برسوں پہلے جامعہ کراچی کے شعبہ اردو کے محترم استادجناب رفیق مرحوم مجھے سمجھا رہے تھے کہ زبان اظہار و ابلاغ کا موثرترین ذریعہ تو ہے لیکن مکمل نہیںتب میں سوچتا تھا کہ یہ بھی بھلا کیا بات ہوئی لیکن آج جب میں نے بنگلہ دیش میں ’’زاہدہ‘‘ کو اپنی ماں کی چھاتی سے لگ کر روتے دیکھا تو مجھے سر رفیق مرحوم کی کہی بات سمجھ آگئی ۔ نانی کے نام سے مشہور اماں کا اصل نام زاہدہ ہے ،زاہدہ بنگلہ دیش کے کھلنا شہر کے کسی نواحی گاؤں میں سادہ سی زندگی گزار رہی تھی ۔گھر میں غربت کا ڈیرہ تھا اوپر سے بھرا پرا کنبہ ،زاہدہ نے بچپن کو الوداع کیا تو اس کی شادی ایک شادی شدہ شخص سے کر دی گئی اور وہ بابل کے آنگن سے سسرال آگئی۔ یہاں نفرت ،غصہ اور حقارت اسکے منتظر تھے اسکی سوکن اسے کسی طور تسلیم کرنے کو تیار نہ تھی اس نے زاہدہ کی زندگی اجیرن کر دی ۔زاہدہ اچھے دنوں کی آس میں یہ سب برداشت کر تی رہی یہاں تک کہ زاہدہ ایک بچے کی ماں بن گئی ۔بیٹے کی ماں بننے کے بعد زاہدہ کی خاندان میں پوزیشن کچھ بہتر ہونے لگی تو اسکی سوکن کے تن بدن میںآگ لگ گئی۔ حسد جلن اور بغض نے زاہدہ کے خلاف سازش تیار کی ۔سسرال کی اک عورت زاہدہ سے میٹھی میٹھی بن کر ایک روز اسے بازار گھمانے لے گئی ۔اس نے وہاں زاہدہ کو چائے پلائی جس کے بعد زاہدہ کو کچھ ہوش نہ رہااور جب ہوش آیا تو وہ ایک انجانے سفر کی مسافر تھی۔ وہ اکیلی نہ تھی اسکے ساتھ بنگالی خواتین کا ایک گروپ بھی تھا جسے انسانی اسمگلر اغواء کرکے لے جارہے تھے ان سب دکھیاریوںکو بارڈر پار کروا کر پاکستان پہنچا دیا گیا جہاں ان کے گاہک منتظر تھے ۔ کراچی میں بنگالی عورتوں کی خریدو فروخت کسی زمانے میں عام تھی ،زاہدہ کی قیمت بھی لگ گئی اسکی گود میں شیر خوار بچہ تھا شائد اسی وجہ سے وہ کسی کوٹھے پر فروخت ہونے سے رہ گئی۔ اسکی قسمت بھلی سمجھیں کہ اسے ایک بوڑھے بیمار شخص نے خرید کر اپنے نکاح میں لے لیا ْ،جسے بیوی سے زیادہ تیماردار کی ضرورت تھی۔ وہ زاہدہ کو لے کر سندھ کے علاقے میہڑ چلا گیا زاہدہ اب رقیہ ہوچکی تھی۔ نکاح میں اسکا نام رقیہ درج تھا یہاں زاہدہ سندھی کلچرمیں ڈھل گئی وہ سندھی عورتوں کی طرح کشیدہ کاری کرتی رلیاں بناتی اور بوڑھے بیمار شوہر کی خدمت کرتی ،اس نے کئی بار اپنے شوہر سے کہا کہ وہ اس کے ماں باپ کو چٹھی لکھے انہیں بتائے کہ ان کی زاہدہ زندہ ہے لیکن وہ ٹال دیتا کہ اگر اسکا اپنے گھر والوں سے رابطہ ہو گیا تو یہ اسے چھوڑ کر کہیں چلی نہ جائے اس کا یہ ڈر دور نہ ہوا یہاں تک کہ وہ زندگی سے دور ہوگیا۔ شوہر کے انتقال کے بعد زاہدہ کے پاس اسکی بیٹی اور پہلے شوہر سے بیٹا تھا، بدقسمتی سے بیٹا نشے کی لت میں پڑکراپنی بیٹی چھوڑکر زندگی کی بازی ہار گیا۔ بیٹی کی شادی ایک معذور شخص سے ہوگئی اور اسکا خرچ ،دیکھ بھال بھی گھروں میں کام کاج جھاڑو پونچھا کرنے والی زاہد کے بوڑھے کاندھوں پر آگئی، زاہدہ اب منگھوپیر کراچی کی حاجی کالونی میں محنت مزدوری کررہی تھی جہاں اسکے شوہر کی برادری کے افراد بڑی تعداد میں رہتے تھے، وہیں زاہدہ کے آنسوؤں نے ایک نیک دل عورت کو متوجہ کرلیا ،اسکے کریدنے پر زاہدہ نے اپنا دل کھول کر رکھا تو وہ تڑپ گئی اور اسکی مدد کرنے کی ٹھانی، اس نے اپنے بیٹے سے کہا کہ سوشل میڈیا پر وقت ضائع کرنے سے بہتر ہے کہ کچھ مثبت کام بھی کر لو،یہ اماں بیچاری گھر والوں کے لئے تڑپ رہی ہے اسکے گھر والوں کو تلاش میں اس فیس بک سے مدد کیوں نہیں لیتے اوریہیں سے ہمدرد یونیورسٹی کے خطیب نوجوان عالم ولی اللہ معروف کی جدو جہد کی کہانی شروع ہوتی ہے ،ولی اللہ نے 2018ء میں فیس بک پر اماں کے گھر والوں کی تلاش میں پوسٹ لکھی وہ پوسٹ چین میں انکے دوست حسیب اللہ نے پڑھ کر اپنے بنگلہ دیشی دوستوں سے ذکر کیا انہوں نے اسے بنگلہ زبا ن میں ترجمہ کرکے سوشل میڈیا پر پھیلا دی یہ پوسٹ بنگلہ دیش کے منظور نامی نوجوان نے بھی پڑھی اماںکا گاؤں اسکے شہر سے زیادہ فاصلے پر نہ تھا وہ اس گاؤں پہنچ گیا اورکسی نہ کسی طرح اماں کے گھر تک پہنچ بھی گیا اور پھر منظور نے وڈیو کال کی۔ سینتیس برس بعد ماں بیٹی نے ایک دوسرے کو دیکھا، تب لفظ کہیں پیچھے رہ گئے اور اشک بازی لے گئے، اس وڈیو کال کے بعد ولی اللہ معروف نے اماں کو ان کے گھر والوں سے ملوانے کی ٹھان لی کچھ دوستوں نے مالی مدد کی اماں کا پاسپورٹ بنا،بنگلہ دیشی ہائی کمیشن سے مہینوںچکر لگوانے کے بعد ویزہ ملا اور چھیانوے ہزار کا ٹکٹ لے کر اماں کے گھر والوں کے لئے تحفے تحائف لے کر انہیں بنگلہ دیش بھیج دیا گیا۔ ڈھاکہ ائیر پورٹ پر منظور صاحب موجود تھے جو اماں کو لے کر ان کے گھر پہنچے ،منظور صاحب نے سینتیس برس بعدماں بیٹی کی یہ ملاقات اپنے سیل فون سے ریکارڈ کی پانچ منٹ چونتیس منٹ کے اس وڈیو کلپ میں لفظ کم ہی سننے کو ملیں گے۔ بے قرار ماں کے اشک ہیں اور سینتس برس بعد ماں کی چھاتی سے لگنے والی دکھیاری کے آنسو ہیں۔ ہاں بیچ میں بنگلہ زبان کے کچھ الفاظ بھی ہیںجو میں نہیں سمجھ سکا لیکن میں اشکوں کی زبانی جان گیا ہوں سررفیق مرحوم زندہ ہوتے تو میں انہیں کال کرکے کہتا سر ! مجھے آپ کی بات آج سمجھ آئی ہے۔ اشک وہاں سے معاملہ ہاتھ میں لیتے ہیں جہاں زبان کی بس ہوجاتی ہے ،زاہدہ کی کہانی میڈیا پر چلی تو سوشل میڈیابنگلہ دیشی پاکستانیوں کا شکریہ ادا کرتے نہیں تھک رہے ،ولی اللہ نے ایک دکھیاری کی مدد نہیں کی بلکہ مادر وطن کا سافٹ امیج اس سرزمین میںبہتر بنانے میں مدد کی ہے۔ اسے کسی ہیرو کی طرح سراہا جارہا ہے ۔حیران ہو ں ہمارافارن آفس ،ہمارے وزراء بے خبر ہیں ! ٭٭٭٭