لاس اینجلس کے پر رونق اور پر ہجوم شہر سے تقریباً پچاس کلومیٹر دور کیلی فورنیا ریاست کی مشہور اورینج کاونٹی کا ایک نسبتاً خاموش اور مضافاتی قصبہ، یوربا لنڈا(Yorba Linda) ہے، جہاں امریکہ کا سب سے جاندار، پر مغز اور امریکی اسٹبلشمنٹ سے نسبتاًباغی سوچ رکھنے والا صدر ’’رچرڈ نکسن‘‘ 1913ء میں پیدا ہوا۔ یہ امریکہ کا سینتیسواں صدر تھا جس نے 20 جنوری 1969ء کوحلف اٹھایااور یہ واحد صدر تھا جس نے اپنی صدارت سے اخلاقی برتری کی مثال بناتے ہوئے استعفیٰ دیا۔ نکسن سے پہلے کا امریکہ دوسری جنگِ عظیم کے بعد کی سرد جنگ کا امریکہ تھا۔ ’’جان ایف کینڈی‘‘ جیسا جارح صدر برسرِ اقتدار رہ چکا تھا، جس کے زمانے میں امریکی جاسوس U-2 طیاروں نے کیوباکے ساحلوں پر ایٹمی میزائلوں کے لیئے اڈے تعمیر ہوتے دیکھ کر رپورٹ کی تو امریکہ کو علم ہواکہ سویت یونین کے بحری جہاز ایٹمی میزائل لے کر کیوبا کی سمت روانہ ہو چکے ہیں، جو عین امریکہ کے پڑوس میں نصب کر دئیے جائیں گے۔ امریکہ نے کیوبا کا سمندری گھیرائو کر لیا اور 22 اکتوبر 1962ء کو جان ایف کینڈی رات گئے تک تقریر کرتا رہا اور امریکی قوم کو جنگ کے لئیے تیار کرتا رہا۔ دنیا جنگ کے دہانے پر آکھڑی تھی کہ سوویت یونین نے اپنے میزائل کیوبا سے واپس ہٹا لیے۔ کینڈی جو پہلے ہی بہت مقبول تھا، اس تقریر نے اسے امریکی عوام کا ہیرو بنا دیا۔ سرد جنگ اپنے عروج پر تھی اور دنیا میں بے شمار ایسے میدان جنگ تھے جن میں امریکہ بری طرح الجھا ہوا تھا۔ دنیا کے تقریباً ہر ملک میں امریکی جھنڈے جلائے جاتے تھے اور ہر سرمایہ دار کو گالی دینے کے ساتھ ساتھ امریکہ کو بھی گالی دی جاتی تھی۔ دنیا کا ہر انقلابی شاعر ویت نام، انگولا، چلی اور کیوبا کے مظلوموںکے حق میں نظمیں لکھتا اور افسانے تحریر کرتا تھا۔ نفرت کی اس فضا میں ’’رچرڈنکسن‘‘ نے اقتدار سنبھالا۔ معاشی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ دنیا بھر میں امریکہ جو جنگی محاذ بھی کھلواتا ہے اس کا بنیادی مقصد یہ ہوتا ہے کہ اسلحہ کا کاروبار چلتا رہے اور اس کاروبار سے سب سے زیادہ فائدہ امریکہ ہی کو ہوتا ہے۔ اس کاروبار کو عرفِ عام میں ’’امریکی ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس‘‘ کہا جاتا ہے۔ اسی کمپلیکس سے وابستہ سرمایہ دار امریکی سیاست پر قابض ہیں۔ نکسن نے بر سر اقتدار آتے ہی ان سب کی آراء سے بالکل مختلف پالیسی کا اعلان کیا جسے ’’نکسن کا نظریہ‘‘ (Nixon's Doctrine) کہا جاتا ہے۔ اس نظریے کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ ’’آئندہ سے ہمارے اتحادیوں کے دفاع کی ذمہ داری خود ان کی اپنی ہوگی۔ امریکہ ان کی سفارتی مدد کرے گا، مالی معاونت بھی کر سکتا ہے اور ان کی افواج کو ٹرینگ بھی دے سکتا ہے، لیکن براہِ راست جنگ میں شریک نہیں ہوگا‘‘۔ اس ’’ڈاکٹرین‘‘ کے اعلان کے بعد یوں لگا جیسے امریکہ بالکل بدل کر رہ گیا ہو۔ ویت نام کی جنگ میں پچاس ہزار امریکی مرچکے تھے اور امریکہ کے شہروں میں نفرت انگیز احتجاج جاری تھا۔ نکسن ویت نام سے فی الفور نکلنا چاہتا تھا لیکن اسٹیبلشمنٹ اس طرح نکلنے کو اپنی شکست اور ہزیمت تصور کرتی تھی۔ اس نے نکسن کو جنگ میں مزید تیزی کے لیے کہا تاکہ ایک بہت بڑی فتح حاصل کرنے کے بعد وہاں سے نکلا جائے۔ اس میں مزید جانوں کا نقصان ہوا، جنگ کمبوڈیا اور لائوس تک پھیل گئی۔ آخر کار نکسن کی خصوصی کوشش سے 7نومبر 1973ء کو پیرس میں امن معاہدہ طے پایا اور امریکہ گذشتہ دس سالوں پر پھیلی ہوئی بدنامی سے باہر نکل آیا۔ اسی دوران پاکستان بھارت کے درمیان 1971ء کی جنگ بھی چھڑ گئی اور 16 دسمبر 1971ء کو بنگلہ دیش وجود میں آگیا، لیکن مغربی پاکستان کے محاذ پر جنگ جاری رہی اور بھارتی ارادے یہ تھے کہ مغربی پاکستان پر بھی اپناکنٹرول قائم کرلے۔ روس اس معاملے میں بھارت کا ممد معاون تھا اور یوں خطے میں اپنے اثرورسوخ کے بڑھنے کا انتظار کررہا تھا۔ مگر ایک وجہ سے پاکستان امریکہ کے لیے بہت اہم بن چکا تھا وہ وجہ یہ تھی کہ پاکستان امریکہ کی چین سے دوستی بڑھانے کے لیے بہت اہم کردار ادا کر رہا تھا۔ امریکی آرکائیوز کے مطابق نکسن نے برسراقتدار آتے ہی چین سے تعلقات استوار کرنے کے لیے اپنے وزیر خارجہ اور امریکی تاریخ کے اہم ترین سیاسی ’’گرو‘‘ ہنری کسنجر کی ذمہ داری لگائی گئی تھی۔ یہ کام ویت نام کی جنگ کے دوران بہت مشکل تھا، لیکن پاکستانی حکومت نے یہ بھاری پتھر اٹھانے کی ذمہ داری لے لی۔ دسمبر 1970ء میں پاکستانی صدر یحییٰ خان کی جانب سے چینی وزیراعظم چواین لائی کو امریکی پیغام پہنچایا گیا، جس کے مثبت جواب سے امریکی دفترخارجہ میں خوشی کی لہردوڑ گئی۔ امریکی اپنی جانب سے دوبارہ رابطے کی کوشش کر ہی رہے تھے کہ امریکہ میں پاکستانی سفیر نے امریکی حکام کو یہ بتا کرحیران کردیا کہ چیئرمین مائوزے تنگ اور وزیراعظم چواین لائی صدر نکسن کے دورے کا انتظار کر رہے ہیں۔ یہ تھا وہ مرحلہ کہ جب اس دورے کی تفصیلات طے کرنے کے لئیے ہنری کسنجر جولائی 1971ء میں پاکستان آیا، صدر یحییٰ سے ملا اور ایک خفیہ طیارے کے ذریعے چین چلا گیا۔ اس دورے کا علم دنیا میں کسی کو نہ ہوسکا۔ یہیں سے امریکہ چین دوستی کا آغاز ہوا اور فروری 1972ء کو رچرڈ نکسن کے چین کے دورے کی تاریخ طے ہوگئی۔ لیکن اس دوران 1971ء کی پاکستان بھارت جنگ چھڑ گئی جس کے نتیجے میں بنگلہ دیش بن گیا۔ امریکی کے لیے باقی ماندہ پاکستان کا بچنا اس وقت بہت ضروری ہو گیا تھا۔ جنگ کے دوران کے آرکائیوز کا مطالعہ کریں تو حیران کن باتیں سامنے آتی ہیں۔ نکسن کی اندرا گاندھی کے ساتھ 5 نومبر 1971ء کو ملاقات کے بارے میں ہنری کسنجر کے تاثرات یہ تھے، "The Indian Are Bastard Anyway. They Are Starting A War There, While The Bitch (Gandhi), She Will Not Be Able To Go Home And Say That United States Did'nt Give Her A Warm Reception And In Despair She's Got To Go To War" ’’بھارتی بہر حال حرامی ہیں۔ یہ ایک جنگ شروع کرنے والے ہیں۔ یہ (گاندھی) اپنے ملک جا کر یہ تو بتا نہیں سکتی کہ امریکیوں نے اس کا اچھا استقبال نہیں کیا اور اس مایوسی میں یہ وہاں جا کر جنگ چھیڑدے گی‘‘۔ پھر ویسے ہی ہوا۔ بنگلہ دیش بننے کے بعد امریکہ کو یہ پریشانی لاحق ہوئی کہ مغربی پاکستان پر بھارتی قبضے کے بعد یہ پورا خطہ روس کے زیر تسلط آجائے گا اور امریکی کردار اس خطے سے بالکل نکل جائے گا۔ نکسن نے 10دسمبر کو روسی صدر برزنیف کو ہاٹ لائن میسج کیا کہ وہ انڈیا کو جنگ شروع کرنے سے منع کرے لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ 16دسمبر 1971ء کو جب پاکستانی افواج نے ہتھیار ڈال دئیے تو برزنیف کی طرف سے امریکہ کو جواب آیا کہ اب بھارت مغربی پاکستان حملہ نہیں کرے گا، مگر حملے پھر بھی جاری رہے۔ اس دوران نکسن نے چین سے مداخلت کے لیے کہا، لیکن چونکہ ابھی دوستی اتنی مستحکم نہیں ہوئی تھی اس لئیے چین نے بھی امریکہ کی بات نہ مانی۔ اس دوران نکسن نے دنیا بھر میں اپنے تمام ملٹری اڈوں خصوصاً اردن اور ایران میں جہازوں پر اسلحہ لاد کر انہیں تیار کیا اور اس کی وڈیو بھارتی سفیر کو پہنچادی اور کہا کہ اگر جنگ نہ رکی تو پاکستان کو اسلحے کی ترسیل شروع ہو جائے گی۔ اگلے دن اندرا گاندھی نے جنگ بندی کا اعلان کردیا۔ اس جنگ بندی کے بعد فروری 1972ء میں رچرڈ نکسن چین جا پہنچا۔ یہ نظارہ اس دور کی منقسم اور سرد جنگ میں گرفتار دنیا کے لیے حیران کن تھا۔ آج سے پچاس سال قبل دنیا یہ سوچنے لگ پڑی تھی کہ اب شاید اس زمین میں امن کا دور شروع ہونے والا ہے۔ صدر نکسن کے اس آبائی قصبہ ’’یوربا لنڈا‘‘ میں نکسن کی یادگار کے طور پر ایک بہت بڑی لائبریری اور میوزیم ہے۔ اس لائبریری میں 48سال بعد 23 جولائی 2020ء کو موجودہ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے ایک طویل تقریر کی ہے جس میں اس نے ’’نکسن ڈاکٹرین‘‘ کا بار بار ذکر کرتے ہوئے، اس کے بالکل برعکس ایک نیا نعرہ بلند کیا ہے کہ ’’اب کیمونسٹ چین یا آزاد دنیا‘‘۔ اس نعرے کا مطلب صرف ایک ہے کہ، ’’اب سرد جنگ نہیں کھلی جنگ‘‘۔(باقی آئندہ)