کچھ دل ہی جانتا ہے کہ بعد از خرابی بسیار محبوبہ مفتی کو دو قومی نظریہ یاد آیا تو اس پہ کیا گزری۔کچھ اس قدرگراں،کہ مجھے ان کے بیان کے اس حصے سے قانونی اور اصولی اختلاف بھی بھول گیا،جس میں انہوں نے دعوی کیا کہ تقسیم کے وقت پاکستان کی بجائے بھارت کے ساتھ الحاق کشمیر کی غلطی تھی۔اس پہ بحث ہوتی رہے گی کہ کیا واقعی کشمیر نے بھارت کے ساتھ الحاق کرلیا تھا؟کب اور کیسے یہ واقعہ رونما ہوا ؟ تاریخ اس پہ خاموش کیوں ہے؟آزادانہ استصواب رائے کب منعقد ہوا اور پاکستان نے کشمیر سے اپنا حصہ بزور قوت وصول کرکے اس کی خلاف ورزی کیوں کی؟ایسے بہت سے سوالات ہیں جو محبوبہ مفتی کو سامنے بٹھا کر پوچھنے کا دل کرتا ہے لیکن اس زود پشیماں کی پشیمانی دیکھی نہیں جاتی۔کاش انہیں دو قومی نظریہ اس وقت یاد آتا جب وہ مسلمانوں کی نسل کشی میں ملوث مودی کی پارٹی بی جے پی کے ساتھ اتحاد کے نتیجے میں وزارت اعلی کے مزے لوٹ رہی تھیں اور اس وقت تک لوٹتی رہیں جب تک خود بی جے پی اتحاد سے دستبردار نہیں ہوگئی۔ تو کیا گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام جائز تھا لیکن کشمیر میں آرٹیکل 370 کی منسوخی اور انسانی حقوق کی خلاف وزری جائز نہیں ہے؟کیا آسام میں مسلمانوں کا خون کسی اور رنگ کا تھا ؟ آئے روز مسلمان نوجوانوں کا گاو کشی کے جرم میں قتل کونسے انسانی حقوق کا پالن تھا جس پہ محترمہ خاموش رہیں۔ یہ بھی ایک تماشہ ہی ہے کہ کانگریس آج بی جے پی اور مودی کی مخالفت میں کشمیر میں انسانی حقوق کی علمبردار بنی ہوئی ہے۔کشمیر میں بھارت کے تسلط کے پیش نظر محترمہ کے والد مفتی سعید کے سر پہ وزارت اعلی کا ہما بٹھانے والی بھی یہی کانگریس ہی تھی۔ اندرا گاندھی نے مفتی سعید کو کشمیر میں کانگریس کی کمان سونپی۔اس دوران کون سا ستم تھا جو کشمیریوں پہ نہیں ٹوٹا لیکن کسی کو دو قومی نظریہ یاد نہیں آیا۔ مفتی سعید دہلی میں جلا وطنی کے دوران جنتا دل کے دور میں سیکولر بھارت کے پہلے مسلمان وزیر داخلہ رہے اس کے بعد کشمیر کے وزیر اعلی بنا دیے گئے۔ سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا ۔ دو قومی نظر یہ ایک ڈھکوسلے کے سوا کچھ نہیں تھا۔ سب کچھ اتنا ٹھیک چل رہا تھا کہ جب مفتی سعید 2016 میں پھیپھڑوں کے کینسر کے باعث راہی ملک عدم ہوئے تو اسی بی جے پی ، جس نے آج محبوبہ مفتی کو دو قومی نظریہ سمجھایا ہے، کے پردھان منتری مودی نے ان کی وفات کو قومی نقصان قرار دیا۔والد کی وفات نے محبوبہ کی وزارت اعلی کی راہ ہموار کی۔ تاآنکہ خود بی جے پی نے دست شفقت نہ کھینچ لیا۔ بی جے پی جو معتدل کانگریس کا اصل چہرہ ہے۔ کیا تاریخ گواہی نہیں دیتی کہ قیام پاکستان کا بیج اسی معتدل کانگریس نے اپنے تعصب کی مٹی میں بویا تھا۔ ابو الکلام آزاد جیسے عبقری سے بھی یہ حقیقت پوشیدہ نہیں تھی جس کا اظہار انہوں نے تقسیم کے بعد ہجرت کے وقت ہونے والے قتل عام کو دیکھ کر رنجیدگی سے کیا۔ اسی رنجیدگی کا سامنا مجھے بارہا کرنا پڑتا ہے جب مجھے بھارت میں رہ جانے والے اپنے کانگریسی خاندان کی زبانی مسلم دشمنی کے قصے سننے پڑتے ہیں۔بھارتی مسلمانوں کی روز بروز بدلتی اقدار اور اپنی بقا کے لئے یکے بعد دیگرے اسلامی روایات پہ سمجھوتے کا دکھ ، جماعت اسلامی ہند کا بی جے پی کے ساتھ اظہار یکجہتی کی حیرت پہ حاوی ہوجاتا ہے۔ نہایت اعلی تعلیم یافتہ ، کانگریس کے کئی ایم پیز پہ مشتمل میرا خاندان جس کا ایک رکن اندرا گاندھی کا ذاتی معالج رہ چکا،کانگریس کے دو ر حکومت میں بس زندہ رہنے کی عیاشی کرسکا۔اس تھوڑی سی عیاشی کے لئے انہوں نے کیا کیا نہ کیا۔ مسلمانوں کو تحقیر کی نگاہ سے دیکھا۔ان کے مقابلے میں ہندووں کے ساتھ دوستی کو مقدم جانا۔ ہندو بھی نہیں برہمن۔تاکہ ان کے لئے سماج میں عزت اور سہولت پیدا ہوسکے۔ اپنے نام تک ایسے رکھے کہ ان کے سابقے اور لاحقے باآسانی تبدیل ہوسکیں یا جن سے قرون اولی کے مسلمانو ں سے کوئی نسبت محسوس نہ ہو اور سرکار مائنڈ نہ کرجائے یا لوک سبھا میں بیٹھے کولیگز کو انہیں پکارنے میںکسی دشواری یا ناگواری کا سامنا ہو۔ گائے کا ہی نہیں ہر قسم کا گوشت کھانا ترک کردیا اور خالص سبزہ خوری پہ اتر آئے جس کے بعد صرف ممیایا جاسکتا تھا۔ہندو خاندانوں میں بغیر تبدیلی مذہب شادیاں کیں جو آج تک قائم ہیں۔مندروں میں افطار پارٹیاں بھی انہوں نے دیں اور دیوالی اور ہولی میں پیش پیش بھی رہے۔ پاکستان اور محمد علی جناح کیخلاف باتیں سرکاری فریضہ سمجھ کر انجام دیتے رہے۔مجھے یاد ہے یہ سب اس وقت بھی جب مذہبی تعصب کے باعث ان کے لئے ڈگریاں جلانے کی نوبت آگئی تھی،محمد علی جناح اور پاکستان پہ دشنام طرازی اپنا فرض سمجھتے تھے ۔ اتنی قربانیوں اور سمجھوتوں کے باوجود ان پہ سرکاری نوکریوں کے دروازے اکثر بند رہے۔انہیں شبہے کی نظر سے دیکھا جاتا رہا۔ ان کی وفاداری، لوک سبھامیں بھی مشکوک رہی۔ ادب،صحافت، طب، تعلیم، انجینئرنگ اور تحقیق کے میدان میں اعلی کارکردگی کے باوجود آج بھی معاشی استحکام کے لئے ہاتھ پیر مارنا ان کی مجبوری ہے۔ سیاست میں کچھ سہولت انہیں اس لئے میسر ہوئی کہ وہ کانگریس کے لئے مسلم ووٹ بینک کی ضمانت تھے۔اب تو خیر کانگریس نے بھی انہیں ٹکٹ دینے سے انکار کردیا کیونکہ ہندوتوا کا بھوت جو بی جے پی کے سرچڑھ کر بول رہا ہے، اسے پیدا کرنے والی یہی کانگریس ہی تھی۔اب کانگریس کو بھی اندازہ ہوگیا ہے کہ منافقت کا پردہ چاک کرنا ہی اس کے لئے بہتر ہے یا اب اس کی ضرورت نہیں رہی۔آج اگر کانگریس کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے پہ مودی کی مخالفت میں کھڑی نظر آرہی ہے تو اس کی وجہ اس کی مسلمانوں سے محبت نہیں ہے بلکہ وہ بھارت کو اس کے ردعمل سے بچانا چاہتی ہے۔ بالفرض یہ اقدام واپس بھی ہوگیا تو کیا کشمیر پہ بھارت کا قبضہ جو آرٹیکل 370 کی منسوخی سے قبل بھی تھا، کیا پہلے کی طرح قائم نہیں رہے گا؟بات یہ ہے کہ دنیا بھر میں مسلمانوں کی نسل کشی کے بڑے منصوبے کا ہندی باب کھل گیا ہے۔ آپ اسے تزویراتی گہرائی کی موٹی سی اصطلاح کے پس منظر میں سمجھنا چاہیں تو شوق سے سمجھیں ، لیکن اس کی جڑیں مسلم دشمنی اور ہندوستان کی سرزمین کو ہندووں کے علاوہ کسی کے لئے بھی قابل رہائش نہ رہنے دینے کے مذہبی عقیدے سے جڑی ہیں۔ اس نظریے کو محمد علی جناح نے سمجھ لیا اور اسے ناقابل علاج سمجھ کر قیام پاکستان کی عافیت چن لی۔۔ محمد علی جناح کو کوئی خوف اور لالچ نہ تھا انہیں مسلم قوم کی عافیت اور بقا مطلوب تھی ۔محبوبہ مفتی جیسے لوگوں کو دو قومی نظریہ وزارت اعلی چھن جانے اور دوبارہ کبھی ہاتھ نہ آنے کے خوف سے سمجھ میں آتا ہے۔