ہجر اور ہجر کا دْکھ، اور ہجر میں چلے جانے والوں کا رنج روح کے رْوئیں رْوئیں میں بس جاتا ہے۔ انتظار آنکھوں میں ٹھر سا جاتا ہے۔ پرانی یادیں کبھی محبتوں اور کبھی نفرتوں کی شکل میں یاد آتی ہیں۔ دن بہت پْر آشوب اور قیامت صغریٰ سے کم نہیں تھے۔ سرحد کے دونوں طرف اِس پار اور اْس پار لوٹ کھسوٹ زوروں پر تھی۔ ایک طرف آزادی اور امید کی کرنیں تھیں تو دوسری طرف برطانیہ کی حکومت کا عظیم الشان تاج زوال پذیر ہو رہا تھا۔ اگست کے اس رطوبت بھرے مہینے میں لاکھوں مسلمانوں اور ہندوؤں نے اپنے گھر بار آباؤ اجداد کی قبریں چھوڑ کر ہجرت کی۔ ان فسادات کی وجہ سے انسانی فطرت تیزی سے پینترے بدلتی رہی۔ دونوں طر ف کے لوگ اپنے اپنے گھروں میں سہمے سہمے بیٹھے رہتے۔ لوگ ریڈیو لگائے فسادات کی خوف ناک خبروں پر تبصرہ سنتے اور آپس میں باتیں کرتے کرتے راتوں کے ڈھلنے کا انتظار کرتے۔ بے قراری اور اپنوں کی فکر سب کو ستاتی۔ پنجاب کے لوگ کہا کرتے تھے کہ پنجاب میں بٹوارے کی آگ لگی تو آسانی سے نہیں بجھے گی بلکہ بہت سے بے گناہ لوگوں کو بھسم کردے گی۔ لاہور اور دلی والے بھی خوف کے مارے ان شہروں کو خون سے لال ہوتے دیکھ رہے تھے۔ہجرت سے جڑی کہانیوں کے سلسلے میں ہم نے مختلف لوگوں سے پوچھا: سب سے پہلے 90برس کی ایک ضعیف خاتون نور جہاں بتاتی ہیں کہ وہ ہندوستان کے شہر بنارس سے ہجرت کرکے حیدر آباد پاکستان پہنچیں۔ بنارس ہندوؤں کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ایک مقدس شہر ہے۔ وہاں ہندوؤں نے وہ غدر مچایا کہ مسلمانوں کے گھروں کو آگ لگائی اور مسلمانوں کو زندہ جلا دیا۔ وہاں کئی مسلمان بوڑھوں کو زندہ دفن کر دیتے تھے۔ بچوں کو قتل کر دیتے۔ نور جہاں کے گھرانے والے اسی بھاگ دوڑ میں بچھڑ گئے۔ خوف کی اسی کیفیت میں وہ اپنی جانیں بچاتے ہوئے اچانک ہی مال گاڑی میں پھر مل گئے۔ ڈھائی دن کا سفر کر کے حیدر آباد پہنچے۔ بالکل لْٹے پْٹے، بھوکے پیاسے لیکن آنکھوں سے خوشی کے آنسو بہے جا رہے تھے۔ اپنا وطن اور اپنے گھر کی امید زندگی میں بارش کے پہلے قطرے کی طرح تھی۔ پاکستان ٹائمز اور دن اخبار کے کارٹونسٹ محمود بٹ صاحب سے ہمارے گھریلو مراسم تھے۔ وہ بتاتے تھے کہ میرے خاندان کے نو لوگوں کے خون کی اینٹیں اس ملک کی بنیادوں میں لگی ہیں۔ محمود بٹ صاحب اس وقت نویں جماعت میں پڑھتے تھے۔ وہ لوگ امرتسر سے لاہور آئے تھے۔ کہتے تھے کہ اپنا محلہ اور یار دوست چھوڑنا آسان نہیں ہوتا۔ غدر کے دنوں میں انسان ہی انسان کے خون کا پیاسا ہو گیا تھا۔ ان دنوں انسانیت نے جیسے شیطانیت کا لبادہ اوڑھ لیا تھا۔ بلوائی حاملہ عوتوں کے پیٹوں کو چیر کر بچوں کو نکال کر نیزوں پر اْچھالتے۔ عورتوں کی چھاتیاں کاٹ دیتے۔ بہت سے مسلمانوں نے خود ہی اپنی بیٹیوں کو چْھرے گھونپ دئیے کہ ہندو انہیں اْٹھا نہ لے جائیں۔ بھائی بھائیوں سے بچھر گئے۔ بہنیں بہنوں سے جْدا ہو گئیں۔ حتیٰ کہ دین دھرم بھی ڈنڈے کے زور پر تبدیل ہو گئے۔ محمود بٹ صاحب بتاتے تھے کہ تقسیم سے پہلے کا زمانہ بہت اچھا تھا۔ غدر سے پہلے مسلمان، ہندو، سکھ سبھی ایک لڑی میں پروئی مالا کی طرح رہتے تھے۔ تقریباًہر گھر میں ڈھورڈنگر ہوتے تھے۔ اس زمانے میں کوئی دودھ نہیں بیچتا تھا۔ جس گھر میں گائے بھینس نہیں تھی انہیں دودھ مفت مہیا کیا جاتا تھا۔ پھر اچانک فسادات کے بھونچال سے ہر طرف جلتے ہوئے گھر خوف سے بھری خون میں لپٹی انسانوں کی چیخیں زندگی میں شامل ہو گئیں۔ لگتا تھا نفرتوں کا یہ طوفان تھم جائے گا پھر سے امن ہو جائے گا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ میری بیٹی کی سہیلی کی نانی ان دنوں ننکانہ صاحب رہتی تھیں۔ انہوں نے بتایا ان کی بچپن کی سہیلی کوشلیہ تھی جو راتوں رات ہی ہندوستان چلی گئی۔ مجھے اس کی بے انتہا یاد آتی ہے۔ ہم بچپن میں اکھٹے کھیلتے تھے۔ سکھ بلوائی خوب صورت کم عمر لڑکیاں اٹھا کر لے جاتے ان کے ہاتھوں میں برچھیاں ہوتی تھیں۔ لوگ خوف سے بْھوسے کے ڈھیروں میں چْھپ جاتے۔ جب سکھ یہاں سے چلے گئے تو لوگوں نے خوب لوٹ مار مچائی۔یہاں سے ہجرت کرنے والے سکھ گھرانوں کو مسلمان اپنے گھیرے میں لے کر بارڈر تک چھوڑ کے آتے کہ انہیں کوئی نقصان نہ پہنچے۔ سکھوں کے جانے کے بعد مہاجر آگئے جو نجانے زمین میں کیا ڈھونڈتے رہتے۔ شاید اپنی تقدیر تلاش کر رہے تھے۔ وہاں سے آنے والے مہاجر کہتے تھے: اسی تے چھڈ کے آئے محل مناریاں تے ایتھے لبھے سانوں حقے تے کنالیاں انہوں نے مزید بتایا کہ اْس پار پنجاب کے ایک گاؤں سے آئے کنبے والوں کی ایک لڑکی تقسیم کے دنوں میں کھو گئی۔ اس کی ماں کئی سال اپنی لڑکی کو ڈھونڈنے انڈیا جاتی رہی مگر وہ نہ ملی۔ اس کی یاد میں رَو رَو کے اس کی آنکھیں اندھی ہو گئیں۔ 72سال گزر جانے کے بعد اس 12سالہ لڑکی کا پتہ کینیڈا سے چلا۔ غدر کے دنوں میں اسے ایک سکھ نے اغوا کرکے اس سے شادی کر لی۔ وہ 30 برس کا تھا اور وہ بچی 12 برس کی۔ اس نے اس کا دھرم بھی بدلوا دیا۔ جب اس کی بڑی بہن نے ملنے کے لیے کینیڈا جانے کے کاغذات بنوا لیے تو وہ وہیں مر گئی اور یوں یہ جدائی عْمروں کی جدائی بن گئی۔ ہجرت کی یہ کہانیاں غم کی چادر میں دْکھ کے دھاگوں سے سلی پڑی ہیں۔ کوئی آج بھی اپنوں کے جانے کے غم میں چْور ہے تو کوئی زندگی بھر کی کمائی کے لْٹ جانے پر آزردہ ہے۔ جانے کتنی ہی عورتوں اور بچیوں کے ساتھ زیادتیوں کی خبریں آیا کرتی تھیں۔ ہجرت سے آتی ہوئی سست رفتار ریل گاڑیوں سے اندھیرے میں ڈوبا باہر کا منظر ہیبت ناک ہوتا تھا۔ پٹریوں کے دونوں طرف جیسے قبروں کے نہ ختم ہونے والے ڈھیر لگے ہوئے تھے۔ آج دو ملک بن جانے کے بعد بھی دونوں سرحدوں کے درمیان کھینچی خونی لکیر کو پرانی آپس داریاں بھی نہ ختم کر سکیں۔