سادہ سی بات یہ ہے کہ جس قوم کی گندم اپنی نہ ہو، اس کا بارود بھی اپنا نہیں ہوتا اور جس کا بارود اپنا نہیں، اس کی آزادی کی ضمانت کیا۔ یہ فیصلے کا وقت ہے۔ اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے۔ اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے۔ سب سے زیادہ تشویش گندم کے بارے میں ہے۔ امسال گیہوں کی پیداوار کم کیوں ہوئی۔ اس لیے کہ کاشتکاروں کی قابلِ ذکر تعداد نے گندم کی بجائے کینولا کاشت کیا۔ سرسوں کی ایک قسم، جس میں زیتون کی کچھ خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ قدرت کے اٹل اصولوں میں سے ایک یہ ہے کہ ہر مہنگی چیز کا ایک متبادل اس نے پیدا کیا ہے۔ زیتون ایک مبارک تیل ہے، قرآنِ کریم میں جس کا ذکر ہے: قسم ہے انجیر کی اور زیتون کی اور طورِ سینا کی اور اس شہرِ امن مکہ کی بے شک انسان کو ہم نے احسنِ تقویم پہ پیدا کیا پھر اسے اسفل السافلین کردیا سوائے ان کے جو ایمان لائے اور اجلے عمل کیے ان کیلئے کبھی نہ ختم ہونے والا اجر ہے کیا اللہ سب حاکموں سے بڑا حاکم نہیں ہے؟ سیب ایک مہنگا پھل ہے لیکن اس کی بیشتر خصوصیات گاجر میں بھی پائی جاتی ہیں۔ امرا کا رب غریبوں کا رب بھی ہے۔ وہ سارے جہانوں کا رب ہے اور اس کی صفتِ رحم اس کی صفت عدل پہ غالب ہے۔ کاشتکاروں نے گندم پر کینولا کو اس لیے ترجیح دی کہ بیج کے اخراجات اس میں آدھے ہوتے ہیں اور یافت تقریباً دو گنا۔ وہی بیس سے تیس من کی اوسط۔ ایک لحاظ سے یہ درست فیصلہ ہے۔کاشتکار کے مفاد میں تو ہے ہی۔ ملک کو بھی فائدہ ہے۔ اس لیے کہ پیٹرول اور ڈیزل کے بعد سب سے زیادہ زرِ مبادلہ کھانے کے تیل پہ لٹتا ہے۔ بیس برس سے بحث جاری ہے کہ کیا پاکستان اپنی ضرورت کے مطابق کھانے کا تیل پیدا کر سکتاہے۔ جواب اثبات میں ہے۔ سندھ اور بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں لگ بھگ پانچ لاکھ ایکڑ زمین ایسی ہے،پام آئل کے درخت جس پہ اگائے جا سکتے ہیں۔ فی الحال جس پر انڈونیشیا اور ملائیشیا کی اجارہ داری ہے۔ پچھلے چند ماہ کے دوران جہاں تیل اور کوئلے کے نرخ بڑھے ہیں۔ بحری جہازوں کے ذریعے نقل و حمل کے بھی۔ اسی طرح کھانے کا تیل بھی مہنگا ہوا بلکہ دوسری چیزوں سے زیادہ۔ لگ بھگ نصف صدی پہلے تک انڈونیشیا اور ملائیشیا میں پام کے درختوں کا وجود نہ تھا۔ یہ افریقہ سے لائے گئے۔ آب و ہوا ان کے لیے سازگار تھی؛چنانچہ دنیا بھر میں کھانے کے تیل کی سب سے زیادہ پیداوار مشرقِ بعید کے ملکوں میں ہونے لگی۔ اب کی بار فصل خراب ہوئی؛چنانچہ دام بڑھ گئے۔ اتنے کہ دور دور تک جس کا اندیشہ نہ تھا، تین گنا تک۔ برسبیلِ تذکرہ ہمارے عہد کے عظیم مدبر مہاتیر محمد مشرقِ بعید کی اصطلاح سے چڑتے ہیں۔ ان کا کہنا یہ ہے: گوروں کو یہ اختیارکس نے دیا کہ وہ ہمیں مشرق اور خود کو مغرب کہیں۔ طلوع و غروبِ آفتاب کے اوقات اپنے طور پر کیسے انہوں نے مقرر کر لیے۔ خیر یہ ایک الگ بحث ہے۔ بنیادی نکتہ یہ ہے کہ غالب تہذیب کا سورج نصف النہار پہ چمکتا ہے اور دیر تک چمکتا رہتاہے۔ انسانی فطرت طاقت سے مغلوب ہوتی ہے۔ آدمی کی سرشت میں رواجِ عام کی پیروی رکھی گئی۔ کم ہی لوگ ہیں، زندگی کو جو اپنی آنکھ سے دیکھتے ہیں۔ خورشید رضوی نے کہا تھا : کبھی اپنی آنکھ سے زندگی پہ نظر نہ کی وہی زاویے کہ جو عام تھے، مجھے کھا گئے سالِ گزشتہ کے مقابلے میں اس سال گیہوں اور بھی کم کاشت ہوگا۔ اس لیے بھی کہ کینولا کو گندم کے مقابلے میں کم پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہرگزرتے دن کے ساتھ آبادی بڑھتی جاتی اور پانی کم ہوتا جا رہا ہے۔ دنیا کے سب سے اونچے پہاڑ پاکستان میں ہیں، جن کے دوسری طرف بھارت اور نیپال ہیں۔موسمیاتی تبدیلیوں کے طفیل لاکھوں برس کی برف باری میں ان پر جمنے والے میلوں موٹائی کے گلیشیر پگھل رہے ہیں۔ اندازہ ہے کہ پچپن برس میں یہ پہاڑ خالی ہو جائیں گے۔ پچھلے چند برسوں میں ایک سے زیادہ بار گلیشیر کے ہیبت ناک ٹکڑے شمالی علاقوں میں ٹوٹ کر گرے ہیں۔ میدانوں میں جھیلیں بن گئی ہیں۔ کئی مقامات پر سینکڑوں برس سے آباد چلی آتی شاہراہِ ریشم کو اس سے نقصان پہنچا ہے۔ مسئلے کا حل کیا ہے؟ ایک عشرہ پہلے ڈاکٹر ظفر الطاف نے حساب لگا کر بتایا تھا کہ ملک میں بڑے پیمانے پر پائپ تیار کیے جائیں۔ کھیتوں میں فوارے لگائے جائیں تو فی ایکڑ اخراجات پانچ ہزار روپے سے زیادہ نہیں ہوں گے۔ چالیس فیصد تک پیداوار بڑھ جائے گی اور نوے فیصد پانی بچ رہے گا۔ نئی تحقیقات کے نتیجے میں آبپاشی کے کچھ نئے آلات سامنے آئے ہیں۔ ان میں ایک ایسا فوارہ بھی شامل ہے بٹن دبانے پر جو ایک ہی وقت میں ساٹھ ایکڑ زمین کو سیراب کر سکتاہے۔ فرض کیجیے، فواروں سے آبیاری پر اخراجات اگر پچیس سے تیس ہزار فی ایکڑ ہوں تو بھی یہ مہنگا سودا نہیں۔ زیادہ سے زیادہ تین برس میں اخراجات پورے ہو جائیں گے۔ شعبدہ باز حکومت مگر پندرہ ہزار سکوٹیاں بانٹنا چاہتی ہے۔ ایک ہزار سٹیڈیم بنانا چاہتی ہے۔ سکوٹیاں اچھی، سٹیڈیم بھی اچھے۔ دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ ملک اور معاشرے کی اولین ضرورت کیا ہے۔ سادہ سی بات یہ ہے کہ جس قوم کی گندم اپنی نہ ہو، اس کا بارود بھی اپنا نہیں ہوتا اور جس کا بارود اپنا نہیں، اس کی آزادی کی ضمانت کیا۔ یہ فیصلے کا وقت ہے۔ اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے۔ اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے۔ ٭٭٭٭٭