قومی اسمبلی کی پبلک اکائونٹس کمیٹی کی ذیلی کمیٹی میں وزارت خوراک سکیورٹی ریسرچ میں اربوں کی مالی بدعنوانیوں اور کرپشن کا انکشاف ہوا ہے۔ آڈٹ حکام کا کہنا تھا کہ زیتون کی کاشت کے منصوبہ پر 2 ارب پونے 45 کروڑ روپے سے زائد کے اخراجات کئے گئے لیکن اس منصوبے کا نہ آڈٹ کرایا گیا اور نہ کوئی ریکارڈ فراہم کیا گیا جبکہ بعض دیگر منصوبوں میں بھی کروڑوں کی بدعنوانی سامنے آئی ہے۔ اگرچہ زیتون سکینڈل میں ملوث ملزموں کو ایف آئی اے حکام نے گرفتار کر لیا ہے تاہم یہ کرپشن کے مسئلے کا حل نہیں ہے۔ ضروری امر یہ ہے کہ جن جن وزارتوں، محکموں، اداروں کو بھی ترقیاتی منصوبوں کے لئے رقوم فراہم کی جاتی ہیں انہیں آڈٹ کرانے اور آڈٹ حکام کو مطلوبہ ریکارڈ فراہم کرنے کا پابند بنایا جائے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ملک کی صنعتی و زرعی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ مالی کرپشن ہے، کیونکہ مختلف منصوبوں کے لئے جو رقوم فراہم کی جاتی ہیں ان کا نہ آڈٹ کرایا جاتا ہے اور نہ ہی پوری رقوم منصوبے پر لگائی جاتی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پبلک اکائونٹس کمیٹی یا ذیلی کمیٹیوں کی طرف سے جو تجاویز و سفارشات پیش کی جاتی ہیں ان پر مکمل عملدرآمد کرایا جائے اور جو افسر یا ملازم بدعنوانی میں ملوث ہوں ان کو نہ صرف گرفتار کیا جائے بلکہ ان پر مقدمات چلا کر انہیں سزا دی جائے۔ اس سلسلہ میں ہمیں چین کے فارمولے سے فائدہ اٹھانا چاہئے جہاں کرپشن کی کم سے کم سزا موت ہے تاکہ معاشرے سے کرپشن کو جڑ سے ختم کیا جاسکے۔