محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی خودنوشت’’داستان عزم‘‘ چند روز قبل ملی‘ علامہ عبدالستار عاصم‘ قلم فائونڈیشن انٹرنیشنل کی شائع کردہ ہر کتاب محبت اور اہتمام سے ارسال کرتے ہیں اور ’’نیکی کر دریا میں ڈال‘‘ کے مصداق کتاب بھیج کر بھول جاتے ہیں‘ تبصرہ کرنے کا تقاضہ نہ خبر شائع کرنے کی فرمائش۔’’داستان عزم‘‘یوں تو پوری کی پوری قابل مطالعہ ہے مگر جہاں جہاں ڈاکٹر صاحب نے اپنے علاوہ اپنے رفقا کار کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا ذکر کیا ہے وہ صفحات پڑھ کر قاری سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ بحیثیت قوم آخر ہماری تخلیق میں کیا خرابی ہے کہ ہمارے فیصلہ سازوں کے شر سے ملک و قوم کے محسن بھی محفوظ نہیں رہتے‘کہیں حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے ہمارے ماضی اور حال کے فیصلہ سازوں کے بارے میں ہی تو نہیں فرمایا تھا کہ ’’جس پر احسان کرو اس کے شر سے بچو‘‘ ڈاکٹر صاحب داستان عزم میں لکھتے ہیں: ’’جب آپریشن اور ہسپتال کا ذکر آیا تو پرویز مشرف کے حواریوں کی سختیوں اور پابندیوں کا ایک اور واقعہ یاد آ گیا۔میں آپریشن کے بعد ہسپتال میں تھا۔سینیٹر پروفیسر خورشید احمد نے اسلام آباد میں قائم مقام صدر جناب محمد میاں سومرو سے مجھ سے ملنے کی اجازت مانگی۔انہوں نے ڈی جی ایس پی ڈی سے پوچھ کر اور تصدیق کر کے کہ وہ مل سکتے ہیں‘پروفیسر خورشید کو بتا دیا۔خورشید بھائی نے 10بجے اسلام آباد سے فلائٹ لی اور ایئر پورٹ سے سیدھے ہسپتال پہنچے کہ میری عیادت کر سکیں تو ایک احسان فراموش سکیورٹی آفیسر نے جس پر رحم کھا کر میں نے ریٹائرمنٹ کے بعد نوکری دی تھی میںنے ان کو ڈھائی گھنٹہ نیچے ہال میں بٹھائے رکھا اور ملنے نہیں دیا اور سخت مایوسی اور بے بسی کے عالم میں چار بجے کی فلائٹ سے واپس اسلام آباد چلے گئے۔مجھ پر پہرا دینے والے سکیورٹی آفیسر نے صدر پاکستان کے کہنے پر ڈائریکٹر جنرل ایس پی ڈی کی طرف سے دی گئی اجازت کو بھی نظر انداز کر دیا۔تقریباً چار ہفتہ میں وہاں رہا‘ طبیعت خراب رہی‘آغا خان ہسپتال کے ڈاکٹر فرحت عباس چیک کرتے رہتے تھے اور نہایت ماہر فزیوتھراپسٹ محمد عطاء میری فزیو تھراپی کرتے تھے۔ان کے ساتھی جاوید خان اور بابر اسلام مجھے نہلاتے اور لباس وغیرہ تبدیل کرانے آتے تھے۔ان سب کا میں تہہ دل سے شکر گزار ہوں۔تقریباً پانچ ہفتہ کراچی میں قیام کے بعد مجھے ایک نہایت چھوٹے سے جہاز میں کئی گھنٹے سفر کے بعد اسلام آباد لا کر گھر میں پھر نظر بند کر دیا گیا۔اس چھوٹے سے جہاز میں طویل عرصہ بیٹھنے سے میری بائیں ٹانگ میں تقریباً دس انچ لمبا خون کا کلاٹ بن گیا‘ بے حد تکلیف ہوئی۔ہمارے کے آر ایل کے ماہر ڈاکٹر سلیم قریشی نے بہت اچھے علاج سے اس کو مزید آگے بڑھنے سے روک دیا ۔کئی سال گزارنے کے بعد آج بھی مجھے اس ٹانگ میں سخت تکلیف ہے۔‘‘ ’’اپنے ساتھیوں کا ذکر کرتے ہوئے یہاں ایک تکلیف دہ بات میرے ذہن میں آئی کہ پرویز مشرف نے میرے خلاف پابندیوں کا بلا جواز اور ناروا سلوک قائم کر رکھاتھا تاحال اس کا تسلسل جاری ہے اور اس حوالے سے یہ واقعہ جس کا میں اب تذکرہ کرنے لگا ہوں میری اس بات کی تصدیق کرے گا۔‘‘ ’’جنرل راحیل شریف جب آرمی چیف تھے‘‘ ان کی والدہ محترمہ کا انتقال ہوا تو میرے دوست جناب شوکت ورک جو ہمارے فلاحی ہسپتال ڈاکٹر اے کیو خان ہسپتال ٹرسٹ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہیں۔لاہور میں آرمی چیف کے پاس تعزیت کرنے گئے وہاں کراچی کے ممتاز صنعت کار اور میرے دوست بشیر جان محمد بھی موجود تھے۔ورک بھائی نے میری جانب سے بھی چیف کو تعزیت کا پیغام دیا تو انہوں نے پوچھا کہ کیا ڈاکٹر خان لاہور میں ہی ہیں؟ورک بھائی نے بتایا کہ وہ اسلام آباد میں ہیں تو جنرل راحیل شریف نے بریگیڈیئر اظہر صالح عباسی کو کہا کہ جب میں والدہ محترمہ کی تعزیت کے لئے آرمی ہائوس راولپنڈی میں دوست احباب سے ملوں گا تو اس دن آپ ان سے رابطہ کر کے وقت اور دن انہیں بتا دیجیے گا تاکہ وہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو مطلع کر سکیں۔پھر کچھ بعد بریگیڈیئر اظہر صالح عباسی کا پیغام آیا ۔انہوں نے بتایا کہ آرمی چیف جمعرات کو ڈھائی بجے سے ساڑھے پانچ بجے تک مہمانوں سے ملیں گے۔ورک صاحب اور کرنل ریٹائرڈ انوار الحق لاہور سے راولپنڈی آ گئے اور میں نے اپنے سکیورٹی انچارج کرنل جاوید جدون کو مطلع کر دیا کہ تین بجے تعزیت کے لئے آرمی چیف کے پاس آرمی ہائوس جائیں گے۔شوکت ورک اور کرنل انوار الحق آرمی ہائوس پہنچ کر جنرل راحیل شریف سے ملے انہوں نے ان سے پوچھا کہ ڈاکٹر صاحب کہاں ہیں؟ورک نے بھولے پن سے کہہ دیا کہ وہ راستے میں ہیں۔جبکہ میں یہاں اپنے سکیورٹی آفیسر کرنل جاوید جدون سے کہہ کہہ کر تھک گیا مگر ان کا جواب ملا کہ کلیرنس نہیں ہے۔میں تیار ہو کر ڈھائی بجے سے چار بجے تک بیٹھا رہا۔میں نے تو صرف اس دکھ کی گھڑی میں آرمی چیف سے افسوس کرنے جانا تھا لیکن مجھے اس سے بھی محروم کر دیا گیا حالانکہ اسلامی تعلیمات کے مطابق یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جو دکھ اور درد سے مامور ہوتا ہے مگر مجھے اس کے لئے بھی نہیں جانے دیا گیا۔بہرحال مجھے اس ملک کو ایٹمی اور میزائل قوت بنانے کا یہ صلہ مل رہا ہے۔امریکی صدر بارک اوبامہ اور سیکرٹری خارجہ نے دو کوڑی کے قاتل ریمنڈ ڈیوس کے لئے ہمارے حکمرانوں کی نیندیں حرام کر دیں اور اس کو مکھن سے بال کی طرح نکال کر لے گئے جبکہ حکمران فوج کو مضبوط اور ملک کو بچانے والے کے ساتھ یہ شرمناک سلوک کرتے ہیں۔یہ ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔‘‘ ’’پرویز مشرف کی غلط حرکتوں کے باعث نہ صرف ہمیں سخت تکالیف اٹھانا پڑیں بلکہ وہ تمام دوست اور ہمدرد و مددگار بھی مغربی جابروں کے سخت عتاب کا شکار رہے۔طاہر بخاری اور اس کے انجینئر بھائی سعید کو سخت تکالیف کا سامنا کرنا پڑا۔سعید کو دبئی میں کافی عرصہ بند رکھا گیا اور طاہر بخاری کو ملائشیا میں۔ان کی کمپنی پر قبضہ کر لیا گیا اور تمام فنڈز ضبط کر لئے گئے۔طاہر بخاری نے بعد میں ایک دوست کی معرفت پیغام بھیجا کہ امریکیوں نے اور ان کے ساتھ پرویز مشرف کے حواریوں نے اس سے بہت پوچھ گچھ کی اور بعد میں دو بیانات ٹائپ کر کے لائے اور نیچے جگہ بتا کر کہا کہ یہاں دستخط کر دو۔ جب اس نے ہچکچاہٹ کا اظہار کیا اور کہا کہ وہ اسے پڑھنا چاہتا ہے تو اس کو دھمکی دی گئی کہ دستخط کر دو ورنہ یہاں سے جہاز میں بٹھا کر امریکہ بھیج دیے جائو گے۔اس کی بیگم اور تین چھوٹے چھوٹے بچے تھے اس نے مجبوراً ان کاغذات پر دستخط کر دیے۔ظفر اللہ جمالی جب وزیر اعظم تھے تو پرویز مشرف نے بھی انہیں کہا تھا کہ کابینہ کے ذریعہ اجازت لے کر مجھے (یعنی عبدالقدیر خان) امریکہ کے حوالے کر دو مگر ظفر اللہ جمالی کی بہادری‘حب الوطنی‘ آڑے آئی اور انہوں نے صاف انکار کر دیا۔نتیجہ میں انہیں وزارت عظمیٰ سے ہاتھ دھونا پڑا۔ظفر اللہ جمالی نے خود ٹی وی پر تجزیہ نگار مظہر عباس کو یہ حقیقت بتائی تھی۔ادھر ملک میں یہ تاثر دیا جاتا رہا ہے کہ مجھے امریکیوں سے بچانے کے لئے قید میں رکھا گیا ہے۔‘‘