ایک صریحا غلط بات یہ کہی جاتی ہے کہ پاکستان کے ساتھ کشمیر کے مہاراجہ نے ’ سٹینڈ سٹل ایگریمنٹ‘‘ کر رکھا تھا لیکن پاکستان نے اس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کشمیر کی معاشی ناکہ بندی کی ، پھر قبائل کو لڑنے کے لیے بھیج دیا ، جارحیت کی اور اقوام متحدہ نے بھی اس کو جارح قرار دے دیا۔اس بے بنیاد استدلال کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے کہ پاکستان جارحیت نہ کرتا تو مہاراجہ کشمیر کا الحاق بھارت کے ساتھ نہ کرتا۔ چلیے آج اسی پہلو پر بات کر لیتے ہیں۔ سب سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ اس معاہدے کی خلاف ورزی کس نے کی؟ پاکستان نے یا مہاراجہ نے؟پاکستان کے ساتھ مہاراجہ نے 15 اگست 1947 کو معاملات کو ’ جوں کا توں ‘ رکھنے کا معاہدہ کیا تھا۔لیکن کیا آپ کو معلوم ہے مہاراجہ نے حالات کو کس طرح ’ جوں کا توں ‘ رکھا؟یہ حکم تو پہلے ہی جاری کیاجا چکا تھاکہ وادی میں جتنے مسلمان ہیں وہ اپنا اسلحہ حکومت کے پاس جمع کروادیں۔ کسی مسلمان کو اسلحہ رکھنے کی اجازت نہیں ہو گی۔ اب کے ایک نیا حکم جاری ہوا کہ جو مسلمان فوج میں ہیں وہ بھی اپنا اسلحہ جمع کرا دیں انہیں بھی اسلحہ رکھنے کی اجازت نہیں ہے۔ اس دوران نہ صرف آر ایس ایس کے غنڈوں کے قافلے جموں میں داخل ہو گئے بلکہ اکالی دل کے سکھوں کے جتھے بھی پہنچ گئے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ پٹیالہ ، کپورتھلہ اورفرید کوٹ کی ریاستوں میںمسلمانوں کا قتل عام ہوا تھا اور ان تینوں ریاستوں کے مہاراجوں نے کشمیر آ کر مہاراجہ کشمیر سے ملاقات کی تھی۔گویا مسلمانوں کی نسل کشی اور انہیں کشمیر سے دھکیل کر پاکستان بھیجنے کا ایک منصوبہ اس ’’ سٹینڈ سٹل ایگریمنٹ‘‘ کی آر میں تیار کر لیا گیا تھا۔ بات یہیں ختم نہیں ہوئی اس منصوبے پر عمل بھی شروع کر دیا گیا اور ایک روز جموں اور پونچھ کے شہریوں کو حکم ملا کی علاقہ خالی کر دیں لیکن اس سے قبل کہ لوگ گھروں سے نکلتے ہندو اور سکھ بلوائیوں نے گھروں کو نذر آتش کرنا اور مسلمانوں کا قتل عام شروع کر دیا۔ پاکستان کے نہیں ، یہ ٹائمز آف لندن کے اعدادو شمار ہیں کہ 2 لاکھ 37 ہزار لوگ مارے گئے۔آئن سٹیفن اپنی کتاب ’ ہارنڈ مون‘ کے صفحہ 138 پر لکھتے ہیں کہ 2 لاکھ قتل ہوئے ، بیماریوں کے ہاتھوں مرے یا پھر ہجرت کر گئے۔آکسفرڈ یونیورسٹی پریس سے شائع ہونے والی کتاب ’’ انڈر سٹینڈنگ کشمیر اینڈ کشمیریز‘‘ میں سنیڈن کرسٹوفرنے مقتول مسلمانوں کی تعداد ایک لاکھ تک ہونے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ اس قتل عام کا اعتراف ’ دی ہندو‘ کے رپورٹر لُو پوری نے بھی اپنی کتاب ’ اکراس دی لائن آف کنٹرول‘ میں کیا ہے۔یہی گواہی’ کشمیر لائف‘ میں وید بھیسن نے بھی دی ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ یوں لگتا تھا کرفیو صرف مسلمانوں کے لیے۔ مسلمانوں کو قتل کرنے والوں کے لیے نہیں ، چنانچہ جموں میں سڑکوں پر مسلمانوں کی لاشیں بکھری پڑی تھیں۔۔ اعدادو شمار میں مبالغے کا امکان بھی مد نظر رکھا جائے تب بھی یہ تو کہا جا سکتا ہے کہ وسیع پیمانے پر قتل عام ہوا۔ یہ تھا گویامہاراجہ کا ’’ جوں کا توں‘‘ یعنی ’ سٹینڈ سٹل‘‘ پونچھ کا علاقہ جنگجوئوں کا علاقہ تھا۔یہاں 70 ہزار سابق فوجی رہائش پزیر تھے جو جنگ عظیم میں حصہ لے چکے تھے۔ پونچھ سے مزاحمت شروع ہو گئی۔ الیسٹر لمیمب نے اپنی کتاب ’’ کشمیر : اے ڈسپیوٹڈ لیگیسی‘‘ میں لکھا ہے کہ جب اپنا کمانڈ سٹرکچر قائم کرنے کے بعد غازی ملت سردار ابراہیم خان صاحب نے قائد اعظم سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا تو قائد اعظم نے یہ کہہ کر ملاقات سے معذرت کر لی کہ اس سے کشمیر کے امور میں مداخلت کا تاثر قائم ہو سکتا ہے۔ایفائے عہد کی یہ غیر معمولی مثال تھی جو قائد اعظم نے قائم کی۔حیرت ہے کس سفاکی سے لوگ کہہ دیتے ہیں کہ’’ سٹینڈ سٹل ایگریمنٹ‘‘ کی خلاف ورزی پاکستان نے کی۔ اب آئیے اس الزام کی طرف کہ الحاق پر مجبور کرنے کے لیے پاکستان نے سٹینڈ سٹل معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کشمیر کی معاشی ناکہ بندی کر دی تھی۔ریاست کشمیر کا چونکہ بنیادی زمینی راستہ پاکستان سے جاتا تھا اور یہی اس کی صدیوں سے تجارتی راستہ بھی تھا تو ریاست نے کچھ چیزیں خریدنے کی ادائیگی کر رکھی تھی۔ پاکستان نے یہ سب کچھ روک دیا۔پاکستان کا موقف تھا کہ موجودہ حالات میں جب وہاں خانہ جنگی شروع ہو چکی ہے کوئی ٹرک ڈرائیور مال لے جانے پر تیار نہیں۔ پاکستان کے اپنے بہت سارے مسائل ہیں، لٹے پٹے قافلے آ رہے ہیں انہیں سنبھالنا ہے ، اس کے پاس اتنی نفری ہی نہیں کہ وہ ان ٹرکوں کے ساتھ سکیورٹی کے لیے بھاری تعداد میں فوجی تعینات کرے۔ بھارت نے پاکستان کو کول کی سپلائی روک رکھی تھی۔ ٹرینوں کا چلنا مشکل ہو رہا تھا۔مہاراجہ نے انکوائری کمیٹی بنانے کا مطالبہ کیا لیکن جوزف کاربل لکھتے ہیں کہ پاکستان نے اس مطالبے کی تائید کی تو مہاراجہ اس سے پیچھے ہٹ گئے۔( یاد رہے کہ جوزف کاربل اقوام متحدہ کے کمیشن میں بھارت کے نمائندہ تھے)۔ویانا کنونشن کے آرٹیکل 61 کے مطابق پاکستان سٹینڈ سٹل ایگریمنٹ کی خلاف ورزی کا مرتکب نہیں ہوا تھا کیونکہ حالات ہی ایسے ہو گئے تھے کہ پاکستان کے لیے تجارت جاری رکھنا ممکن نہیں تھا۔ ’سٹینڈ سٹل ایگریمنٹ ‘ کی اس بحث میں ایک اور نکتہ بہت اہم ہے۔ بھارت نے بھی حیدر آباد ریاست کے ساتھ 29 نومبر 1947 کوایسا ہی معاہدہ کیا تھا۔ اس کے آرٹیکل 4 میں لکھا تھا کہ کسی تنازعے کی صورت میں ’ آربٹریشن‘ کرائی جائے گی۔ لیکن ہوا کیا ؟ بھارت نے فوج کشی کی اور قبضہ کر لیا۔بھارت نے کہا کہ ’ سٹینڈ سٹل ایگریمنٹ ‘ کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ وہ ریاست آپ کے ساتھ شامل ہونا چاہتی ہے، ورنہ ہم تو کبھی سٹینڈ سٹل معاہدہ کرتے ہی نا۔ اب سوال یہ ہے کیا معاہدے کی یہی تعبیر کشمیر کے معاملے میں بھی کی جا سکتی ہے؟ رہ گیا یہ بے بنیاد دعوی کہ پاکستان نے سٹینڈ سٹل معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جارحیت کی ، قبائلی لشکر بھیجا ، فوج بھیجی اور اقوام متحدہ نے پاکستان کو جارح قرار دیاتو اس اس پر اگلے کالم میں تفصیل سے بات کریں گے۔