اک دل بنا رہا ہوں میں دل کے مکین میں مشکل سے بات بنتی ہے مشکل زمین میں انسان اپنے آپ کو پہچانتا نہیں اک سانپ بولتا ہے سپیرے کی بین میں بات شروع کرنے سے پہلے ایک شاندار واقعہ سن لیجیے کہ ہمارے عبدالقوی بیگ صاحب باہر نکلے تو سامنے سے آتے ہوئے دوست نے توجہ دلائی کہ ان کے ہونٹوں سے خون لگا ہے‘ خیر تو ہے بیگ صاحب کہنے لگے یار تمہیں تو پتہ ہے کہ تمہاری بھابھی روزانہ چیختی تھی کہ میں دیر گئے گھر آتا ہوں۔ رات میں مشاعرے سے واپس آیا تو اس نے پھر چنگھاڑنا شروع کر دیا تو پھر میرا بھی ہاٹھ اٹھ گیا۔ دوست نے کہا بیگم! صاحب مگر خون تو آپ کے ہونٹوں پر جما ہے؟بیگ صاحب نے کہا لڑائی میں ایک آدھ میرے بھی لگ گئی اور دو دانت ٹوٹ گئے۔ پھر خود ہی ہنس کر بولے میں وہ دانت پہلے ہی نکلوانا چاہتا تھا میرے معزز قارئین یہ لطیفے بہت عجیب ہوتے ہیں۔بہرحال ہم اپنے موضوع پر آتے ہیں کہ نیب نے مریم نواز کی پیشی موقوف کر دی: بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا جو چیرا تو اک قطرۂ خون نہ نکلا میں مریم نواز اور اس کی حمایت کرنے والوں کو حق بجانب نہیں سمجھتا مگر ان کے دلائل کو رد کرنا بھی آسان نہیں۔حیرت تو ہوئی کہ شیخ رشید کی تقریر بھی کسی کو حوصلہ نہ دے سکی کہ وہ پی ڈی ایم کی سیاست کو بھی روزانہ دفن کرتے ہیں۔ایک لمحے کے لئے آپ ہی بتائیے اتنا ہائپ کری ایٹ کرنے کے بعد ایک میل اور پھرتین میل تک کے ایریا کو ریڈ زون بنانے کے بعد اور قرنطینہ میں ہنگامی اجلاس کرنے کے بعد اس سے بھی آگے پورے پنجاب کی پولیس کو ہلا جلا کر نڈھال کرنے کے بعد اس قدر کیوں ڈر گئے ۔خیر یہاں تو عدلیہ نے بھی کہہ دیا کہ اپنی آپ ہی نبیڑیے اور عدلیہ کو سیاست میں مت گھسیٹیں ویسے رینجرز بھی انہیں مل گئی تھی یہ بات تو کسی حد تک درست ہے کورونا کو بہانہ بنا لیا جاتا مگر کچھ حکومتی دانشور کہتے ہیں کہ یہ ایک چال تھی پی ڈی ایم کی انوسٹمنٹ کروا کے ڈرامے کا سیٹ اٹھا لیا گیا گویا آپ ڈرامے کرنے آئے ہیں: کسی کے آنے سے ساقی کے ایسے ہوش اڑے شراب سیخ پہ ڈالی کباب شیشے میں اب آپ بے شک عذر تراشتے رہیں۔ کورونا کا بہانہ بھی نہیں چلے گا ۔ حالانکہ یہ ساری اعصاب کی جنگ تھی۔ ڈر یقینا مریم یا مولانا فضل الرحمن کا نہیں بلکہ عوام کا ہے اگر عوام حکومت کے ساتھ ہوتے اگر حکومت نے انہیں اس حد تک مایوس نہ کیا ہوتا تو واقعتاً یہ چور ڈاکو اپنی موت مر چکے ہوتے۔ اب جبکہ ایک عام گلی محلے والا بھی جانتا ہے کہ حکومت قرضے پر قرضے لیتی جا رہی ہے اور دوسری طرف عوام کو لیموں کی نچوڑ رہی ہے ۔ مجھے سعید ملک پوچھنے لگے کہ جناب !کہیں قرضوں کے ساتھ مشروط ایٹمی رول بیک تو نہیں؟ایک ڈرائونا خواب میں جاگتے میں دیکھنے لگا۔ واقعتاً ہمیں معاشی اور اقتصادی طور پر تقریباً تباہ کر دیا گیا ہے۔ ہمارے نوجوان کا کوئی مستقبل نہیں۔ تعلیم کا تو میں ذکر نہیں کروں گا ۔ ایک بات جو ہمارے سید ارشاد احمد عارف صاحب نے بھی لکھی کہ مریم نے تو قبل از گرفتاری ضمانت بھی کروا لی تھی میں بہت احترام سے عرض کروں گا کہ حصول مقصد دیکھنا پڑے گا کہ ادھر تو سب کچھ مفادات اور اقتدار کے لئے کیا جا رہا ہے۔ جن بڑے لوگوں کا تذکرہ شاہ صاحب نے کیا ہے وہ نظریے اور بلند ادرشوں کی بات ہے یہاں تو یہی سیاست حکمت ہے کہ لیڈر کو بچایا جائے۔یہ سب کچھ بہت ہی تکلیف دہ ہے کہ لوگ مریم اور میاں نواز شریف کو جانتے ہیں مگر پھر بھی ساتھ کیوں ہیں۔خان اس کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ وہ اپنے ایک دو چہیتوں کو ہی احتساب میں لے آتے تو لوگ کچھ اور طرح سوچتے کاش وہ قتیل شفائی کا شعر ہی پڑھ دیا کریں: وہ میرا دوست ہے سارے جہاں کو ہے معلوم دعا کرے وہ کسی سے تو شرم آئے مجھے آپ اپنی ادائوں پر کیوں غور نہیں کرتے’’جو چال ہم چلے وہ نہایت بری چلے۔ آپ بلدیاتی اداروں کے بارے میں ہی سنجیدگی سے غور کر لیں کہ عدالت آپ کو کب سے تنبیہ کر رہی تھی کہ اپنے رویے پر غور کریں آخر وہی ہوا جس کا آپ کو ڈر تھا کہ آخر چیف جسٹس نے بلدیاتی ادارے بحال کر دیے ۔واقعتاً یہ کیسی مجرمانہ بات تھی کہ بیک جنبس قلم 5سال کے لئے منتخب نمائندوں کو گھر بٹھا دیا۔ ایک نوٹیفکیشن اور بس وہی جو ہم Browingکی نظم میں پڑھتے ہیں سب کی مسکراہٹیں چھین لیں آئین اور عدالت کیسے چپ رہے۔ دو سال مگر برباد ہوئے۔ویسے بھی بلدیاتی الیکشنز میں ہزاروں لوگوں نے اخراجات کئے اور عوام نے انہیں منتخب کیا۔ تم قتل کرو کہ کرامات کرو ہو۔ جناب ہم آپ کے دشمن نہیں بلکہ آپ کی بے حد سپورٹ ہم نے کی کہ ہم بھی نیا پاکستان بنانے والوں کے ساتھ کھڑے تھے اور دھڑلے سے اس کا اعتراف کرتے ہیں مگرلوگوں کے طعنے سنتے ہیں بلکہ خود ہم اپنے آپ کو کوستے ہیں کہ کن چھاتہ برداروں اوردرآمدہ لوگوں کے ہاتھوں میں ہم یرغمال بن گئے ۔اگر ہم سچ نہیں لکھیں گے تو ہمیشہ کے لئے اپنے ضمیر اور عوام کے مجرم ٹھہریں گے: روئوں میں اپنے دل کو کہ پیٹوں جگر کو میں مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوح گر کو میں ایک براڈ شیٹ ہے اور اس کے کاغذات غائب کر دیے گئے ہیں۔ دنیاہم پر ہنستی ہے کہ کوئی اور ہی شخص 15لاکھ ڈالر لے گیا۔ سبحان اللہ۔ایسا تو کوئی بھی نہیں کرتا۔ مال مفت دل بے رحم۔ ہائے ہائے یہ بربادی۔بہت کچھ لکھنے کے لئے ہے مگر کتنا لکھا جا سکتا ہے؟غالب نے کہا تھا: نہ ہم سمجھے نہ تم آتے کہیں سے پسینہ پونچھئے اپنی جبیں سے