سیدنا علی ؓ نے فرمایا تھا، ’’الدنیا جیفۃ و طلبہا کلاب‘‘ دنیا ایک مردار ہے اور اس کے طلبگار کتے ہیں۔ میرے آقا و مولیٰ حضرت محمد ﷺ کسی بلندی سے مدینہ منورہ میں داخل ہورہے تھے۔ سیدنا جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ صحابہ اس وقت آپ کے دونوں طرف تھے۔ آپ ﷺ نے بھیڑ کا ایک بچہ جو چھوٹے کانوں والا تھا اسے مرا ہوا دیکھا۔ آپؐ نے اس کا کان پکڑ کر فرمایا، تم میں کون ہے جو اسے ایک درہم میں لینا پسند کرے گا؟ صحابہ کرام نے عرض کیا ہم میں سے کوئی بھی اسے کسی چیز کے بدلے میں لینا پسند نہیں کرتا اور ہم اسے لے کر کیا کریں گے۔ آپؐ نے فرمایا تم چاہتے ہو کہ یہ تمہیں مل جائے؟ صحابہ کرام نے عرض کی، اللہ کی قسم اگر یہ زندہ بھی ہوتا تو پھر بھی اس میں عیب تھا کیونکہ اس کا کان چھوٹا ہے حالانکہ اب تو یہ مردار ہے۔ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا اللہ کی قسم یہ دنیا اللہ کے ہاں اس سے بھی زیادہ ذلیل ہے جس طرح تمہارے نزدیک یہ مردار ذلیل ہے۔ (صحیح مسلم: کتاب الزہد و الرقائق)۔ یادش بخیر ہمارے دوست افتخار عارف جب آغا حسن عابدی کے لطف و کرم سے لندن میں مقیم تھے تو انہوں نے خوب کہا تھا: شکم کی آگ لئے پھر رہی ہے شہر بہ شہر سگ زمانہ ہیں‘ ہم کیا ہماری ہجرت کیا دنیا کی طلب جب ہوس بن جائے تو پھر انسان کا وہ روپ سامنے آتا ہے جس کے لیے لندن اس کی نسبت کتے سے کی جائے تو اذن الٰہی سے اگر کتے کو زبان مل جائے تو پکار پکار کر کہے، میں تو پیٹ بھر جائے تو سو جاتا ہوں، روکھی سوکھی کھاتا ہوں لیکن مالک کا دروازہ نہیں چھوڑتا، دشمن پر بھونکتا ہوں، دشمن کے ساتھ مل کر مالک پر نہیں بھونکتا لیکن تم انسان تو یہ سب کرتے ہو اور پھر بھی مجھ سے برتر کہلاتے ہوئے، تمہیں اشرف المخلوقات کہلاتے ہوئے شرم نہیں آتی ہے۔ تلاش رزق نہیں بلکہ ہوس رزق میں سرگرداں تمام اخلاقی معیارات سے عاری گروہ میرے ملک میں ہمیشہ رہے ہیں۔ یہ وہ سگ زمانہ ہیں جو چند روٹی کے ٹکڑوں کے لیے دشمن کتوں کے ساتھ مل کر اس مالک پر بھونکتے ہیں جس کی آغوش میں جنم لیتے ہیں جس کی زمین میں ان کے آبائو اجداد دفن ہیں جہاں دفن ہونے کی وصیتیں کرتے ہیں اور جہاں یہ اپنے علاقے میں دھاک بٹھانے کے لیے عالی شان گھر نہ بنائیں تو انہیں چین نہیں آتا۔ ہوس زر میں ڈوبے ہوئے ان ’’سگان زمانہ‘‘ کا سب سے بڑا ٹھکانہ پورے یورپ اور برطانیہ میں اس وقت قادیانی جماعت بن چکی ہے۔ جرمنی کا اخبار "Der Spiegle" ایک کثیرالاشاعت اخبار ہے۔ اس نے اپنی 24 نومبر 2014ء کی اشاعت میں قادیانیوں کے بارے میں ایک مفصل تحقیقی رپورٹ شائع کی جس کی جرمن زبان میں بینر ہیڈ لائن یہ تھی۔ "Die Ahmdiya gilt als islamic he vorzeige Gemenenide" (احمدیہ ایک مسلم شو پیس کمیونٹی ہے)۔ دوسری ہیڈ لائن یہ ہے کہ ’’یہ کئی سالوں سے تارکین وطن کو بلیک میل کر رہی ہے۔‘‘ اس رپورٹ میں ایک انجینئر لقمان احمد تارڑ کا کیس مثال کے طور پر پیش کیا گیا جو دس سال سے تارک وطن ہے اور اس کی سیاسی پناہ کا مقدمہ آج بھی چل رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نے پناہ لینے کے لیے وسبیڈن "Wiesbaden" کے احمدیہ مرکز میں جا کر قادیانیت کا اقرار کیا، وہاں جا کر اس نے روزانہ ان کے مرکز جا کر عبادت شروع کی، کئی سال گزرنے کے بعد اس کو قادیانیوں کے مرکز فرینکفرٹ سے مناسب "Averge" کا سرٹیفکیٹ دیا گیا جس کا مطلب تھا کہ وہ ابھی تک پکا قادیانی نہیں ہوا، اس لیے اس کے مقدمے میں جماعت اسے سپورٹ نہیں کرے گی۔ اس کے بعد اخبار نے پورے جرمنی میں قادیانی جماعت کی سرگرمیوں کا جائزہ لیا اور اس اخبار کے ساتھ Ard Hagazine کی صحافتی ٹیم بھی شامل ہو گئی۔ ان کے مطابق احمدیہ سربراہان نے پاکستان اور دیگر ملکوں میں سیاسی پناہ حاصل کروانے کا ایک دھندا شروع کر رکھا ہے۔ پاکستان میں اس جماعت کے نمائندے ایک شخص کو جرمنی میں پناہ دلانے کے لیے بیس ہزار یورو لیتے ہیں۔ ایک عام پاکستانی کو ان کے خط پر جرمنی میں داخلہ مل جاتا ہے۔ اس لیے کہ جرمنی میں 2013ء میں احمدیہ (قادیانی) جماعت کو جرمن چرچ کے برابر کا درجہ دے دیا گیا ہے۔ جرمن سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے رہنما لیل آگھن Lale Aghan نے کہا ہے کہ یہ فیصلہ مذہبی نہیں بلکہ ایک سیاسی تماشا ہے۔ جب ایک عام پاکستانی ان کے خط پر جرمنی میں داخل ہوتا ہے تو پھر وہ ان کی بدترین غلامی میں چلا جاتا ہے۔ چندہ نہ دینے، ان کے اجتماعات میں شرکت نہ کرنے، احتجاج نہ کرنے پر اسے پاکستان واپس ڈی پورٹ کرنے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں اور اس کے لیے قادیانی (احمدیہ) جماعت کا یہ سرٹیفکیٹ ہی کافی ہے کہ اس کا احمدیہ جماعت سے تعلق غلط ثابت ہوا ہے۔ جرمنی کے محکمہ خارجہ کی ایک رپورٹ کا تذکرہ بھی اخبار نے کیا ہے جس کے مطابق ان پاکستانیوں کی تعداد میں بے شمار اضافہ ہوا ہے جو یہاں کام کرنے آئے لیکن پھر وہ سیاسی پناہ لینے کے لیے قادیانی ہو گئے۔ 2011ء میں جرمنی کے پراسیکیوشن محکمہ نے قادیانی جماعت کے چار ارکان پر مقدمہ بنایا کہ انہوں نے لاتعداد پاکستان سے آئے لوگوں کو غیرقانونی طور پر جرمنی میں داخل کروایا۔ جرمنی کے محکمہ مائیگریشن و مہاجرین کے ترجمان نے کہا ہے کہ ہم نے اپنے محکمہ کے افراد کو خاص طور پر ہدایات دی ہیں کہ قادیانیوں کی طرف سے جاری کئے گئے اکثر سرٹیفکیٹ مشکوک ہیں اس لیے ان کا سختی سے جائزہ لینا ضروری ہے۔ یہ صرف ایک ملک کی کہانی نہیں ہے۔ قادیانی جس ملک جا کر آباد ہوئے۔ انہوں نے اس مکروہ دھندے سے اپنی تعداد میں اضافہ کیا اور پھر ان تارکین وطن کو مسلسل غلاموں کی طرح بلیک میل کیا۔ میرے سامنے اس وقت برطانیہ کی اعلیٰ عدالت کا ایک فیصلہ موجود ہے جو تین ججوں Lord Jusitce Moore Brich (لارڈ جسٹس مورے برگ)، Lord Justice Tomilson (لارڈ جسٹس ٹاملسن) اور Lord Justice Kitchen (لارڈ جسٹس کچن) نے چودہ جولائی 2016ء کو تحریر کیا۔ اس میں ایک قادیانی نے درخواست کی تھی کہ وہ پاکستان میں خوف اور دہشت کی زندگی گزار رہا تھا اس لیے اسے سیاسی پناہ دی جائے۔ اس کی اس کہانی کو نیچے کی دو عدالتیں مسترد کر چکی تھیں۔ یہ قادیانی ایک استاد تھا اور اس کے بقول اسے دو جگہوں سے قادیانی ہونے کی وجہ سے نکلنا پڑا لیکن پھر 2004ء میں اسے پولیس میں ملازمت مل گئی، وہ دس سال تک پولیس ملازمت کرتا رہا اور پھر اپنے بھائی کی شادی میں شرکت کے لیے اس نے 2014ء میں برطانیہ کا ویزہ لیا اور احمدیہ جماعت کے سالانہ جلسے میں بھی شریک ہوا۔ جب وہ واپس گیا تو اس نے اپنے موبائل میں جو قادیانی جلسے کی تصویریں بنائی تھیں وہ ایک کلرک نے دیکھیں جو ختم نبوت سے تعلق رکھتا تھا، اس نے اسے ہراساں کرنا شروع کردیا، اس لیے وہ ’’پولیس والا‘‘ اب پاکستان میںنہیں رہ سکتا۔ عدالت نے بنیادی سوال اٹھائے، کہا کیا آپ کو پاکستان کے مجوزہ قانون کے مطابق عبادت کرنے کی اجازت ہے، اپنے آپ کو قادیانی (احمدی) کہہ کر ملازمت کرنے، مکان خریدنے، گاڑی لینے، مکان کھولنے، فیکٹری لگانے کی آزادی ہے۔ ظاہر یہ سب آزادیاں تو میسر ہیں۔ اس کا جب وہ جواب نہ دے سکا تو عدالت نے فیصلہ کیا کہ قادیانی یہ ثابت کرنے میں ناکام ہیں کہ وہ پاکستان میں دہشت و خوف کا شکار ہیں۔ لیکن سگ زمانہ اور ہوس مال کے لیے دنیا کے مردار پر ٹوٹ پڑنے والوں کا کیا کریں جو اس دنیا میں تو اپنے ملک کو بدنام کرکے سیاسی پناہ لے لیتے ہیں لیکن کیا وہ آخرت میں اللہ کی ناراضگی اور رسول اکرم ﷺ کی شفاعت سے محرومی کا طوق پہننے کی سکت رکھتے ہیں؟ لیکن سگ زمانہ تو کتوں سے بھی بدتر ہوتا ہے۔ مسلسل مردار پر ہی بسیرا کرتا ہے۔