ان دنوں’’اوقاف‘‘ کے کار پردازان نے ایک مستحسن فیصلہ کیا ہے کہ شاعرِ مشرق،حکیم الا ُمّت حضرت اقبالؒ کی قبرِ اقدس پر ہمہ وقت تلاوت ِ قرآن پاک کا سرکاری سطح پر اہتمام ہو،حضرت اقبالؒ کا مزار چونکہ سرکاری پروٹوکول کے بڑے مضبوط حصار میں ہے،جہاں رینجرز کے جوانوں کا چاک و چوبند دستہ ہمہ وقت سلامی کے لیے مستعد رہتا ہے،تاہم اقبالؒ کے بہت سے عقیدت مند اور نیاز کیش ایسے بھی ہیں،جو ان کے مزار پر ایسے حاضری دینے کے خواہاں ہیں جیسے کسی بزرگ یا بابے کے دربار پر،یعنی کہیں’’لنگر ‘‘بَٹ رہا اور پنڈارہ تقسیم ہو رہا ہو، کہیں سماع اور شعر گوئی کی محفل آراستہ ہو ، قرآن خوانی کا اہتمام ہو اور بعض تو مولانا رومی کے مزار کی طرز پر قونیہ جیسا منظر دیکھنے کے بھی متمنی ہیں،یعنی کسی بانسری کی لَے یا ڈھول کی تھاپ پر رقصِ درویش اور دھمال کا سماں ہو ۔حضرت اقبال ؒ بر صغیر کے صوفیائ،جن میں حضرت داتا گنج بخشؒ،خواجہ نظام الدین اولیائؒ، حضرت میاں میر ؒ ،شیخ احمد سرہندیؒ حضرت مجدد الف ثانیؒ سمیت دیگر اکابرین سے از خود متاثر اور ان کے مزارات پر حاضری کو اپنے لیے حررِجاں سمجھتے اور بناتے رہے ۔ تاہم وہ اپنے عہد کی جن معاصرروحانی شخصیات سے از حد متاثر اور ان سے اکتسابِ فیض کے بھی متمنی رہے،ان میں سے ایک حضرت ِ اعلیٰ شیرِ ربانی میاں شیر محمد شرقپوریؒ اور دوسرے حضرت اعلیٰ پیر مہر علی شاہ ؒ گولڑوی تھے،جن سے زمان و مکان پر حضرت شیخ اکبر ؒ کی’’فتوحاتِ مکیہ‘‘کے ایک باب کی وضاحت کے لیے اُس نے ایک عریضے کے ذریعے استدعا بھی کی ۔یہ خط ملک سلطان محمود ٹوانہ نے،جو دربار گولڑہ شریف میں مراسلات کی خدمت پر مامور تھے،ایک خاص وقت میں حضرتِ اعلیٰ گولڑوی کو پیش کیا۔ آپؒ نے غور فرما کر سُنا اور ارشاد فرمایا کہ کسی وقت جب میر ی طبیعت میں افاقہ ہو، پیش کرنا، تاکہ جواب لکھوادیا جائے ۔حضرت ِ اعلیٰ گولڑوی کی حیاتِ ظاہری کے یہ آخری ایام تھے بیماری اور نقاہت کا غلبہ تھا،جب کئی روز بعد ملک صاحب نے دوبارہ یہ خط پیش کیا تو بو جہ علالت و تکلیف فرمایا کہ لکھ دو میں بیما رہوں،اس لیے جواب سے معذور ہوں ۔ چنانچہ ملک سلطان محمود صاحب نے جواب میں لکھا کہ’’ اقبال صاحبؒ آپ اپنے ہی مشہور قول کے مصداق اس مکتب میں دیر سے پہنچے ہیں ‘‘۔ علامہ اقبال کو کیمبرج یونیورسٹی میں زمان و مکان (Time and Space) کے متعلق حضرت شیخ اکبر ؒ کے نظریہ پر لیکچر دینا تھا، لیکن انہیں بھی موت نے مہلت نہ دی ۔ ان کا یہ عریضہ جو8 اگست1933ء کو تحریر ہوا، کی نقل ’’اقبالنامہ‘‘جِلد اوّل میں موجود ہے ، نفسِ مضمون ملاحظہ ہو۔ ’’اگرچہ زیارت اور استفادہ کا شوق ایک مدت سے ہے ، تاہم اس سے پہلے شرف ِ نیاز حاصل نہیں ہوا ۔ اب اس محرومی کی تلافی اس عریضہ سے کرتا ہوں ۔ گو مجھے اندیشہ ہے کہ اس خط کا جواب لکھنے یا لکھوانے میں جناب کو زحمت ہوگی ۔ بہر حال جناب کی وسعت ِ اخلاق پر بھروسہ کرتے ہوئے، یہ چند سطور لکھنے کی جرأت کرتا ہوں کہ اس وقت ہندو ستان بھر میں کوئی اور دروازہ نہیں، جو پیشِ نظر مقصد کے لیے کھٹکھٹایا جائے ۔ میں نے گذشتہ سال انگلستان میں حضرت مجدد الف ثانی ؒ پر ایک تقریر کی تھی، جو وہاں کے اداشناس لوگوں میں بہت مقبول ہوئی ۔ اَب پھر اُدھر جانے کا قصد ہے اور اس سفر میں حضرت محی الدین ابن عربیؒ پر کچھ کہنے کا ارادہ ہے ۔ نظربایں حال چند امور دریافت طلب ہیں ۔ جناب کے اخلاق کریمانہ سے بعید نہ ہوگا ۔ اگر سوالات کا جواب شافی مرحمت فرمایا جائے ۔ i۔اوّل یہ ہے کہ حضرت شیخ اکبر ؒ نے تعلیم حقیقت ِ زمان کے متعلق کیا کہا ہے اور ائمہّ متکلِّمین سے کہاں تک مختلف ہے ۔ ii۔یہ تعلیم شیخ اکبر ؒ کی کون کون سی کُتب میں پائی جاتی ہے اور کہاں کہاں ۔ اِ س سوال کا مقصُود یہ ہے کہ سوال اوّل کے جواب کی روشنی میں خود بھی ان مقامات کا مطالعہ کر سکوں۔ iii۔حضرات ِ صُوفیہ میں اگر کسی بزرگ نے بھی حقیقتِ زمان پر بحث کی ہو، تو اُن بزرگ کے ارشادات کے نشان بھی مطلوب ہیں۔ مولوی سیّد انور شاہ صاحب مرحوم و مغفور نے مجھے عربی کا ایک رسالہ مرحمت فرمایا تھا اس کا نام تھا’’درایتہ الزّمان‘‘۔جناب کو ضرور اس کا علم ہوگا،میں نے یہ رسالہ دیکھا ہے۔مگر چونکہ یہ رسالہ بہت مختصر ہے،اس لیے مزید روشنی کی ضرورت ہے ۔ میں نے سُنا ہے کہ جناب نے درس و تدریس کا سلسلہ ترک فرمادیا ہے اس لیے مجھے یہ عریضہ لکھنے میں تامّل تھا،لیکن مقصود چونکہ خدمتِ اسلام ہے،مجھے یقین ہے کہ اس تصدیعہ کے لیے جناب معاف فرمائیں گے ۔ باقی اِلتماسِ دُعا۔ مخلِص محمد اقبال --- دوسرے حضرت میاں شیر محمد شرقپوریؒ---حضرت میاں صاحبؒ بڑے شریعت کے پابند اور متبع سُنّت اور بالخصوص بر صغیر میں احیائے سُنّت و شریعت کے بہت بڑے داعی تھے، داڑھی منڈا شخص تو قریب سے بھی نہیں گزرسکتاتھا۔اس لیے ابتداً،اقبال ؒ کوبھی ایسی ہی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا ، مگر ازاںبعد توجہات اور لطف وعنایا ت کاسلسلہ شروع ہوگیا ، اور پھر آپؒ کے توجہاتِ کریمانہ سے اقبالؒ خوب سرشار ہوئے ، جس کا اظہار انہوں ؒ نے اپنے اشعار میں بھی کیا : جنہیں میں ڈھونڈتا تھا آسمانوں میں زمینوں میں وہ نکلے میری ظلمت خانہ، دل میں مکینوں میں تمنا دردِ دل کو ہو تو کرخدمت فقیروں کی نہیں ملتا یہ گوہر بادشاہوں کے خزینوں میں جِلا سکتی ہے شمع کشتہ کو موجِ نفس ان کی الٰہی کیا چھپا ہوتا ہے اہل دل کے سینوں میں نہ پوچھ ان خرقہ پوشوں کی ، ارادت ہوتو دیکھ ان کو یدِبیضا لیے بیٹھے ہیں اپنی آستینوں میں حضرت میاں صاحب ؒکے بارے میں ایک صدری روایت یہ بھی بیان ہوتی ہے کہ آپؒ نے اقبال ؒ کو’’قال سے حال‘‘ کی طرف آنے کا بھی اشارہ دیا،مگر---بات آگے نہ بڑھی و گرنہ اقبال ؒ کا مزار بھی فیض رسانی کا مرکز اور محض سرکاری رسومات و تقریبات کی بجائے درویشوں و صوفیوں کی آماجگاہ بلکہ جلوہ گا ہوتا اور لوگ اکتسابِ فیض کے لیے کشاں کشاں کھیچتے چلے آتے ۔ ویسے تو آپؒ نے از خود بھی فرمادیا تھا کہ : زیارت گاہ اہلِ عزم و ہمت ہے لحد میری کہ خاکِ راہ کو میں نے بتایا رازِالوندی بادشاہی مسجد کی مشرقی دیوار کے جنوبی پہلو میں ، ایستادہ مزارِ اقبال کو بطور وقف پراپرٹی، سرکاری تحویل میں لینے کا اوّلین محکمانہ نوٹیفکیشن بمطابق26 اپریل1962ء عمل میں آیا، جس کے مطابق بادشاہی مسجد سمیت دیگر عمارات، جن کا ایریا98 کینال اور 7 مرلے پہ محیط تھا ۔ ٭٭٭٭٭