استاد غالب ؔبے مثال شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک زبردست انسان بھی تھے ۔ اُن کی شاعری اہلِ ذوق کے لیے نشاط اور سرشاری کا باعث تو ہے ہی سبق آموز بھی ہے لیکن دوسری طرف اگر اُن کی شخصیت کا مطالعہ کریں تو ہمیں کئی واضح پیغامات ملتے ہیں ۔ مثلاً اُن کی زندگی سے ایک بھرپور پیغام یہ ملتا ہے کہ ناقدری ِ زمانہ آپ کے راستے کی رکاوٹ نہیں بننی چاہیئے ۔ اگر انسان کی کسی خوبی کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی تو اس رویے کو نظر انداز کرتے ہوئے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے رہنا چاہیئے ۔ اگرچہ پزیرائی نہ ملے جس کا وہ مستحق ہو تو بھی اُسے مایوس ہوئے بغیر کوشش جاری رکھنی چاہیئے۔ اپنی اُس صلاحیت کی آبیاری کرتے رہنا چاہیئے جو اُسے ودیعت کی گئی ہے ۔ نغمہ ہائے غم کو بھی اے دل غنیمت جانیے بے صدا ہو جائے گا یہ ساز ِ ہستی ایک دن لیکن دوسری طرف دیکھا جائے تو ایسی خوش کُن اور امید افزا باتوں اور تخلیق ِ ادب کی کوشش کے حوالے سے اپنی زندگی سے بے مثال نمونہ پیش کرنے کے باوجود انہیں ناقدری زمانہ کا گلہ بہر طور رہا۔ مختلف اندازسے وہ بارہا اس کا اظہار کرتے رہے۔اپنی شاعری میں وہ لاکھ اس بات کا تذکرہ کرتے رہے ہوں کہ انہیں’ ستائش کی تمنا ‘یا کسی ’صلے کی پروا ‘ نہیں ہے لیکن احباب کے ساتھ اُن کی گفتگو اور خط و کتابت میں اُن کی رائے ذرا مختلف نظر آتی ہے ۔ وہ یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ ’’ پُر ہوں شکوے سے یوں راگ سے جیسے باجا ۔۔اک ذرا چھیڑئیے پھر دیکھیے کیا ہوتا ہے ‘‘ ۔مرزا کی زندگی پہ نظر ڈالیں تو اُن کے ایسے بے طرح گلے کی توجیہہ بھی سمجھ آتی ہے مثلاً دیکھیے کہ عُمر بھر وہ کرائے کے مکانوں میں رہے ۔۔قرض خواہوں کے تقاضے اکثر اُن کا پیچھا کرتے رہے۔۔اک درجہ شہرت رکھنے اور شریف النفس ہونے کے باوصف کوتوال شہر اور میجسٹریٹ کی ’’مہربانی ‘‘ سے انہیں چند ماہ جیل بھی کاٹنی پڑی۔۔ اک طویل عرصہ نامکمل پینشن کے ضمن میں سرگرداں رہے ۔اس حوالے سے انہوں نے سرکار کو پانچ درخواستیں گزاریں چار پینشن بڑھانے کے لیے اور ایک حصول خطاب کے لیے ۔ لیکن بے سود ! پینشن بڑھی نہ خطاب ملا ۔ اور پھر دوسری طرف جوان بھائی کی دیوانگی مسلسل پریشانی کا باعث الگ سے بنی رہی ۔۔یہ سب کچھ اور کئی دیگر مسائل دیکھیںتو پتہ چلتا ہے کہ اُن کی زندگی میں وہ سارا ’ سامان ‘ موجود تھا جس پرشاید بجا طور پر کہا جا سکتا تھا کہ ’’ زندگی اپنی جب اس شکل سے گزری غالبؔ۔۔ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے ‘‘ ۔ مرزا غالب ؔکو اپنی فارسی شاعری پہ ناز تھا اور فارسی شاعری کو وہ قبولِ عام اور پزیرائی نہ ملنے پر انہیں خاص طور پہ قلق تھا۔ انہوں نے اردو شاعری کو اپنا اصلی و اوّلیں فن کبھی بھی قرار نہیں دیا۔ بس کبھی شوق ہوا یا کسی دوست نے فرمائش کی یا پھر بادشاہ سلامت کے تعمیلِ حکم پر وہ کوئی ایک آدھ اردو غزل لکھا لیا کرتے تھے ۔ ایک دفعہ اپنے دوست منشی نبی بخش کو لکھتے ہیں ’’ بھائی صاحب تم میری غزل کی تعریف کرتے ہو اور میں شرماتا ہوں ۔یہ غزلیں کا ہے کو ہیں پیٹ پالنے کی باتیں ہیں ۔ میرے فارسی کے وہ قصیدے جن پر مجھ کو ناز ہے کوئی ان کا لُطف نہیں اُٹھاتا۔ اب قدر دانی اس پر منحصر ہے کہ گاہ گاہ حضرت ظلِ سبحانی فرما بیٹھے ہیں کہ بھائی تم بہت دنوں سے کوئی سوغات نہیں لائے یعنی نیا ریختہ ۔ناچار کبھی کبھی کوئی غزل کہہ کر لے جاتا ہوں۔‘‘ ادبی دنیا میں استاد غالبؔ کوئی واحد شخصیت نہیں جنہیں ناقدری عالم کے ضمن میں شکایت رہی ہو۔اپنے اپنے زمانے میں کئی مشاہیر اس ڈھب کی ستم ظریفی کا شکار رہے ۔ کئی نابغہ روزگار ہستیاں ایسی رہیں کہ جن کے عہد میں اُن کی قدرومنزلت کا درست اندازہ نہ لگایا جا سکا لیکن آنے والے زمانوںنے اُن کے کمال کو سراہا۔مثلاً انگریزی ڈرامہ نویس ولیم شیکسپیئر اور شیخ سعدی اک طویل عرصہ اسی سلوک کا ہدف رہے لیکن بعد ازاں اُن کی شہرت چہاردانگ عالم میں پھیل گئی ۔ مرزا کی ادبی قدر شناسی کما حقہ نا صرف ان کی زندگی میں نہ ہو سکی بلکہ ان کے انتقال کے بعد بھی کچھ عرصہ یہی صورت حال رہی ۔ مثلاً اُس زمانے کے لاجواب نثرنگار محمد حسین آزاد ؔ نے شاعروں ادیبوں کے تذکروں پہ مبنی اپنی شہرہ آفاق کتاب کا پہلا ایڈیشن شائع کیا تو اس میں مرزا کا ذکر تک نہیں تھا ۔ استاد غالبؔ کا ذکر ہمیں اس کتاب کے دوسرے ایڈیشن میں ملتا ہے ۔ مرزا کی ادبی قدرومنزلت کے حوالے سے جو خیالات الطاف حسین حالیؔ نے اپنی لاجواب کتاب ’’ یادگارِ غالب‘‘ ؔ میں بیان کیے ہیں وہ پڑھنے کے لائق ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ زمانے نے اپنی بساط کے موافق مرزا کی کچھ کم قدر نہیں کی ، ان کا تمام کلام اُن کی زندگی میں ہی سارے ہندوستان میں پھیل گیا تھا۔ اُن کے مداح ہر گوشے میں موجود تھے ۔ تعریفی قصائد پر اُن کو صلے اور انعامات بھی ملتے رہے ۔بادشاہ سلامت نے بھی اُن کی خاصی قدر کی ۔ ریاست رام پور سے انہیں آخر تک مناسب وظیفہ بھی ملتا رہا ۔حالی ؔ کہتے ہیں کہ یہ سب تو ہوا لیکن جب ہم شاعری میں مرزا کے اصلی مقام کو دیکھتے ہیں تو ہمیں بلاشُبہ یہ کہنا پڑتا ہے کہ زمانے کی یہ تمام قدردانی زیادہ سے زیادہ اُس بُڑھیا کی سی قدردانی تھی جو سوت کی اٹی لے کر یوسف ؑ کی خریدرای کے لیے بازار مصر میں آئی تھی ۔ غالبؔ کو ہر عہد میں بے پناہ عزت ملی، شاید ، سوائے اُن کے اپنے عہد کے ۔ ’عمر بھر سنگزنی کرنے اور بڑے احترام سے دفنانے‘ کی ریت ہمارے ہاں کافی پرانی ہے ۔۔اُستاد غالبؔ بھی اس سے مستثنیٰ نہیں رہے ۔۔شاعر نے کہا تھا : اس کو ناقدری عالم کا صلہ کہتے ہیں مر چکے ہم تو زمانے نے بہت یاد کیا