مکرمی! جس طرح اللہ تعالیٰ نے قدرت کے کارخانے میں تنوع اور ندرت کے اصول قائم کیے ہیں‘ بالکل اسی طرح انسانوں میں بھی عقل وشعور اور فراست وذہانت میں واضح فرق رکھا ہے۔ ہر انسان دوسرے سے شکل کے علاوہ دانش وذکاوت اور دیگر صلاحیتوں میں مختلف ہوتا ہے۔ لوگوں نے اس اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے تعلیم وتدریس کے شعبے میں بھی اصلاحات کی ہیں۔ ابتدائی کلاسوں میں ایک جیسے مضامین کے بعد کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر درجہ بندی کر دی جاتی ہے اعلیٰ دماغ اور ادراک کے حامل طلباء کو ماسٹر اور پی ایچ ڈی کے لئے منتخب کیا جاتا ہے جبکہ اوسط ذہانت کے طالب علموں کو عموماً میٹرک لیول کے بعد مختلف قسم کے ہنر سکھانے کیلئے الگ کر دیا جاتا ہے اور وہ مخصوص شعبوں اور پیشوں میں مہارت حاصل کرکے ملک کی تعمیروترقی میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں کوئی جامع پالیسی نہ ہونے کی وجہ سے ایسے بیشتر طالب علم مناسب تعلیم وٹریننگ سے محروم رہ جاتے ہیں اور وہ مہارت نہیں حاصل کرسکتے جس کے وہ اہل تھے۔ان شعبوں میں میڈیکل‘ انجینئرنگ، کمپیوٹر‘ ٹرانسپورٹ‘ زراعت، تعمیراتی کام وذیلی ٹیکنالوجی‘ دستکاری‘ چھوٹی صنعتیں، آٹو انڈسٹری ودیگر بے شمار ہنرمندی اور کاریگری کے کام شامل ہیںہمارے ارباب حکومت‘ خصوصاً محکمہ تعلیم کے کار پروازوں کو اس بارے میں ایک ٹھوس اور جامع پالیسی بناکر اپنی نوجوان افرادی قوت کو وطن کی ترقی کے دھارے میں لانا چاہیے۔ (اسلم چودھری‘ لاہور)