وزیر اعظم کی جانب سے تیرہ بڑی صنعتوں پر سپر ٹیکس عائد کرنے کے اعلان نے سرمایہ کاروں میں بے چینی پیدا کر دی ہے ۔جن شعبوں پر سپر ٹیکس لگایا جا رہا ہے ان میںسٹیل، سیمنٹ ، چینی، ٹیکسٹائل،آئل اینڈ گیس، آٹو انڈسٹریز، ہوا بازی، کھاد،بینکنگ ،توانائی، کیمیکل اور گیس اینڈ آئل ٹرمینل شامل ہیں ۔ وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ سگریٹ سازی کے شعبے سے سالانہ دو ہزار روپے ٹیکس حاصل کیا جاسکتا ہے اس لئے اس شعبے پر ٹیکس عاید کیا جا رہا ہے۔وزیر اعظم نے کہا کہ آج جو فیصلے کیے گئے ان کے دو مقاصد ہیں، پہلا مقصد یہ ہے کہ پاکستان کے عوام کو مہنگائی سے نجات دلانے کی پْر خلوص کوشش کی جائے اور مہنگائی کے بوجھ کے نتیجے میں کچھ آسودگی اور ریلیف عوام کو مہیا کیا جائے۔ سپر ٹیکس سے مراد کیا ہے اس کی وضاحت کرتے ہوئے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کا کہنا ہے کہ تمام سیکٹرز پر 4 فیصد اور 13 مخصوص سیکٹروں پر 10 فیصد سپر ٹیکس لگایا گیا ہے۔ اس اضافے کے بعد ان شعبوں پر ٹیکس 29 فیصد سے 39 فیصد ہو جائے گا۔بتایا گیا ہے کہ یہ ٹیکس بجٹ خسارے میں کمی کے لیے ایک بار لگایا گیا ہے۔یہ ایک بار کا ٹیکس اشیا کی قیمتوں کو جس بلندی پر لے جائے گا وہاں سے واپسی کیسے ہو گی حکومت نے اس حکمت عملی سے تاحال آگاہ نہیں کیا۔یہ سوال اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ قیمتوں کو کنٹرول کرنے کا نظام حالیہ عرصے میں مکمل طور پر ناکام دکھائی دیا ہے۔ وزیر اعظم کے مطابق عام آدمی کو ٹیکس سے بچانے کے لیے صنعتوں پر سپرٹیکس لگایا گیاہے ۔انہوں نے کہا کہ سالانہ 15کروڑ روپے سے زائد آمدن کمانے والے پرایک فیصد، 20 کروڑ روپے سالانہ سے زائد آمدن والے پر2 فیصد، 25 کروڑ روپے سالانہ سے زائد آمدن والے پر3 فیصد اور 30 کروڑ روپے سالانہ سے زائد آمدن والے پر4 فیصد ٹیکس لگایا جائے گا جوتخفیف غربت کا ٹیکس ہے۔وزیر اعظمکا کہنا ہے کہ بجٹ اعلانات اور آئی ایم ایف سے مذاکرات میں پیش کی جانے والی کچھ شرائط مانی جاچکی ہیں اگر ان کی طرف سے مزید شرائط نہ آئیں تو اْمید ہے کہ ہمارا معاہدہ طے پا جائے گا۔وزیر اعظم نے کہا کہ مخلوط حکومت نے پاکستان کو سنگین حالات سے نکالنے کے لیے جرات مندانہ فیصلے کیے ہیں، اس سے یقینا وقتی طور پر مشکلات آئیں گی لیکن پاکستان مشکلات سے نکل جائے گا۔ وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے بڑی صنعتوں پر سپر ٹیکس کے نفاذ کے اعلان کے فوری بعد پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں حصص کی فروخت کا شدید دباؤ دیکھنے میں آیا۔ کے ایس ای 100 انڈیکس 2 ہزار پوائنٹس گر گیا۔کاروبار کے آغاز کے بعد 2 گھنٹے تک مارکیٹ ہموار رہی تاہم 11 بج کر 40 منٹ پر شدید مندی دیکھی گئی اور کے ایس ای 100انڈیکس ایک ہزار 598 پوائنٹس کم ہو کر 41 ہزار 100 کی سطح پر گر گیا۔دوپہر 12 بجے تک 100 انڈیکس 2 ہزار 53 پوائنٹس یا 4.8 فیصد تک کم ہوگیا تھا۔پی ایس ایکس کی رول بک کے مطابق جس سطح پر انڈیکس آخری مرتبہ بند ہوا ہو اس سے 5 فیصد اوپر یا نیچے جانے اور 5 منٹ تک وہاں رکنے پر تمام کاروبار ایک مخصوص وقفے کے لیے روک دیا جاتا ہے۔ سرمایہ کاروں نے سپر ٹیکس عائد کرنے کے فیصلے پر منفی طریقے سے ردِ عمل دیا ہے ۔ یہ فیصلہ کارپوریٹ سیکٹر کے منافع کو بری طرح متاثر کرے گا۔سرمایہ کاری ماہرین کا کہنا ہے کہ 10 فیصد سپر ٹیکس کے ساتھ پاکستان کا کارپوریٹ انکم ٹیکس اور دیگر تمام ٹیکس ملا کر 50 فیصد سے زائد ہوجائے گا۔ ٹیکس کی یہ شرح نہ صرف خطے میں بلکہ دنیا میں سب سے زیادہ ہے اور پاکستان کی تاریخ میں بھی بلند ترین شرح ٹیکس ہے۔ پاکستان مین حکمران اشرافیہ اور عام آدمی کے رہن سہن میں نمایاں فرق ہے ۔دونوں کے لئے ریاست کی شفقت اور مراعات کا معیار الگ اور امتیازی ہے۔یہ تاثر حقیقی ہے کہ عام آدمی جو ٹیکس دیتا ہے حکمران اشرافیہ اور اس کے معاون طبقات کی پر تعیش زندگی اس پر انحصار کرتی ہے۔ پی ڈی ایم حکومت کا عزم ہے کہ ٹیکس جمع کرنے کے لیے تمام ڈیجیٹل ٹولز کو بروئے کار لائے جائیں گے، عام شہری کو ٹیکس کے بوجھ سے بچانے کے لیے ٹیکس جمع کیا جائے گا اور ٹیکس کے پیسے عوام پر استعمال کریں گے۔یہ عزم قابل داد ہے لیکن اس کا نتیجہ اسی وقت مثبت انداز میں نکلے گا جب حکمران طبقات خود ایمانداری سے ٹیکس ادا کریں گے ۔سر دست حالت یہ ہے کہ غریب کو حاصل سہولیات کمیاب ہورہی ہیں۔گیس،بجلی اور پٹرول کے نرخ بڑھاتے ہوئے امیر غریب سب کو ایک صف میں کھڑا کر دیا گیا ہے۔بجٹ سے قبل کم آمدنی والے طبقات کے لئے پٹرول پر رعایت کا جو منصوبہ زیر بحث رہا اس پر کوئی بات نہیں ہو رہی۔ سپر ٹیکس سے مہنگائی کا طوفان آنے کا خدشہ ہے ۔جن صنعتوں پر سپر ٹیکس لگایا جا رہا ہے وہ یہ رقم صارفین سے وصول کریں گی۔گھر تعمیر کرنے والے کو سیمنٹ اور سریا پر سپر ٹیکس ادا کرنا ہوگا، چینی پر ہر صارف یہ ٹیکس ادا کرے گا۔سپر ٹیکس کے اثرات سے عام آدمی کو کیسے محفوظ رکھا جا سکتا ہے اس کی بابت حکومت کی حکمت عملی ابہام کا شکار ہے ۔