باتیں اور بس باتیں، خطابت اور محض خطابت۔ اللہ کی آخری کتاب پوچھتی ہے:لما تقولون مالا تفعلون۔ تم وہ بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں۔ شیخ آئے جو محشر میں تو اعمال ندارد جس مال کے تاجر تھے وہی مال ندارد ہمہ وقت ایسی کوفت ہے کہ قلم و قرطاس اور ٹی وی سکرین کو ہمیشہ ہمیشہ کو خیرباد کہنے کو جی چاہتا ہے۔ آدھی صدی سے زیادہ تقریباً تمام عملی زندگی، صحافت کے دشت میں بیت گئی۔ حاصل کیا، درد اور رائیگانی۔ درد ایک عظیم متاع ہے، اگر کسی سمت اور شعور سے بہرہ ور ہو، ورنہ فقط ذہنی اذیت۔ خطا کے پتلے ہم اخبار نویس کس شمار قطار میں ہیں۔ اقبالؔ گریہ کرتے رہے۔ سینہ کوبی میں رہے جب تک کہ دم میں دم رہا ہم رہے اور قوم کے اقبال کا ماتم رہا نہیں، انہیں یہ غم لاحق نہ تھا کہ مسلم برصغیر سیاسی آزادی حاصل نہ کر سکے گا۔ جیسا کہ ڈاکٹر چغتائی نے، عبقری کے آخری برسوں کی روداد میں لکھا ہے۔ یقین کے ساتھ دنیا سے اٹھے کہ پاکستان بن کے رہے گا۔ ملال ان کا یہ تھا کہ اخلاقی طور پر معاشرہ پست سے پست تر ہوتا جا رہا ہے۔ ان کا دل سیاسی اشرافیہ پہ دکھتا تھا، مُلاّ کے جہل پہ نالاں تھے اور اس مخلوق سے‘ غیر ملکی اقتدار اور اس کے سائے میں پلنے والی الحاد کی تحریکوں نے جسے اچک لیا تھا۔ کچھ یورپ کے اندھے پرستار، ہوش و خرد سے محروم، کچھ اشتراکیت کے پیروکار۔ زمن بر صوفی و مُلّا سلامے کہ پیغام خدا گفتند مارا ولے تاویل شاں در حیرت انداخت خدا و جبریل و مصطفیٰ را صوفی و مُلا کو میرا سلام پہنچے کہ اللہ کا پیغام اس نے ہم تک پہنچا دیا۔ ہاں! مگر اس کی جو تاویل فرمائی ہے، پروردگار اس پہ حیران ہے، جبریل حیران ہیں اور خود جناب رسالت مآب صلّو علیہ وآلہ۔ عصری سیاستدانوں کے بارے میں، ان کا لہجہ اس قدر تلخ ہے کہ قاری حیرت زدہ رہ جاتا ہے۔ امید کیا ہے سیاست کے پیشوائوں سے کہ خاک باز ہیں رکھتے ہیں خاک سے پیوند فلسفی کو اس پہ اطمینان نہ ہوا تو شیطان کی زبان سے یہ کہا: ابلیس کے فرزند ہیں ارباب سیاست اب باقی نہیں میری ضرورت تہہِ افلاک اور نام نہاد ترقی پسندوں کے بارے میں؟ ابن آدم کی نفسیات،معاشرے کی ساخت اور امت مسلمہ کے مزاج سے یکسر جو بے خبر تھے، جذبات کے بندے۔ کب ڈرا سکتے میں مجھ کو اشتراکی کوچہ گرد یہ پریشاں روزگار، آشفتہ مغز، آشفتہ مو شعر کے دوسرے مصرعے سے کیسی تصویر ابھرتی ہے؟ یہ احمق لوگ جو زندگی کو نہیں سمجھتے۔ خود کو جو برباد کریں گے اور دوسروں کو بھی۔ اقبالؔ کی وفات کے نصف صدی بعد یہ پیش گوئی پوری ہوئی، سوویت یونین جب ٹوٹ کر بکھر گیا۔ چین نے جب کمیونزم کے تمام بنیادی اصولوں کو بالائے طاق رکھ کرمنڈی کی معیشت کو قبول کر لیا اور دل و جان سے قبول کیا۔ تبھی وہ زندہ ہوئے، تبھی ایک ایک کر کے اقتصادی نموکی منزلیں سر کیں، حتیٰ کہ عالمی طاقت بن گئے۔ یہ الگ بات کہ معاشی حیوان بنتے جا رہے ہیں اور آخر کار ان کا انجام بھی ہو گا، جو ہر مادہ پرست قوم کا ہوا کرتا ہے۔ اس اثنا میں ہمارے ترقی پسند امریکہ پر ایمان لے آئے۔ وہ جو کبھی ان کا سب سے بڑا دشمن تھا۔ جو کائنات ارضی میں تمام برائیوں کی جڑ اور سائبان تھا۔ اب وہ این جی اوز بناتے اور لبرل کہلاتے ہیں۔ الّا ماشاء اللہ، دستر خوان ان کے سرسبز ہیں اور قلب و روح ویران۔ مولانا حسین احمد مدنی کے وارث اب حضرت مولانا فضل الرحمن ہیں۔ ان کے بارے میں جس قدر کم کہا جائے، اتنا ہی بہتر ہے۔ کردار ان کا نوشتہ دیوار ہے اور نوشتۂ دیوار کے باب میں کچھ عرض کرنے کی ضرورت ہی کیا۔بزعم خود اب وہ کامیابی کے راستے پر گامزن ہیں کہ پختون خوا میں کپتان کو پچھاڑ دیا۔ تحمل ان میں بہت ہے۔ سیاسی منصوبہ بندی کے خوگر۔ نون لیگ کی طرح، پیپلزپارٹی اور اے این پی نے دل و جان سے ساتھ دیا ہوتا تو شاید اب تک حکومت کو اکھاڑ پھینکتے۔ مگر اس کے بعد؟ خلافِ شرع کبھی شیخ تھوکتے بھی نہیں اندھیرے اجالے مگر چوکتے بھی نہیں مولانا حسین احمد مدنی کے متعلق کچھ بھی کہا جائے، ان کی ذاتی زندگی کا ذکر احترام سے کیا جاتا۔ فکری بالیدگی تو کیا کہ مذہبی مکاتب فکر بت تراشا کرتے ہیں۔ خاص طور پر ان کا مذہبی گروہ۔ سادگی میں بسر کرتے اور کانگرس سے رسم وراہ تھی اور کچھ پراسرار کہانیاں بھی مگر ایک حیا اور شرافت۔ پختون خوا میں متحدہ مجلس عمل کے اقتدار میں دہشت گردی پھلتی پھولتی رہی۔ بارہ برس ہوتے ہیں، خوازہ خیلہ جانے کا اتفاق ہوا، معلوم ہوا کہ طالبان نے ایک عدد ادارہ قائم کر رکھا ہے۔ ’’دارالعروسہ‘‘ جبراً جہاں ’’مجاہدین‘‘ کی شادیاں، ان کی پسندیدہ خواتین سے کر دی جاتی ہیں۔ شہر والوں کا کہنا تھا کہ لگ بھگ دوسو ایسے واقعات ہو چکے۔ چھروں سے، جی ہاں قصابوں کے چھروں سے انسان ذبح کیے جاتے۔ لاہور کے ایک مشہور مدرسے میں دو سو علماء کا اجتماع برپا ہوا۔یاللعجب قاتلوں کی مذمت سے انہوں نے انکار کر دیا۔ ان علماء کرام نے، جو قرآن کریم کی تلاوت کرتے اور احادیث رسولؐ کا درس دیتے ہیں۔ مصحف میں جو پڑھتے ہیں، ’’الفتنہ اشد من القتل‘‘ فتنہ قتل سے بڑا گناہ ہے۔ ٹی وی کے ایک مذاکرے میں، یہ بات کہی تو وفاق المدارس کے سربراہ نے چلّا کر کہا: تم جھوٹ بولتے ہو۔ کچھ ایسا نرم مزاج یہ خاکسار بھی نہیں مگر بازاری لہجے میں الزام تراشی کا جواب کیا دیتا۔ بیتے ہوئے ویران مہ و سال سے سیاستدانوں نے کیا سیکھا ہے؟ اسٹیبلشمنٹ کی مذمت یا اس کی جبیں سائی۔ اسٹیبلشمنٹ بے قصور نہیں۔ طاقت اس کی دوسروں سے زیادہ ہے۔ ان چیزوں میں وہ مداخلت کرتی ہے، جن سے کوئی واسطہ اس کا نہیں۔ سامنے کے اس اصول کو وہ نظرانداز کرتے ہیں کہ کسی معاشرے میں اقتدار کے دو مراکز نہیں ہوتے۔ اگر ہوں تو یکسوئی تمام ہوتی اور انتشار جنم لیتاہے۔ سقیفہ بنو سعدہ میں جب یہ تجویز پیش کی گئی کہ ایک امیر قریش اور دوسرا انصار سے چن لیا جائے تو اس جلیل القدر منتظم عمر ابن خطابؓ نے کہا تھا: اونٹ کی ناک میں دو نکیلیں نہیں پہنائی جا سکتیں۔ ہم اونٹ کی ناک میں دو نکیلیں پہنانے پر مصر ہیں۔ اپوزیشن کبھی کبھی بھڑک اٹھتی ہے۔ جنرلوں کو مورد الزام ٹھہراتی ہے۔ شب کی تاریکی میں، پھر اس کے قائدین کرام بارگاہ میں پیش ہوتے اور التجا کرتے ہیں۔ سیاسی یتیم، فکری یتیم، ذہنی غلام، غلام ابن غلام۔ وزیر اعظم وعظ فرماتے ہیں۔ اکیسویں صدی میں ریاست مدینہ کے قیام کا اعلان ۔ وہ جس کی جسارت عمر بن عبدالعزیز اور صلاح الدین ایوبی نہ کر سکے۔ عمر بن عبدالعزیز، بعض فقہا جن کے لیے رضی اللہ تعالیٰ لکھنا روا رکھتے ہیں۔ صلاح الدین ‘ صدیوں سے‘ مشرق تو کیا مغرب میں بھی جن پہ عظمت ٹوٹ ٹوٹ کر برس رہی ہے۔ باتیں اور بس باتیں، قول اور فقط قول، خطابت اور محض خطابت۔ اللہ کی آخری کتاب پوچھتی ہے:لما تقولون مالا تفعلون۔ تم وہ بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں۔ شیخ آئے جو محشر میں تو اعمال ندارد جس مال کے تاجر تھے وہی مال ندارد