اسلام آباد لاہور کی طرح فضائی آلودگی کا شکار ہوتا چلا جا رہاہے کیونکہ کبھی کسی انتظامیہ نے منصوبہ بندی نہیں کی ہے اور نہ ہی سوچا ہے کہ گاڑیوں یا دھوئیں کے دیگر ذرائع سے کاربن کے اخراج پر کنٹرول کیسے ممکن ہوگا، لاہور شہر ماحولیاتی تباہی کی جیتی جاگتی مثال ہے جس کی بنیادی وجہ گاڑیوں کا دھواں ہے۔ گاڑیوں کو کنٹرول کرنے اور سڑکوں کی توسیع کا حل کیا ہو سکتا ہے؟ ایک حل تو یہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کی طرح اپنے پاس دستیاب وسائل کو زیادہ سے زیادہ اور پائیدار طریقے سے استعمال کیا جائے۔ اسلام آباد بیس لاکھ آبادی کے ساتھ دنیا کے خوبصورت ترین شہروں میں سے ایک ہے لیکن آبادی کے لحاظ سے یہ بہت گنجان ترین شہر بنتا جا رہا ہے جس کی وجہ سے گاڑیوں کی آمد و رفت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ تعین کرنا مشکل ہے کہ اسلام آباد میں کتنی گاڑیاں موجود ہونگی لیکن ایک اندازے کے مطابق تقریباًاسلام آباد میں 12 لاکھ گاڑیاں رجسٹرڈ ہیں ہیں اور روزانہ3 سے 4 لاکھ گاڑیاں (دو پہیوں والی گاڑیوں سے لے کر زیادہ پہیوں والی گاڑیوں) شہر کی سڑکوں پر چلتی نظر آتی ہیں اور یہ تعداد روز بروز بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ شہر میں لوگوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے ساتھ گاڑیوں کی بڑھتی تعداد کب کم ہو گی۔ تاہم یہ واضح ہے کہ یہ تعداد اگلے دس سالوں میں دگنی ہوتی چلی جائے گی اور مزید نصف لاکھ کے قریب گاڑیوں میں اضافے کا خدشہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام آباد میں موجودہ سڑکوں کے بنیادی ڈھانچے میں اتنی بڑی تعداد میں ٹریفک کے لیے کوئی جگہ نہیں ہوگی۔ فی الحال، اسلام آباد میں بہترین سڑکوں کا بنیادی نظام موجود ہے اوراس کا موازنہ دنیا کے باقی شہروں سے کیا جا سکتا ہے۔ سڑک کی لمبائی اور چوڑائی دنیا کے کئی دارالحکومتوں کے مقابلے میں زیادہ ہے لیکن اسلام آباد میں شہریوں کے نظم و ضبط کا فقدان ہے۔ یہ نظم و ضبط صرف سڑکوں کے استعمال تک محدود نہیں ہے بلکہ دیگر شہری سہولیات تک پہنچ چکا ہے۔اگر دیکھا جائے تو اسلام آباد کی سڑکوں کی چوڑائی ان تمام بیرونی ممالک کے شہروں سے بہت زیادہ ہے جس کا میں نے دورہ کیا ہوا ہے۔ اور کہیں بھی سڑکوں کا اتنا وسیع نظام نظر سے نہیں گزرا،جتناکہ اسلام آباد اور اس سے ملحقہ باقی شہروں میں موجود ہے۔ سڑکوں کی لمبائی و چوڑائی کو بڑھانے کے لیے جنگلات کی کٹائی کی جا رہی ہے اسکے علاوہ شہری گھریلو استعمال کے لیے ہر سال ہزاروں درخت کاٹ رہے ہیں جسکی وجہ سے ماحول تباہ و برباد ہوتا جا رہا ہے۔ دریں اثنا، موجودہ سڑکوں کا بنیادی ڈھانچہ پہلے ہی بہت چوڑاہے لیکن کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) سال سڑکوں کی چوڑائی کو بڑھا رہی ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ یہ تمام سڑکیں اگلے 5 سے 10 سال تک بھی ناکافی ہونگی۔ اگلے 5 سالوں میں اسلام آباد کی سڑکوں پر مزید 300,000 گاڑیاں شامل ہو جائیں گی جن کی کل تعداد اسلام آباد میں تقریباً 51 لاکھ ہوگی۔ پہلے سے ہی، شہر کی آبادی بیس لاکھ سے زیادہ تجاوز کر چکی ہے جو کہ آبادی کے زیادہ حجم کی وجہ سے اگلے 10 سالوں میں مزید ایک لاکھ افراد کا اضافہ کرے گی۔ نتیجتاً آبادی زیادہ ہونے کی وجہ سے مزید سڑکوں کی ضرورت ہوگی جس سے شہر میں گاڑیوں سے کاربن کا اخراج ہوتا چلا جائے گا جو کہ ابھی بھی ہو رہا ہے۔ اسلام آباد شہر کے ساتھ ساتھ دیگر میٹروپولیٹن شہروں میں بھی میٹرو سسٹم موجودہے۔ اسلام آباد نے اورنج، بلیو اور گرین لائنز بس سسٹم کا منصوبہ بھی بنایا جس میں پورے شہر میں ایک مخصوص لائن ،مرکزی کنٹرول اور کمانڈ سسٹم کے ساتھ یہ بس سسٹم ہر روز لاکھوں مسافروں کو سفر کرنے کے قابل بنائے گا جیسا کہ یہ دنیا کے کئی شہروں میں پہلے ہی سے ہو رہا ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ کا یہ منصوبہ نہایت سستا ہو سکتا ہے جو شہریوں کی زندگی کو معیاری اور محفوظ زندگی گزارنے کہ قابل بنا سکتا ہے۔ یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک حکومت پاکستان بس سسٹم کی تعمیر اور اسے موثر انداز میں چلانے کے لیے مضبوط سیاسی عزم نہ رکھتی ہو۔ سی ڈی اے اپنے شہریوں کو قابل اعتماد نقل و حمل کے ذریعے اچھی صحت عامہ فراہم کر سکتا ہے۔ سڑکوں پرعوام الناس کی زندگیوں کو محفوظ بنانے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے پائیدار اور قابل اعتماد گاڑیاں فراہم کی جانی چاہیے جس کی ذمہ داری ریاستی اداروں کے سپرد ہو۔ کیونکہ اگر سڑکوں اور اس پر چلنے والی گاڑیاں معیاری ہونگی تو اس سے شہر کے لوگ محفوظ رہ سکیں گے۔ اگر بڑی آبادی کے ساتھ سمارٹ حل نہ ہوں تو اسلام آباد شہر کے ساتھ ملک کے دیگر میٹروپولیٹن شہر اس میں آنے والے زیادہ شہریوں کو تفریح فراہم کرنے کے قابل نہیںہوںگے۔ٹریفک جام، سڑکوں کے حادثات، ماحولیاتی انحطاط، جنگلات کی کٹائی اور بلند سطح کے دھوئیں کا شکار ہوں گے اور اس طرح اسلام آباد شہر میں اسموگ کا بڑا حجم پیدا ہوگا۔ اگراسلام آباد میں گاڑیوں کی تعداد میں بتدریج اسی طرح اضافہ ہوتا رہا تو یہاں کے شہری مستقبل میں مارگلہ کی پہاڑیوں کے دامن میں جا کر شہر کی خوبصورتی سے لطف اندوز نہیں ہو سکیں گے کیونکہ شہر میں آلودگی کی وجہ سے ماحول کو دیکھنے اور محسوس کرنے کی صلاحیت گرتی جا رہی ہے۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ شہری، انتظامیہ اور حکومت اسلام آباد سمیت دیگر پاکستان کے شہروں میں سموگ کے مسئلے کی سنگینی کا اندازہ لگانے سے قاصر ہیں۔ اسلام آباد کی انتظامیہ کو چاہیے کہ یہاں کی بڑھتی ہوئی آبادی پر قابو پائے کیونکہ یہاں پہلے ہی بہت زیادہ لوگ رہتے ہیں اور اس وجہ سے یہاں کی سڑکوں پر گاڑیوں کی بڑی تعداد موجود رہتی ہے۔ اگر بڑھتی ہوئی آبادی، شہر کاری، گاڑیوں کی کثافت پر قابو نہ پایا گیا تو مستقبل میں اسلام آباد کا معیار زندگی بگڑ جائے گا۔