گزشتہ روز وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوا جس میں قانونی ٹیم کی جانب سے مجوزہ ریپ آرڈیننس کا مسودہ پیش کیا گیا۔ وفاقی کابینہ نے زیادتی کے مجرموں کو سخت سزائیں دینے کی سفارشات منظور کر لیں جس کے مطابق زیادتی کے مجرمان کیلئے کیسٹریشن (نامرد بنانے) کا قانون بھی شامل ہے۔ تاہم سزائے موت شامل نہیں جبکہ موجودہ زناء آرڈیننس دفعہ 375 کے سیکشن 376 میں زناء کی سزا کے بارے میں کہا گیا ہے کہ سزائے موت/ کم سے کم سزا دس سال اور زیادہ سے زیادہ 25 سال ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ سزائے موت سے بڑھ کر کیا سزا ہو سکتی ہے؟ اس کے باوجود جرم ختم نہیں ہوا۔ اس سے ظاہر ہوا کہ سزا سے بڑھ کر مسئلہ عملدرآمد کا ہے پولیس کا پیچیدہ تفتیشی نظام اور انصاف میں تاخیر بھی جرائم میں اضافے کا موجب بن رہے ہیں۔ نامرد بنانے کا قانون کسی بھی لحاظ سے درست نہیں دوسرے لفظوں میں دیکھا جائے تو یہ قانون مذاق کے مترادف ہے اور اس طرح کے قانون کی مثال نہ تو شریعت میں ملتی ہے اور نہ ہی کسی دوسرے اسلامی ملک حتیٰ کہ یورپ میں بھی اس طرح کا قانون نظر نہیں آیا۔ مشرف دور میں بھی حدود آرڈیننس جاری ہوا جو کہ سخت تنقید کی وجہ سے واپس ہوا۔ حساس معاملات پر جتنے بھی قوانین بنائے گئے دیکھنے میں یہ آیا کہ اُن کا استعمال غلط ہوا۔ اصل مجرموں کو کم ہی سزا ہوئی جبکہ ذاتی اعناد و دشمنی کی بناء پر قوانین کے غلط استعمال سے بے گناہ سزا کی بھینٹ چڑھتے رہے۔ یہ قانون اس بناء پر بھی توجہ کا متقاضی ہے کہ اس قانون کے اطلاق سے خود عورت کے متاثر ہونے کا بھی احتمال موجود ہے کہ اگر شادی شدہ مرد سے زیادتی کا جرم سرزد ہوتا ہے تو اُس کو نا مرد کرنے کی صورت میں اُس کی بیوی کو بھی سزا ہو جائے گی اور وہ حق زوجیت سے محروم رہے گی، حالانکہ اُس کا اس جرم میں کوئی بھی عمل دخل نہیں۔ کوئی بھی قانون بناتے وقت اُس کے پہلوئوں پر غور لازم ہوتا ہے۔ ہمارے آئین میں یہ بات درج ہے کہ کوئی بھی قانون خلاف شریعت نہیں بن سکے گا۔ علماء کرام اس بارے میں بہتر بتا سکتے ہیں کہ کیا اس طرح کے قانون کی شریعت میں کہیں اجازت ہے؟ اگر ہم قرآن و حدیث سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں تو نامرد کرنے والی بات کہیں نظر نہیں آتی۔ یہ ٹھیک ہے کہ قرآن مجید میں بد کاری سے منع کیا گیا ہے۔ سورئہ بنی اسرائیل آیت نمبر 31میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا اور بدکاری کے پاس نہ جائو بے شک وہ بے حیائی ہے اور بہت ہی بری راہ۔ اس کے ساتھ یہ بھی عرض کروں کہ جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ ہمارے ہاں قانون کا غلط اطلاق ہوتا ہے اور غلط الزامات لگا کر بے گناہوں کو سزائیں دلوا دی جاتی ہیں۔ قرآن مجید میں جھوٹے الزام لگانے والوں کو فاسق کہا گیا ہے۔ سورئہ النور آیت نمبر 3 میں ارشاد ہوتا ہے اور جو پارسا عورتوں کو عیب لگائیں اور پھر چار گواہ معائنہ کے نہ لائیں تو انہیں 80 کوڑے لگائو اور ان کی کوئی گواہی کبھی نہ مانو اور وہ فاسق ہیں۔ اپنے حقوق کے حوالے سے خواتین آواز بلند کرتی رہتی ہیں۔ خواتین، نوجوان لڑکیوں اور بچوں کے ساتھ بدسلوکی اور جنسی زیادتی کے بڑھتے ہوئے واقعات کے پیش نظر ایک چارٹرڈ آف ڈیمانڈ جاری کیا جس میں اُن کے مطالبات شامل ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا ان مطالبات میں زیادتی کے مجرم کو نامرد بنانے کا مطالبہ کیا گیا؟ سب سے پہلے خواتین کا چارٹرڈ آف ڈیمانڈ دیکھئے۔ وہ کہتی ہیں کہ ہمارا مطالبہ ہے کہ حکومت زندگی کے تمام دھاروں میں خواتین اور لڑکیوں کے تحفظ کیلئے قانون سازی کرے اور ان قوانین پر عملدرآمد کیلئے سخت اقدام اٹھائے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ جنسی زیادتی کے مرتکب افراد کیلئے سخت ترین سزا کا اعلان کیا جائے۔ہمارا مطالبہ ہے کہ تھانوں میں جنسی زیادتی کی شکار خواتین کیلئے مناسب اور آسان طریقہ کار وضع کیا جائے جو کہ رپورٹ درج کروانے میں معاون ہو۔ہمار امطالبہ ہے کہ حکومت تھانوں میں زیادتی کی شکار خواتین کے لئے ’’خواتین ڈیسک‘‘ متعارف کرائے۔ہم میڈیا سے مطالبہ کرتے ہیں کہ جنسی زیادتی کی شکار خواتین اور بچوں کے نام اور دیگر تفصیلات کو صیغہ راز میں رکھا جائے۔زیادتی کا شکار خواتین پر الزامات کو روکنے کے لیے اقدامات کئے جائیں اور الزامات لگانے والوں اور ان کی تائید کرنے والوں کے لئے سخت سزا کا اعلان کیا جائے۔ہمارا مطالبہ ہے کہ جنسی زیادتی کے واقعات کی تفتیش کے دوران اندازوں پر مبنی شواہد کی بجائے فارنزک شواہد کو لازمی قرار دیا جائے۔ ہم حکومت سے استدعا کرتے ہیں کہ صنف پر مبنی تشدد کے مقدمات کو حل کرنے کے لئے عدالتوں کے قیام کے عمل کو تیز کیا جائے اور تحفظ کے عمل کو یقینی بنا کر مقدمات چلائے جائیں۔ فوجداری انصاف کا نظام موثر بنایا جائے تاکہ صنفی بنیاد پر ہونیوالے تشدد سے متعلق مقدمات کو تفتیش سے لے کر سزا تک شفافیت سے نمٹایا جائے۔ ہم سرکاری و نجی کام کی جگہوں پر خواتین کو ہراساں کرنے کیخلاف تحفظ ایکٹ 2010ء کے تحت انسداد جنسی تشدد کمیٹیوں کی تشکیل اور سخت نفاذ کا مطالبہ کرتے ہیں۔خواتین کے چارٹرڈ آف ڈیمانڈ میں زیادتی کے مجرم کو نامرد بنانے کی سزا کا کسی جگہ تذکرہ نہیں۔ حکومت قانون سازی سے پہلے اس کا جائزہ لے۔ خواتین کیساتھ ساتھ قانونی ماہرین اور علماء کرام سے مشاورت کی جائے۔ حکومت کو یہ کام پہلے کرنا چاہئے تھا اور مکمل سفارشات کے بعد اسے کابینہ کے سامنے پیش کیا جاتا اور کابینہ کی منظوری حاصل کرنے کے بعد اسمبلی سے یہ بل پاس کرایا جاتا۔ موجودہ حکومت پر پہلے ہی الزام ہے کہ ان کو کسی کام کا تجربہ نہیں اور اُن کے تمام اقدامات ’’نرالے‘‘ ہیں۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ زیادتی کے واقعات کو ختم ہونا چاہئے۔ خواتین کے ساتھ بچوں اور بچیوں کو بھی تحفظ ملنا چاہئے ۔ اس مقصد کیلئے قابل عمل قوانین اور اس سے بھی بڑھ کر قوانین پر موثر عملدرآمد ضروری ہے۔ اس کیساتھ ہونا یہ چاہئے کہ صنفی اور جنسی تشدد کی حساسیت پر آگاہی مہم کا آغاز ہونا چاہئے۔ حکومت کیساتھ ساتھ سول سوسائٹی اور سماجی تنظیمیں بھی اس کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔ خواتین کے اس مطالبے پر بھی غور ہونا چاہئے کہ مردانہ حاکمیت کا کلچر ختم ہونا چاہئے۔ اس کیساتھ خواندگی کی شرح میں اضافہ، بیروزگاری کا خاتمہ اور انصاف تک سب کی رسائی کا ہونا ضروری ہے۔ موجودہ حکمرانوں نے ریاست مدینہ کی جو بات کی ہے تو وہ عملی طور پر نظر آنی چاہئے اور ریاست کے قوانین بھی ریاست مدینہ کے مطابق ہونے چاہئیں۔