پاکستان میں آبادی کی تیز رفتاری وسائل کی مانگ میں بھی اضافہ کرتی جا رہی ہے، انہی وسائل میں ایک وسائل جس کی عوام کو اشد ضرورت ہے، وہ بہترین پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام ہے، پاکستان کی زیادہ تر آبادی دیہاتوں سے شہروں کا رخ کر رہی ہے، جسکی وجہ سے شہروں میں مسائل کا تناسب بھی زیادہ ہو رہا ہے۔ مہنگائی و کم آمدنی کی بدولت لوگ اپنی گاڑیاں خریدنے کی سکت نہیں رکھتے، اس لیے زیادہ آبادی پبلک ٹرانسپورٹ پر منحصر ہوتی ہے۔ اسلام آباد سمیت تمام چھوٹے بڑے شہروں اور دیہاتوں میں روزانہ کی بنیاد پر پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کی جاتی ہے جس میں سکول جانے والے بچوں سمیت آفس اور دوسرے کام سر انجام دینے والوں میں مرد و خواتین کا بھی شمار ہوتا ہے۔پاکستان میں ٹرانسپورٹ کے نظام میں فقدان پایا جا رہا ہے، جو اب ایک تشویشناک صورتحال اختیار کر رہا ہے۔ پاکستان میں بدن بدن بڑھتی ہوئی گاڑیاں و موٹر سائیکل نے ٹریفک کے نظام کو درہم برہم کر دیا ہے، آپ جہاں بھی نظر دوڑائیں وہی گاڑیوں کا ایک ہجوم نظر آئے گا۔ اس بڑھتی ہوئی ٹریفک کی وجہ سے پاکستان کے بڑے شہروں میں زندگی غیر محفوظ ہوکر رہ گئی ہے۔ جہاں 2018ء کی گوبل سیفٹی رپورٹ یہ انکشاف کرتی ہے کہ پاکستان میں تقریباً پچاس ہزار کے قریب حادثات رونما ہوتے ہیں جس میں 27,582 لوگ زندگی بھر کے لیے مفلوج و معذور ہو کر رہ جاتے ہیں۔ پاکستان میں ٹریفک حادثات کی وجوہات میں ٹریفک سگنل کے اصولوں کی خلاف ورزی، ٹریفک کے ناقص انتظامات اور سڑکوں میں غیر منظم صورتحال حادثات میں اضافے کا سبب ہے۔ ذرائع آمدورفت میں جدت آنے کی بدولت سفر آسان سے آسان تر ہوتا جا رہا ہے، جہاں سفر میں آسانیاں پیدا ہو رہی ہیں وہیں اتنے ہی مسائل بھی جنم لے رہے ہیں۔ جیسے کہ گاڑیوں کے بڑھنے سے ان سے خارج ہونے والا دھواں ماحول میں آلودگی پیدا کر رہا ہے، اسکے ساتھ ساتھ گاڑیوں کے ہارن سے شور کی آلودگی بڑھتی جا رہی ہے، ادارہ ِصحت کی جانب سے کہا گیا ہے کے ذاتی گاڑیاں صحت کو متاثر کرنے کا باعث بن رہی ہے، اس کے علاوہ گاڑیوں کے بڑھنے سے روڈ ٹریفک حادثات میں خاصا اضافہ ہو رہا ہے۔ اسلام آباد، پاکستان کا دارالحکومت ہے لیکن یہاں بھی ٹریفک کا ہجوم موجود ہے، جہاں سڑک کے تحفظ کے نظام کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک خاکہ تیار کیا گیا ہے۔ جس پر اگر عمل پیرا کیا جائے تو ممکنہ طور پر اس موجودہ طریقہ کار کو بڑے شہروں میں منتقل بھی کیا جا سکتا ہے۔ اس عظیم کام کو سر انجام دینے کے لیے ایچ،ای،سی کے تعاون سے موجودہ وسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے سڑکوں کی حفاظت کا خاکہ تیار کیا ہے۔ اس پروجیکٹ میں جامع قائد اعظم کے شعبہ عمرانیات سے تعلق رکھنے والے پروفیسر ڈاکٹر محمد زمان اور انکی موجودہ ٹیم نے یہ اندازہ لگایا کہ وہ بسیں جو تعلیمی اداروں کے پاس موجود ہیں، اگر انکا استعمال منصوبہ بندی کے ساتھ کیا جائے تو یہ خاکہ ٹریفک کے بہاؤ کو کم کرنے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔ اسلام آباد کے تعلیمی اداروں میں بسیں اپنے مخصوص اوقات میں چلتی ہیں، جو صورتحال کو خراب کررہی ہیں، اسکی بنیادی وجہ یہ ہے جب یہ بسیں اپنے مخصوص اوقات میں چلتی ہیں تو ٹریفک کے ہجوم میں اضافے کا سبب بنتی ہیں۔ یہ بسیں طلباء کو ان کے مخصوص اوقات میں انتظار کرنے پر مجبور کر رہی ہوتی ہیں چاہیں وہ اپنی کلاسوں سے فارغ ہی کیوں نہ ہو جائیں۔ لہذا، انکو اس منصوبہ میں شامل کرنا طلباء کو بھی فائدہ پہنچا سکتا ہے وہیں دوسری طرف ماحولیاتی آلودگی کے خدشات اور مہک حادثات کو کم کرنے میں بھی معاون ثابت ہو سکتا ہے۔ اس منصوبہ بندی کے تحت یہ بتایا گیا ہے کہ تعلیمی اداروں میں بسیں سات سے نو تک استعمال کی جا سکتی ہیں، جہاں پر جامعات سے تین بسیں دیگر بسوں کے ساتھ فیڈر بس کے طور مرکزی شاہراہوں پر کام سر انجام دے سکتی ہیں۔ یہ ایک ایسی ٹرانسپورٹ ہے، جو سب کے لیے دوستانہ رویہ رکھے گی، جہاں یہ ملازمت کے مواقع بھی فراہم کر سکتی ہے۔ اسلام آباد میں کل 20 سرکاری و نیم نجی جامعات موجود ہیں جہاں لڑکوں اور لڑکیوں کے 68 ماڈل کالج سمیت 350 اسکول کام کر رہے ہیں، جن میں 284 بسوں و کوسٹر کی سہولیات موجود ہیں۔ پروجیکٹ کے اعدادو شمار کے مطابق ہمارے پاس کل 171 بسیں موجود ہیں۔ ان بسوں کو اسلام آباد کی بڑی شاہراہوں جیسے کہ کشمیر ہائی وے، ایکپریس ہائی وے، جناح ایونیو اور مارگلہ روڈ سمیت اسلام آباد کی دیگر سڑکوں پر مختص کیا جا سکتا ہے۔ اسلام آباد کی ایکسپریس وے اور مری ررڈ پر کل 60 بسیں چلتی ہیں جبکہ جناح ایونیو میں سے ہر ایک روڈ کے لیے 20 بسیں کافی ہو سکتی ہیں۔ اسلام آباد کے مختلف سیکٹرز و عام سڑکوں پر کل 90 بسیس چلائی جا سکتی ہیں جن میں 18 بسیں شامل ہیں۔ جیسے کہ: ایف سیکڑر کے لیے 30، جی سیکٹر کے لیے 30، ای سیکٹر کے لیے 15، آئی سیکٹراور ایچ سیکٹر کے لیے 9 بسیں چلیں گی۔ اس کے علاوہ یہ بسیں میٹرو بس سٹیشن کی جانب سے فیڈر بسوں کے طور پر بھی فعال ہو سکتی ہیں۔ ٹرانسپورٹ کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے ان بسوں کی کارکردگی کا انحصار صبح سات سے لے کر رات نو تک ہوگا۔ یہ نہایت ضروری ہے کہ ٹریفک کے بہاؤ کو کم کرنے کے لیے ان بسوں کے اوقات میں اضافہ کیا جائے گا جیسے کہ صبح آٹھ دس اور شام چار سے لیکر اٹھ بجے تک۔ ان بسوں کو بڑی شاہراہوں پر مناسب طریقے سے چلانے کے لیے سڑکوں پر ایک علیحدہ لین مختص کرنی ہوگی جس سے ٹریف کی روانی کا تسلسل نہیں ٹوٹ سکے گا۔ اسکے علاوہ ثانوی سڑکوں پر یہ بسیں باقی گاڑیوں کے ساتھ مختلف لین میں چل سکتی ہیں۔ ان بسوں کا ہر 0.5 کلو میٹر پر روٹ متعین ہوگا جہاں بس 3 منٹ میں اپنے سٹیشن تک پہنچ سکتی ہے۔اس منصوبہ کے آنے کے بعد، آئی سی ٹی انتظامیہ پر یہ فرض بنتا ہے کہ وہ اسے بہتر ثابت کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرے اور عوام کو سستے پروجیکٹ سے فائدہ اٹھانے کہ موقع فراہم کرے۔ اس کے علاوہ آئی سی ٹی کاربن کے اخراج کی حوصلہ شکنی کے لیے سخت قانون سازی بھی کر سکتا ہے۔