عید کی آمد آمد ہے ، سوال یہ ہے اس عید پر کون چاند چڑھائے گا؟ مفتی منیب الرحمن صاحب ،مفتی شہاب الدین صاحب پوپلزئی یا جناب فواد چودھری؟ کبھی آپ نے سوچا یہ رویت ہلال کمیٹی کیوں بنی تھی؟ پارلیمان کی دستاویزات کا مطالعہ کیا جائے تو ایک دلچسپ حقیقت سامنے آتی ہے کہ رویت ہلال کمیٹی محض چاند دیکھنے کے لیے قائم نہیں کی گئی تھی۔ رویت کا عمل تو 1947 سے لے کر 1974 تک کسی نہ کسی صورت اس ملک میں ہو ہی رہا تھا۔بھٹو صاحب کے دور میں قومی اسمبلی کی ایک قرارداد کے ذریعے اس کمیٹی کا قیام اس لیے عمل میں لایا گیا تھا کہ رویت کے حوالے سے اکثر جو تنازعات جنم لیتے تھے ان کا خاتمہ کیا جا سکے۔ایوب خان صاحب کے دور میں جس طرح دو عیدوں پر حکومت نے رات گئے فیصلے بدلے اور علماء نے ان فیصلوں کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا، اور پھر سید مودودی سمیت چند علماء کو تین ماہ قید کر دیا گیا ، یہ وہ پس منظر تھا جس نے بھٹو صاحب کو مائل کیا کہ ایک ایسی کمیٹی بنے جو رویت کے معاملے کو دیکھے اور مسلمانوں کی خوشی کا یہ موقع کسی تنازعے کی نذر نہ ہو جائے۔ اتفاق دیکھیے کہ رویت ہلال کمیٹی موجود ہے لیکن ہر عید ہی تنازعے کا شکار ہو جاتی ہے ۔ اور حسن اتفاق دیکھیے ، آج حکومت پاکستان کی اپنی وزارت ، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ، کے وزیر محترم تلے بیٹھے ہیں کہ رویت ہلال کمیٹی کے ہر فیصلے سے اختلاف کر کے اس کی افادیت پر ہی نہیں اس کے وجود پر بھی سوال اٹھا دیے جائیں۔ معلوم نہیں یہ افتاد طبع کا مسئلہ ہے یا اس کا تعلق کسی پالیسی سے ہے لیکن یہ سامنے کی حقیقت ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل ہو یا رویت ہلال کمیٹی ، جہاں کسی ادارے کو مذہب اور اہل مذہب سے کوئی نسبت ہوتی ہے وہاں وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی منگولوں کی طرح شمشیر بکف داد شجاعت دینے آ جاتی ہے۔مفتی شہاب الدین پوپلزئی کی بات اور ہے لیکن جب حکومت کا ایک وزیر حکومت ہی کی قائم کردہ رویت ہلال کمیٹی کے فیصلوں کو تسلیم نہ کر رہا ہو تو معاملہ سنگین ہو جاتا ہے۔ سوال یہ کیا حکومت میں سے کسی کو اس کی سنگینی کا احساس ہے؟ مفتی پوپلزئی صاحب سال کے سارے چاند مفتی منیب الرحمن صاحب کے ساتھ ہی چڑھاتے ہیں لیکن عید اور رمضان کے چاند ، انہوں نے اکثر الگ چڑھائے۔سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں؟ اور جواب اس کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے کہ ان دو مواقع پر اختلاف سے شہرت کے امکانات بہت پیدا ہوتے ہیں۔ جن مہینوں کے چاند الگ چڑھانے سے شہرت ملنے کی امید نہیں ہوتی وہاں اختلاف کیوں نہیں ہوتا۔ اتنا اہتمام صرف ان دو مواقع کے لیے کیوں؟ خود رویت ہلال کمیٹی کے ہاںسب ٹھیک نہیں ہے۔میں تلاش کر کے تھک گیا ہوں کہ کمیٹی کو قائم ہوئے پانچ عشرے ہونے کو ہیں تو اس کا آئین کہاں ہے؟ اس کے قوانین کہاں ہیں؟ یہ کن اصول و ضوابط کے تحت چلائی جا رہی ہے؟اس مجموعہ قوانین کا نام کیا ہے جو رویت ہلال کمیٹی کے معاملات کے لیے بنایا گیا؟ یقینا یہ میری ہی کم علمی ہو گی لیکن ان سوالات کا مجھے کہیں سے کوئی جواب نہیں مل سکا۔ ایک طالب علم کے طور پر میں جاننا چاہتا ہوں کہ رویت ہلال کمیٹی کے چیئر مین کی اہلیت کی شرائط کیا ہیں؟ کس کس شعبے کا اور کتنا علم ہونا چاہیے تب کوئی اس منصب کا اہل بنتا ہے؟ کیا اہلیت میں فلکیات کے شعبے میں مہارت کی بھی کوئی اہمیت ہے یا نہیں؟ چیئر مین رویت ہلال کمیٹی کتنے عرصے کے لیے چیر مین بنتا ہے؟ کیا کبھی اس نے ریٹائر بھی ہونا ہے یا ایک بار چیئر مین بننے کے بعد ساری عمر چاند چڑھاتے رہنا اس کا استحقاق سمجھا جائے گا؟ رویت ہلال کمیٹی کے فاضل ممبران کا انتخاب کیسے ہوتا ہے؟ اس کے کم از کم اور زیادہ سے زیادہ ممبران کی حد کیا ہے؟ چاند نظر آنے یا نہ آنے کا اعلان کرتے وقت جب ایک ضرورت سے زیادہ طویل کانفرنس میں یہ تمام معزز ممبران ایک ساتھ تشریف فرما نظر آتے ہیں تو اس سوال کی معنویت میں اضافہ ہو جاتا ہے کہ رویت کا تعلق فلکیات سے ہے یا ان علمائے کرام سے؟ علمائے کرام کی اس کمیٹی میں شمولیت یقینا لازم اور ناگزیر ہے لیکن سوال یہ ہے اس کا تناسب کیا ہے؟ کیا سارے ہی علماء ہیں اور ایسا ہے تو کیوں؟ ہمیں کوئی سائنسدان اور فلکیات کا کوئی ماہر بطور ممبر رویت ہلال کمیٹی ، اس اجلاس میں تشریف فرما کیوں نظر نہیں آتا؟اتنے زیادہ علمائے کرام اس کمیٹی میں کیوں ہوتے ہیں؟ چاند کی رویت کا معاملہ تو سادہ سا ہے پھر اتنے زیادہ اہل مذہب کو کیوں زحمت دی جاتی ہے؟ دو چار سائنسدان اور دو چار اہل مذہب بھی بیٹھ جائیں تو چاند نے جب چڑھنا ہو گا چڑھ جائے گا؟ پھر اتنا مجمع کیوں؟ کیا رویت ہلال کمیٹی بھی بعض پسندیدہ حضرات کو ’’ اکاموڈیٹ‘‘ کرنا کا ایک وسیلہ ہے تا کہ یہ حضرات اپنے وزیٹنگ کارڈ پر لکھ سکیں ’’ ممبر رویت ہلال کمیٹی‘‘ ، اور یہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے؟یہ سوال بھی اہم ہے کہ کتنے ممبران کا تعلق کس شہر سے ہے اور ان کی فکری پہچان کیا ہے؟ اس سوال کا جواب ملے گا تو شاید یہ گتھی بھی سلجھ جائے کہ مفتی شہاب الدین پوپلزئی صاحب کے اس اختلاف کی اصل وجہ کیا ہے؟ ہمارے معاشرے میں ایک اور بڑا دلچسپ رویہ سامنے آ رہا ہے۔ کسی صاحب منصب سے اس کی کارکردگی یا اہلیت کا سوال کیا جائے تو جواب آتا ہے: میں یہ کام مفت کر رہا ہوں ، اس کی تنخواہ نہیں لے رہا۔ کرکٹ بورڈ کے چیئر مین سے سوال کیا جائے تو ماضی میں یہی جواب ملتا تھا ۔ اب یہی جواب رویت ہلال کمیٹی کے اکابرین بھی دیتے ہیں۔ کچھ دیگر حکومتی مناصب پر فائز لوگ بھی یہی کہتے ہیں کہ یہ منصب تو اعزازی ہے۔اس رویے کا بھی سماجی مطالعہ کرنیکی ضرورت ہے۔ ان سب عالی جاہوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ منصب سے حاصل ہونے والے لطف و کرم کی داستان صرف تنخواہ تک محدود نہیں ہوتی۔آپ کا ’’ پروفائل بھی ہائی‘‘ ہو جاتا ہے اور اس کے جملہ لوازمات سے بھی آپ فیض یاب ہوتے ہیں۔ محض خدمت خلق اور دین کی خدمت مقصود ہے تو یہ مناصب چھوڑ کر دو مہینے ایدھی فائونڈیشن اور چار مہینے تبلیغی جماعت کے ساتھ لگا لیجیے۔ ریاستی منصب پر کوئی آئے گا تو اس سے سوال ہو گا اور سوال کے جواب میں یہ کہہ دینا کافی نہیں ہو گا کہ میں تنخواہ نہیں لیتا۔ ٭٭٭٭٭