مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں شہباز شریف کو بیرون ملک سفر سے روکنے کا مقصد اگر کسی مبینہ اندرخانے ڈیل کی نفی تھی تو حکومت کامیاب رہی‘ میاں شہبازشریف کی درخواست ضمانت منظور ہونے سے قبل ایک مقررہ تاریخ تک قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کی رہائی اور بیرون ملک روانگی کی خبریں گشت کر رہی تھیں جس سے یہ تاثر پھیلا کہ تحریک انصاف کی حکومت سے بالا بالا کوئی سودے بازی ہوئی ہے اور میاں شہبازشریف رہائی کے بعد نہ صرف بیرون ملک جا کر برادر بزرگ کو سودے بازی کی شرائط سے آگاہ کریں گے بلکہ ان کی رضا مندی سے وطن واپسی پر مسلم لیگ ن مفاہمی سیاست کی راہ پرکاربند ہوگی‘ ان قیاس آرائیوں کو تقویت چیئرمین سینٹ کے الیکشن کے بعد پی ڈی ایم کی ٹوٹ پھوٹ پر میاں شہبازشریف اور حمزہ شہباز کی لاتعلقی اور میاں نوازشریف و مریم نواز کی معنی خیز خاموشی سے ملی‘ ڈیڑھ سال قبل میاں نوازشریف بغرض علاج جس فاتحانہ انداز سے لندن روانہ ہوئے اور آج تک واپس نہیں آئے وہ عمران خان اور تحریک انصاف کے سینے پر مونگ دلنے کے مترادف تھا‘ میاں صاحب مروت دکھاتے‘ ایک مریض کے طور پر نڈھال و مضمحل لندن پہنچتے تو شاید کسی کو اعتراض ہوتا نہ حکومت بالخصوص وزیراعظم عمران خان کو سبکی کا احساس مگر ڈیل کے تاثر اور ایک تندرست و صحت مند شخص کے طور پر روانگی سے حکومت اپنے حامیوں اور مخالفین دونوں کی طرف سے طعن و تشنیع کا نشانہ بنی‘ یوں لگا جیسے میاں صاحب نے مقتدر حلقوں سے براہ راست ڈیل کی‘ حکومت کو جُل دیا اور لندن پہنچ گئے۔ میاں شہبازشریف کو روکنے کی بظاہر یہی وجہ نظر آتی ہے کہ ڈیل کا تاثر حکومت کی ریاستی و انتظامی معاملات پر کمزور گرفت کا مظہر تھا اور اس امر کا غماز کہ شاید ریاستی ادارے اب پہلے کی طرح ایک صفحہ پر نہیں اور شہبازشریف ایک بار پھر کسی کے منظور نظر ہیں‘ فوری طور پر نہ سہی لیکن 2023ء کے انتخابات میں کامیابی کے حقدار۔ میاں نوازشریف اور مریم نواز کی قومی اداروں سے تصادم کی پالیسی نے شریف خاندان کے لیے اقتدار کے دروازے بند کردیئے ہیں اور میاں شہبازشریف اپنے برادر بزرگ کے برعکس دیوار سے ٹکریں مارنے کے قائل نہیں‘ ویسے بھی وہ ٹھنڈی کر کے کھانے کے عادی ہیں۔ حکومت نے میاں شہبازشریف کو روک کر ممکنہ ڈیل کا تاثر زائل کیا مگر دوررس نتائج کے حوالے سے یہ حکومتی فیصلہ مفید ہے نہ دانش مندانہ۔ اپوزیشن کو خاص حد تک حکومت سے تصادم اور محاذ آرائی کی سیاست فائدہ پہنچاتی اور وہ ہنگامہ آرائی سے حکومت کی کارکردگی پر اثر انداز ہوتی ہے‘ اڑھائی سال کے دوران اپوزیشن محاذ آرائی‘ الزام تراشی اور بیان بازی کے بل بوتے پر اپنے ماضی سے توجہ ہٹانے میں کامیاب رہی اور اس نے حکومت کو ڈھنگ کا کوئی کام کرنے نہیں دیا‘ اس کے برعکس حکومت کو ملک میں پرسکون سیاسی ماحول اور استحکام درکار ہوتا ہے عوامی خدمت کے منصوبوں کی تکمیل اور اپنے ایجنڈے پر مؤثر عملدرآمد کے لیے دانش مند حکمران اپوزیشن سے کم از کم اتفاق رائے اور بنیادی قومی معاملات پر مفاہمت کو ترجیح دیتے ہیں کہ اس کے بغیر بہتر کارکردگی ممکن ہے نہ امن وامان کا قیام آسان‘ جو کسی ریاست کی ترقی و خوشحالی اور استحکام کا بنیادی ستون ہے۔ پی ڈی ایم میں شکست و ریخت اور سینٹ چیئرمین کے انتخاب میں اپوزیشن کی ناکامی کے بعد صاف نظر آنے لگا تھا کہ ملک میں محاذ آرائی اور تصادم کی سیاست اپوزیشن کے حق میں ہے نہ حکومت کو سازگار‘ حکومتی جماعت کے لیے مخدوم یوسف رضا گیلانی کی کامیابی سبق آموز واقعہ تھا‘ توقع یہ کی جا رہی تھی کہ حکومت اب اپوزیشن کے مفاہمت پسند عناصر سے ورکنگ ریلیشن شپ قائم کرے گی اور اپنی بقیہ مدت تحریک انصاف کی تنظیمی کمزوریاں دور کرنے‘ وفاقی اور صوبائی سطح پر کارکردگی بہتر بنانے اور ڈسکہ‘ وزیرآباد‘ سرگودھا‘ نوشہرہ اور کراچی کے ضمنی انتخابات میں ندامت آمیز ناکامی کے تجربہ سے سبق حاصل کرنے میں گزارے گی مگر شہبازشریف کی ضمانت اور بیرون ملک روانگی کے حوالے سے حکومتی اقدامات دیکھ کر لگتا ہے ؎ اس بلغمی مزاج کو گرمی ہی راس ہے چالیس‘ چالیس پچاس ،پچاس سال تک حکمرانی کرنے والے بادشاہ اپنے سیاسی اور خاندانی مخالفین کو جلاوطنی کی سزا دے کر طوالت اقتدار کا اہتمام کرتے تھے۔ پاکستان میں جنرل ضیاء الحق نے محترمہ بے نظیر بھٹو اور جنرل پرویز مشرف نے شریف خاندان کی رضاکارانہ جلاوطنی کی استدعا قبول کرکے اپنے اقتدار کو طول دیا۔ عمران خان کے مشیروں کا مگر خیال ہے کہ نوازشریف کے بعد میاں شہبازشریف لندن چلے گئے تو دونوں سیاسی فائدے میں رہیں گے حالانکہ بے نظیر بھٹو اور شریف خاندان کی جلاوطنی سے دونوں فوجی آمروں کو فائدہ ہوا اور وہ آرام سے آٹھ دس سال نکال گئے‘ مجید نظامی صاحب مرحوم نے جدہ میں میاں نوازشریف سے کہا تھا آپ استقامت کا مظاہرہ کرتے‘ اٹک قلعہ یا لانڈھی جیل میں بیٹھے رہتے تو پرویز مشرف کے لیے پانچ سال اقتدار میں رہنا مشکل بلکہ ناممکن ہوتا‘ سازشی کہانی یہ چل رہی ہے کہ میاں شہباز شریف برادر بزرگ سے ان کی مصلحت اندیش خاموشی کے عوض پنجاب میں قائد ایوان کی تبدیلی اور اگلے الیکشن میں ہموار میدان ملنے کے امکان پر تبادلہ خیال کرنے لندن جا رہے تھے جس کا راستہ حکومت نے روک دیا لیکن یہ کام دیگر قابل اعتماد پیام بروں اور رابطہ کاروں کے ذریعے بہتر انداز میں ہو سکتا ہے۔ میاں شہبازشریف ملک میں اپنی موجودگی کا فائدہ اٹھا کر جہانگیر ترین گروپ سے رابطے اور مذاکرات کر سکتے ہیں اور ہرچہ بادا باد کی پالیسی پر کاربند جہانگیر ترین گروپ بجٹ اجلاس کے موقع پر صرف اپنی غیر حاضری سے بزدار حکومت کا دھڑن تختہ کر سکتا ہے جس کے نتیجے میں جہانگیر ترین گروپ اور پیپلزپارٹی کے ہاتھ کچھ آئے نہ آئے تحریک انصاف ملک کے سب سے بڑے صوبے میں حکومت سازی کے کھیل سے باہر ہو جائے گی۔ میاں نوازشریف اگر مسلم لیگ ن کا کندھا جہانگیر ترین گروپ کو پیش نہ بھی کریں‘ حکومت سازی مشکل ہو گی اور صوبائی سطح پر انتخاب لازم‘ میاں شہبازشریف اور مسلم لیگ کو اور کیا چاہیے‘ اندھا کیا چاہے دوآنکھیں۔ تحریک انصاف کی حکومت نے جتنا زور شہبازشریف کی بیرون ملک روانگی سے روکنے پر لگایا اتنا وہ پنجاب کی پارلیمانی پارٹی میں پھوٹ کے خاتمے پر لگاتی تو بہتر ہوتا۔ پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت جنوبی پنجاب کی مرہون منت ہے اور پچیس سے تیس ارکان کی بغاوت سردار عثمان بزدار کی حسن کارکردگی کا مظہر‘ اگلے دو سال بھی اگر اسی ڈھنگ سے گزرے‘ تحریک انصاف کے کارکن کا کوئی پرسان حال نہیں اور ارکان اسمبلی شاکی، 2023ء کے عام انتخابات کا نتیجہ معلوم‘ ماضی میں پنجاب کی حد تک ہمیشہ اپوزیشن کی پارلیمانی پارٹی میں فارورڈ بلاک بنتے رہے‘ موجودہ حکومت سے یہ کریڈٹ کوئی نہیں چھین سکتا کہ وہ مقتدر اداروں کی سرپرستی‘ نیب کی احتسابی مہم کے باوجود، کرپشن کے سنگین الزامات کا سامنا کرنے والی مسلم لیگ ن کو ضمنی انتخابات میں شکست سے دوچار کر سکی نہ پارلیمانی پارٹی میں شب خون مارنے میں کامیاب ہوئی‘ فرد واحد جہانگیر ترین نے صوبے کے وسائل اور اختیارات سے لیس حکمران پارٹی کے تیس ارکان صوبائی اور آٹھ قومی اسمبلی اچک لیے۔ کہتے ہیں کہ حکومت ملتی پارلیمانی اکثریت اور چلتی دانش و حکمت سے ہے۔ حکمت کا تقاضا یہی ہے کہ حکومت اب محاذ آرائی کے بجائے کارکردگی پر توجہ دے‘ اگلے الیکشن میں اپوزیشن نعروں اور الزام تراشی کے بل بوتے پر عوام سے رجوع کرے گی جبکہ حکومت کا زاد راہ احسن کارکردگی ہوگی جس کا راستہ روکنے کے لیے اپوزیشن مستعد ہے۔ کیا حکمران جماعت عوام کو اس بات پر قائل کر پائے گی کہ اس نے پانچ سال تک اپوزیشن کو رسوا کرنے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگائی مگر مہنگائی‘ بیروزگاری‘ بدامنی اور کرپشن پر قابو نہ پا سکی‘ نظام انصاف میں تبدیلی لائی نہ طبقاتی تفریق کے ہندوانہ کلچر کا خاتمہ کرسکی‘ کسی عدالتی حکم کے تحت شہبازشریف پھر لندن پہنچ گئے تو حکومت کا بیانیہ کیا ہوگا؟ اس بلغمی مزاج کو گرمی ہی راس ہے