ہاں وہ ہفتہ روزہ چٹان کے مدیر طاہر محی الدین سے خفا تھے اور کہتے تھے کہ وہ قنوطیت پھیلا تے ہیں، اسلئے ایک مدت تک وہ ان کو انٹرویو نہیں دیتے تھے۔ ٹائمز آف انڈیا کے سرینگر کے نمائندے نے ان کے خلاف ایک بار انتہائی بہتان آمیز خبر شائع کی تھی۔ ان کے آفس کے ایک رفیق نے اخبار اور اس نمائندے کے خلاف عدالت میں توہین کا کیس درج کیا تھا۔ مگر وہ اس کے خلاف تھے اور ان کو بار بار کہہ رہے تھے، کہ اس کیس کی پیروی ختم کریں۔ ہر انسان مکمل نہیں ہوسکتا ہے۔ یقینا گیلانی صاحب میں بھی کمزوریا ںتھیں اور ان سے لغزشیں سرزد ہوئی ہونگی۔ تحریک کی قیادت کرتے ہوئے وہ اپنے پیچھے متبادل قیادت چھوڑ نہیں سکے۔80ء کی دہائی میں سو پور میں انہوں نے غلام قادر وانی ، عبدالوحید کرمانی، غلام محمد صفی،محمد اشرف صحرائی اور سرینگر میں شیخ تجمل اسلام اور کئی دیگر احباب کو گروم کرنے کی کوشش کی۔ مگر ان میں سے اکثر جماعت اسلامی کے کڑے ڈسپلن کی تاب نہیں لاسکے۔صحرائی صاحب اپنے آخری دم تک ان کے ہم رکاب رہے، مگر کرشماتی شخصیت ان تک منتقل نہیں ہوسکی۔ گیلانی صاحب کے بار بار اسلام و قرآن اور اقبال کے تذکرہ سے بھی کئی لوگ نالاں رہتے تھے، مگر بھارت میں بائیں بازو کے افراد کے ساتھ ان کے قریبی تعلقات تھے اور وہ بھی انکو خوب نبھاتے تھے۔ ممبئی میں ایک بار آندھرا پریش کے تعلق رکھنے والے ایک بائیں بازو کے لیڈر نے جن کا کشمیر آنا جانا لگا رہتا تھا اوران کو میری رشتہ داری کا علم نہیں تھا بتایاکہ گیلانی صاحب کشمیر کے گنے چنے مخلص اور سنجیدہ لیڈروں میںسے ہیں۔ وہ مجھے سمجھانے کی کوشش کررہے تھے کہ بطور کشمیری ان کی قدر کروں۔ 1470ء میں سلطان زین العابدین کے سنہری دور اور پھر 1585ء میںکشمیر پر مغل تسلط اور آخری بادشاہ یوسف شاہ چک کی قید و جلا وطنی کے بعد کشمیر ی مسلسل کسی ایسے لیڈر کی تلاش میں ہیں، جو ان کو صدیوں کے گرداب سے باہر نکالے اور قابض قوتوں کے سامنے سینہ سپر ہوکر ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرے۔ اس دوران کئی سرابوں کو انہوں نے سر آنکھوں پر بٹھایا۔ گیلانی صاحب میں کئی کوتاہیاں سہی، مگر وہ اس معیار پر پورے اترے۔ کوئی بھی حاکم وقت ان کی گردن جھکا نہیں پایا۔ ان کے آخری سفر سے ہی اندازہ ہوتا ہے کہ مخالفین کس قدر ان سے خائف تھے۔ 18سال قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے کے بعد پچھلے 11سالوں سے وہ گھر میں نظر بند تھے۔ اس دوران میرے والد ، ان کے بڑے داماد اور ان کے دو بھائیوں کے انتقال پر بھی انکو سوپور نہیں جانے دیا گیا۔ حیدر پورہ کی مسجد کے پاس قبرستان میں انہوں نے دس سال قبل خود ہی دو قبروں کیلئے زمیں خریدی تھی۔ مگر پچھلے سال جب وہ انتہائی علیل تھے، تو عید گاہ سے متصل مزارشہدا کے ذمہ داروں سے انہوں نے گذارش کی تھی، کہ ان کے جسد خاکی کو وہاں دفن کرنے کی اجازت دی جائے۔ مگر حکام نے اسکی اجازت دینے سے منع کردیا۔ خیر حیدر پور ہ کے قبرستان میں سیکورٹی بندوبست کے ہوتے ہوئے ان کواہل خانہ اور پڑوسیوں کی موجودگی میں ان کو باوقار طریقے سے دفنایا جا سکتا تھا ۔پورے کشمیر میں ویسے ہی کرفیو نافذ تھا۔ مگر طاقت کے زعم میں صبح تین بجے پولیس نے ان کے گھر پر دھاوا بول کر اہل خانہ کو تشدد کا نشانہ بنایا۔ مکان کی بجلی بند کرکے ان کی اہلیہ کو جوتوں تلے روند ڈالا گیا ۔ ریڈنگ پارٹی اسٹریچر بھی اپنے ساتھ نہیں لائی تھی۔ پہلے انکی نعش کو اٹھانے کی کوشش کی گئی، پھر گھسیٹے ہوئے اسکو باہر لے گئے۔ 23 محرم الحرام 1443 یعنی یکم ستمبر 2021 کا یہ واقعہ بھارت اور کشمیر کی تاریخ میں ایک سیاہ دھبہ کے حیثیت سے یاد کیا جائیگا۔ تاریخ اور وقت ایک پہیہ کی طرح گھومتے ہیں۔ وقت کسی کا ساتھ نہیں دیتا ہے۔ جس طرح ابھی حال ہی میں سومنات میں وزیر اعظم نریندر مودی نے ایک ہزار سال بعد محمود غزنوی کو یاد کیا، اسی طرح کشمیر کی تاریخ اور اسکی نسلیں اس واقعہ کو یاد رکھیں گی۔ جس طرح دھرنوں کے دوران پولیس یا اسمبلی میں مارشل اباًجی کو اٹھا کر اور گھسیٹ کر گاڑی میں ڈالتے تھے، بالکل اسی طرح کا سلوک ان کی میت کے ساتھ ان کے آخری سفر کے دوران کیا گیا۔ کسی نے کہا ہے ۔۔کہ تارے تو ہمیشہ ٹوٹتے ہیں، اب کے مہ کامل ٹوٹ گیا۔ ٭٭٭٭٭