آپ کا کیا خیال ہے ہمارے محترم وزیر اعظم کا آئیڈیل کون ہے؟ سب سے پہلے دھیان مہاتیر محمد کی طرف جائے گا۔ وہ اکثر ان کا ذکر کرتے رہے ہیں۔ مہاتیر نے ملائیشیا کو فرشِ خاک سے اٹھایا اور کم از کم تمام مسلم دنیا میں ٹاپ پر پہنچا دیا۔ ایک بات یہاں مشکل میں ڈال رہی ہے۔ مہاتیر نے آئی ایم ایف سے چھٹکارا حاصل کر لیا تھا۔ آئی ایم ایف کے سربراہ نے بعد میں تسلیم کیا کہ مہاتیر کی اقتصادی پالیسیاں درست تھیں۔ اس کے برعکس ہمارے وزیر اعظم نے ‘وجوہ جو بھی ہوں حکومت کے پہلے سال کے دوران ہی آئی ایم ایف کے سامنے سرتسلیم خم کر دیا۔ نہ صرف یہ بلکہ آئی ایم ایف کے ایک ملازم کو سٹیٹ بنک آف پاکستان کا گورنر تعینات کیا۔ حال ہمارا بھی وہی ہو گا جو مصر کا ہو رہا ہے۔ اس لئے کہ ہمارے گورنر سٹیٹ بنک پہلے مصر میں تعینات تھے!! تو پھر کیا سنگا پور کا معمارلی کوان ہمارے وزیر اعظم کا آئیڈیل ہے؟ ایسا بھی نہیں! لی کا طرز حکومت مختلف تھا۔ یکسر مختلف۔ مہاتیر اور لی اس وجہ سے بھی ان کے آئیڈیل نہیں ہو سکتے کہ ان دونوں کو دو دو تین تین عشرے ملے تھے۔ ہمارے وزیر اعظم کو اقتدار کے تخت پر بیٹھے جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہیں! یعنی صرف ایک سال ! ایک سال ہی میں معیشت کے چودہ طبق روشن ہو گئے ہیں۔ تو پھر وہ کون سی شخصیت ہے جس کے بارے میں شرح صدر حاصل ہو سکتا ہے کہ وہ وزیر اعظم کی آئیڈیل ہے؟ اگر آپ ٹھنڈے دل سے ‘ غیر جانب دار ہو کر دل پر ہاتھ رکھ کر‘ غور کریں تو ایک ہی نتیجے پر پہنچیں گے۔ ہمارے وزیر اعظم کی آئیڈیل شخصیت میاں شہباز شریف ہیں! اس کا ایک ثبوت تو شائع ہو چکا ہے۔ وزیر اعظم کی کابینہ کے ایک اہم رکن میاں شہباز شریف کے گرویدہ ہیں۔ ان کی تازہ تصنیف میں یہ گواہی موجود ہے۔ میڈیا کے صفحات ریکارڈ پر ہیں کہ انہوں نے شہباز شریف کے طرز حکومت کو‘ ان کے وژن کو اور ان کی پالیسیوں کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔ اب اگر میاں صاحب کے ایک مداح اور تحسین کنندہ کو وزیر اعظم نے کابینہ کا اہم رکن بنایا اور ایک حساس کام اسے سونپا ہے تو اس کا مطلب اس کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے کہ وہ ‘بالواسطہ ‘ میاں شہباز شریف کی صلاحیتوں کے معترف ہیں اور ان کی پالیسیوں کو اپنانا چاہتے ہیں! کچھ واقعاتی شہادتیں بھی اس دعویٰ کو درست ثابت کرتی ہیں کہ وزیر اعظم عمران خان میاں شہباز شریف کی تقلید کر رہے ہیں اور کرنا چاہتے ہیں۔ آپ کو یاد ہو گا کہ میاں شہباز شریف سر یر آرائے تخت ہوئے تو اپنے پیشرو چودھری پرویز الٰہی کے شروع کئے ہوئے فلاحی اور تعمیراتی منصوبے‘ جہاں تھے وہیں روک دیے۔ وزیر آباد کے ہسپتال کا ذکر نمایاں رہا جو چودھری صاحب نے شروع کیا اور پھر ان کے جانے کے بعدترک کر دیا گیا۔ جنوبی پنجاب میں بھی ایسا ہی ہوا بلکہ بارہا اعداد و شمار کے ساتھ یہ الزام لگایا گیا کہ فنڈز وہاں سے ہٹا کر لاہور پر خرچ کر دیے گئے۔ وزیر اعظم عمران خان بالکل ایسا کر رہے ہیں۔ یوں لگتاہے کہ فلم ری پلے ہو رہی ہے۔ زیادہ عبرت ناک یہ معاملہ اس لئے ہے کہ وزیر آباد اور جنوبی پنجاب تو ایک سائڈ پر واقع ہیں پیش منظر سے ان کامحل وقوع ہٹ کر ہے جبکہ وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ حکومت کے جن منصوبوں کو ادھورا چھوڑا ہے ان میں سے کم از کم دودارالحکومت کے وسط میں ہیں اور ہر روز لاکھوں ملکی اورغیر ملکی افراد اس ظلم کو دیکھتے ہیں۔ آپ کشمیرروڈ سے نئے ایئر پورٹ کی طرف جائیں تو راستے میں آپ کو ڈائنو سار کی طرح کے بڑے بڑے عظیم الجثّہ ڈھانچے نظر آئیں گے۔ کہیں جنگلہ‘ کہیں پلیٹ فارم‘ گزشتہ حکومت نے ایک مستحسن فیصلہ کیا تھا کہ نیا ایئر پورٹ چونکہ بہت دور ہے اس لئے عام مسافروں کی سہولت کے لئے خصوصی میٹرو بس وہاں تک چلائی جائے۔اس کا انفراسٹرکچر زیادہ ترتعمیر ہو چکا تھا۔ کچھ رہ گیا تھا۔ اتنے میںشریف حکومت ختم ہو گئی۔ چاہیے تو یہ تھا کہ تحریک انصاف کی حکومت اس عوامی منصوبے کو مکمل کرتی اور عوام سے شاباش لیتی مگر کوئی وجہ بتائے بغیر منصوبہ جہاں تھا‘ وہیں روک دیا گیا۔ اب یہ انفراسٹرکچر ۔ یہ ڈھانچے یہ ساری بنیادی تعمیر۔ جوں کی توں پڑی ہے اور موجودہ حکومت کا منہ چڑا رہی ہے۔غیر ملکی‘ سفارت کار‘ سب یہاں سے گزرتے ہیں اور اس طرز عمل پر حیران ہوتے ہیں۔ اس کالم نگار نے اس صورت حال پر بیسیوں افراد سے بات چیت کی ہے مسلم لیگ نون کے بدترین مخالف بھی موجودہ وزیر اعظم کی اس ’’بے نیازی‘‘ کی مذمت ہی کرتے دیکھے۔ کچھ تو اسے تکبّر پر محمول کرتے ہیں۔ شہباز شریف نے بھی چودھری پرویز الٰہی کے آغاز کردہ منصوبوں کے ساتھ یہی سلوک کیا تھا۔ وزیر اعظم ایک اور ستم عوام پر ڈھا رہے ہیں جس کا کوئی جواز نہیں تلاش کیا جا سکتا۔ دارالحکومت کی لائف لائن وہ ایکسپریس وے ہے جو فیض آباد سے روات جاتی ہے۔ اسے گزشتہ حکومت مرحلہ وار تعمیر کررہی تھی۔ آخری مرحلہ گلبرگ سے روات تک رہ گیا تھا۔ گزشتہ حکومت نے اس مقصد کے لئے سات ارب روپے مختص کیے تھے۔ تحریک انصاف کی حکومت نے آتے ہی اس منصوبے پر خط تنسیخ پھیر دیا اوریوں راتوں رات جہلم، چکوال، گوجر خان، دینہ، منگلا، میر پوراورمندرہ سے لے کربحریہ ‘ پی ڈبلیو ڈی سوسائٹی اور درجنوں دوسری آبادیوں کے مکینوں کو اپنا مخالف بنا لیا۔اگر اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ اس شاہراہ پر ٹرک مافیا کو ہی کنٹرول کر لیتی تو عوام کو کچھ تھوڑی سی آسانی ہو جاتی۔ مگر حالت یہ ہے کہ چیف کمشنر اسلام آباد سے ایک عام شہری کا بات کرنا تک ناممکن ہے۔ چہ جائیکہ اسے اس طرف توجہ دینے کے لئے قائل کیا جائے۔ ایک اور پہلو سے بھی وزیر اعظم شہباز شریف کا تتبع کر رہے ہیں۔ شہباز شریف نے طلبہ و طالبات کے لئے لیپ ٹاپ سکیم شروع کی تھی۔ اس کے حق میں اور خلاف بہت کچھ کیا گیا۔ موجودہ وزیر اعظم نے اس سے ملتی جلتی سکیم شروع کی ہے۔ انہوں نے ایک نجی ٹرسٹ کے اشتراک سے لنگر خانہ سکیم شروع کی ہے جس میں بقول وزیر اعظم‘ مستحقین مفت کھانا کھائیں گے۔ اس سکیم کا انچارج ڈاکٹر ثانیہ نشتر کو بنایا گیا ہے جن کی وجہ شہرت صحت کا شعبہ ہے۔ کیا یہ بہتر نہ تھا کہ ان سے صحت کے شعبے میں کوئی انقلابی کام کرایا جاتا؟ یہی ان کے تخصص کا میدان ہے۔ ایک نجی ٹرسٹ(سیلانی) کو کس معیار پر منتخب کیا گیا؟ ملک میں سینکڑوں ٹرسٹ غریبوں کو کھانا کھلانے کا کام کر رہے ہیں۔ ان میں سے اس خاص ٹرسٹ کو چنا گیا ہے تو کیا یہ چنائو کابینہ نے کیا ہے یا پارلیمنٹ نے یا یہ وزیر اعظم کا ذاتی فیصلہ ہے؟ عوام کو اعتماد میں لے کر آگاہ کیا جانا چاہیے کہ اس ٹرسٹ میں یہ خصوصیات ہیں جن کی وجہ سے اسے دوسروں پر فوقیت دی گئی ہے؟ یوں بھی عقل مند کہتے ہیں کہ ضرورت مند کو مچھلی نہ دیجیے۔ اسے مچھلی پکڑنا سکھائیے۔ اگر لنگر خانے سے استفادہ کرنے والے افراد قلاش ہیں تو انہیں روزگار مہیا کیجیے تاکہ دوسروں پر انحصارکرنے کے بجائے یہ اپنے پیروں پرکھڑے ہو سکیں۔ ایک شخص خود تو لنگر خانے سے بھوک مٹا لے گا‘ بیوی بچوں کا پیٹ کیسے بھرے گا؟ کسان کی گائے بیمارہو گئی۔ اس نے دوسرے کسان سے پوچھا کہ تمہاری گائے بیمارہوئی تھی تو تم نے کیا کیا تھا۔ اس نے دوا کا نام بتایا۔ وہ دوا کھا کر گائے مر گئی۔ اس پر اس نے دوسرے کسان سے گلہ کیا تو اس نے کہا گائے تو میری بھی مر گئی تھی! میاں شہباز شریف نے اپنے پیشرو کے منصوبوں کو ہلاک کیا تھا۔ ان کی اتباع میں موجودہ وزیر اعظم نے بھی گزشتہ حکومت کے شروع کردہ منصوبوں کو قتل کر دیا ہے۔ مگر کیا انجام مختلف ہو گا؟