کے ہاتھوں تنگ آ کر خودکشی کرنے کی وجہ تو سمجھ میں آتی ہے لیکن ترقی یافتہ ممالک میں جہاں صاف ستھرا ماحول، خوبصورت گھر، ہرے بھرے درخت ، بہترین انفراسٹرکچر اور صاف ستھری فضا بھی انسانوں کو خودکشی سے نا روک سکی۔ کیا ہم نے بحثیت انسان کبھی سوچا کہ آخر کوئی تو وجہ ہو ہے۔ جنت جیسے گھر میں رہتے ہوئے آخر کون ہے جو اپنی موت کو خوشی خوشی گلے لگانے پہ تیار ہو جاتا ہے۔ کیونکہ احساسات وجذبات واحد وہ چیز ہیں جو انسان کو انسان بناتے ہیں اور بچپن میں رہ جانے والی محرومیوں کو کوئی نہیں سمجھ سکتا سوائے اسکے جو اس محرومی سے گزرا ہو۔ مغرب کی دنیا بھلے کتنی ہی ترقی یافتہ کیوں نا ہو لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ وہاں کی اکثریت اپنے ماں باپ سے محروم ہے جو شاید اپنے حقیقی ماں باپ تک سے واقف نہیں۔ جو خوبصورت گھروں کے ہوتے ہوئے خوبصورت رشتوں سے محروم ہیں۔ ان کی جوانیاں اگر سچی محبتوں کو ڈھونڈتے ہوئے گزرتی ہیں تو بڑھاپا اولڈ ہومز میں دیواروں کو گھورتے ہوئے گزر جاتا ہے۔ ان کے بچے ماں، باپ، دادا، دادی، نانا، نانی، پھپھو، چچا، ماموں اور خالہ جیسے خوبصورت رشتوں سے محروم ہیں جو صرف انکل اور آنٹی کے ناموں سے واقف ہیں۔ رشتوں کی جو خوبصورتی ہم نے اپنے بچپن میں محسوس کی وہ اگرچہ اب ہمارے معاشرے میں بھی ناپید ہوتی جا رہی ہے کیونکہ ہمیں بھی اس ترقی کا چسکا لگ گیا ہے لیکن ہماری یادوں میں اب بھی وہ گھر اور آنگن محفوظ ہیں جن کی خوبصورت انمٹ یادیں ہمیں کسی اور دنیا میں لے جاتی ہیں اور جنکا کوئی مول نہیں۔ بات مشین سے بنی ان مصنوعات کی ہوتی جو ہماری زندگی کو سہل بناتی ہیں تو ٹھیک تھا لیکن انسان بھی اگر مشینوں سے پیدا ہونے لگ گئے ہیں تو میری نظر میں یہ انسانی زوال کا آخری زینہ ہے۔ انسان ترقی کی جس معراج پہ بھی پہنچ جائے وہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ کی تخلیق تک نہیں پہنچ سکتا۔ پچھلی صدی میں ہونے والی سائنسی ایجادات کے فوائد سے زیادہ نقصانات اس انسانیت نے بھگتے ہیں چاہے وہ بندوق ہو یا بم ، دستی بم سے ایٹم بم تک کے بھیانک نتائج سے آج ہم اچھی طرح واقف ہیں۔ قلم سے شروع ہونے والے سفر نے کمپیوٹر سے آگے ٹچ سکرین موبائل تو عطا کر دیا لیکن ساتھ ہی کتنی ذہنی اور جسمانی بیماریاں تحفے میں دیں آج ہم سبھی جانتے ہیں۔ آج مغرب اپنی ہی بنائی ہوئی سائنسی ایجادات کے نقصان سے ہمیں آگاہ کرتا رہتا ہے اور آئے روز نئی سے نئی تحقیقات سامنے آتی رہتی ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام نے جن فیکٹریوں اور کارخانوں کو جنم دیا ان کے دھویں اور زہریلے مادوں نے آج ہماری زمین کو اتنا زہریلہ کر دیا ہے کہ اب شاید دنیا میں کوئی خالص اور ستھری زمین نہیں بچی۔ ہم خود اور ہماری نسلیں زہر آلود کھانے کھانے پہ مجبور ہیں۔ تو گویا انسان اپنی ہی بنائی ہوئی ایجادات اور تخلیقات سے تنگ اور عاجز آچکا ہے۔ فضائی آلودگی اور گلوبل وارمنگ نے انسان کو اس نہج پہ پہنچا دیا ہے کہ اب وہ نئی نویلی زمین کی تلاش میں مریخ کے چکر کاٹ رہا ہے۔ آج چینی کی بجائے گڑ شکر، ڈالڈا کی بجائے خالص دیسی گھی، سفید کی بجائے گلابی نمک، پلاسٹک کی جگہ مٹی کے برتن استعمال کرنے کے مشورے اسی مغربی سائنس دانوں کی جانب سے دیے جا رہے ہیں جنکے بڑوں نے یہ سب ایجاد کیا تھا۔ گھر میں بھاری مشینوں پہ ورزش کی بجائے کھلی تازہ ہوا میں ورزش، گاڑی کی جگہ پیدل چلنے کو ترجیح اور کولڈ ڈرنکس کی بجائے صاف قدرتی پانی پینے کی نصیحت بھی مغربی میڈیا سے ملتی رہتی ہے کیونکہ انسان چاہے دنیا کے جس کونے پہ بھی ہو ماضی کے تجربات سے یہ سیکھ چکا ہے کہ قدرت کے قریب رہنے اور اسکے بنائے اصولوں پر چلنے میں ہی انسانیت کی بقاء اور بھلائی ہے۔ گویا مختصر یہ کہ مشین پہ بچے پیدا کرکے خوشیاں منانے والوں کو آخر یہ بات سمجھ کیوں نہیں آ رہی کہ ایک صدی بعد ہماری مشینی نسلیں پھر سے ماں کی کوکھ ڈھونڈ رہی ہونگی۔ ایک بار پھر سے سائنس مشینی بچوں اور انکے نقصانات پہ سیر حاصل بحث کرنے کے بعد عورتوں کو اس بات پہ قائل کر رہی ہو گی کہ خدارا قدرتی طریقے سے بچے پیدا کر کے اپنے عورت ہونے کا ثبوت دیں اور ماں کے اس اعلیٰ درجے پہ فائز ہونے کے فوائد پہ لمبے لمبے سیمینار بھی منعقد ہوا کریں گے جیسا کہ آج ڈبے کے دودھ کی ممانعت اور ماں کے دودھ کی افادیت پہ لیکچر دیے جاتے ہیں۔ آنے والی نسلیں بھی ماں کی کوکھ اور اس سے جنم لینے والے بچوں کو فوقیت دیں گے۔ بطور ماہر عمرانیات ، بہت غور و فکر کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ انسان اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی بہترین تخلیق ہے اور بلاشبہ قدرت کا نظام سب سے بہترین اور پرفیکٹ ہے۔ انسان جتنی ترقی کر لے اللہ کا مقابلہ نہیں کر سکتا اور ایک وقت آتا ہے کہ انسان پھر سے اپنے اصل کی جانب لوٹ جانے کو ترجیح دیتا ہے کیونکہ یہی اسکی فطرت ہے اور بحثیت مسلمان یہ میرا یقین ہی نہیں ایمان بھی ہے۔