وزیر اعظم عمران خان کمالِ مہربانی سے عوام کو سیاسی بحث میں لے آئے ہیں جو انکے بقول اشرافیہ کے ظلم وجور کی چکی میں پچھلے چوہتر سال سے پِس رہی ہے۔ بات انہوں نے ٹھیک کی ہے لیکن اگر انکے مخالفین اس الزام سے بری ہونا چاہیں تو وہ اصرار کرسکتے ہیں، جو کہ وہ واقعتاً کرتے ہیں،کہ اشرافیہ اپنی سیاسی جدوجہد سے عوام کو اس مقام پر لے آئے ہیں جہاں ریاستی ادارے انہیں اندھا دھند نہیں روند سکتے۔ آئین ، جمہوریت اور صوبائی خود مختاری اور آزاد عدلیہ کی موجودگی میں وہ بہتر مستقبل کی امید کرسکتے ہیں ۔ انہیں لوگوں کی بھلائی اور فائدے کے لیے اشرافیہ نے اپنا مال و ز ر کیا اپنی جانوں تک کی قربانی دی ہے۔ جیلیں ، لاٹھیاں ، ڈنڈے اور دھماکے بھگتے ہیں تب ہی وہ کسی گنتی میں آئے ہیں کہ آج ووٹ دے سکتے ہیں ، ترقی کے عمل میں ان کا حصہ مثالی نہ سہی لیکن مایوس کن بھی نہیں ۔ملک میں جمہوریت اور صوبائی خود مختاری ہے تو وسائل کا رخ بھی ان کی طرف ہو رہا ہے۔ ترقی کے ثمرات دور دراز بستیوں اور گوٹھوں تک پہنچ رہے ہیں۔ سڑکیں ، سکول ، ہسپتال موجود ہیں۔ اگر کوئی زیادہ ترقی کرنا چاہتا ہے تو سفر ی سہولتیں موجود ہیں۔ ملک ہی نہیں پوری دنیا کے دروازے اس پر کھلے ہیں۔ جہاں تک بات ہے بنیادی انسانی حقوق کی تو اشرافیائی سیاسی پارٹیاں ارتقائی فلسفے کی قائل ہیں۔ یعنی، ہورہے گا کچھ نہ کچھ، گھبرائیں کیا۔ یہ بات بالکل صحیح ہے کہ سیاسی پارٹیوں پر قابض جاگیرداروں ، سرمایہ داروں ، قبائلی عمائدین اور گدی نشین بنیادی حقوق کے معاملے میں کامیاب نہیں ہوپا رہے۔ بنیادی حقوق آئین کے فعال ہونے سے ہی لاگو ہو سکتے ہیں لیکن جن سیاسی پارٹیوں اور طبقات کے ہاتھ میں اسکی باگ ڈور رہی ہے ان کی ذہنیت ہی ایسی تھی کہ انہوں نے اس معاملے پر نہ صرف واضح پیش رفت نہیں کی۔ اگرچہ اشرافیائی سیاسی پارٹیاں اپنے منشور اور آئین کا ذکر کرتی ہیں اور اپنے قائدین کے ملکی اور بین الاقوامی فورم پر کی گئی تقریروں اور پرجوش خطابات کا حوالہ دے کر کہہ سکتی ہیں کہ بنیادی حقوق، جس میں افراد کی تحقیر کی ممانعت بھی شامل ہے، پر کوئی اختلاف رائے ہر گز نہیں۔ لیکن کیا وہ حکومت کی مساوات اور عدل کے حصول کے لیے کی گئی کوششوں کا ساتھ بھی دیتی ہیں ، یہ معاملہ سیاست بازی کے نظر ہوجاتا ہے۔ یعنی ایسا کام جس میں سیاست اپنے وجود کی تعبیر پاتی ہے وہی انجام نہ دے سکے تو معاملہ آگے کیسے بڑھے گا؟ کیا وجہ ہے کہ وفاقی اور صوبائی آئین ساز اداروں کے انتخابات وقت پر ہوتے ہیں لیکن مقامی حکومتیں نہ تو آئین کی روح کے مطابق سیاسی خودمختار ی اور وسائل حاصل کر پائی ہیں اور نہ ہی انکے انتخابات کی کسی کو فکر ہے۔ جمہوریت کی بقا کا تقاضا ہے کہ سیاسی پارٹیاں بنیادی حقوق کے معاملے میں مسابقت کا ماحول پیدا کریں ۔ یہ جمہوریت ہی ہے جس کے طفیل انتخابات ہوتے ہیں ، ووٹ پڑتے ہیں اور سیاسی پارٹیوں کو حقِ حکومت ملتا ہے ۔ لیکن یہاں تو صورتحال یہ ہے کہ شہریت ، جو مساوات کے تصور کی ایک آئینی شکل ہے ، اسے ہی حیلے بہانوں سے پامال کردیا گیا ہے۔ شہریت کو مذہبی تناظر میں دیکھا گیا تو فرقہ واریت در آئی ، اٹھارویں ترمیم کے بعد نسل و زبان کی دراڑ بھی ڈال دی گئی ہے۔ حب الوطنی کا معیار مذہب اور زبان کو بنانے سے نہ صرف ریاست کے جدید تصور بلکہ پورے عالمی نظام کی بنیادیں ہل جاتی ہیں۔ریاست نے اگر عدل کے تقاضوں پر چلنا ہے اور معاشرے میں عدم توازن اور انتشار کے حالات ازخود پیدا نہیں کرنے تو وہ تمام معاشرتی گرہوں کی آزادی تقریر و تحریر کا نہ صرف احترام لازمی بناتی ہے بلکہ وہ تمام عملی اقدامات بھی اس پر لازمی ہیں جن سے شد پسندی ، یعنی فتنے ، کا تدارک ہوسکے۔ اب حالات یہ ہیں کہ اشرافیہ تو آئین اٹھا کر اس کا حوالہ دے دیتی ہے کہ ہر پاکستانی کو اپنے رسوم و رواج ، عبادات اور کاروبار کی آزادی ہے۔ ان آزادیوں کے تحفظ کے لیے نہ صرف عدالتیں بلکہ میڈیا بھی موجود ہے۔ لیکن ایک ہی مزاج اور طبیعت کی قیادت ہر سیاسی پارٹی میں گھسی بیٹھی ہو اور جس کسی کو بھی اقتدار ملے وہ بنیادی حقوق پر نئے سے نیا ستم کرڈالے اور بات چوری سے نکل کر ڈاکہ زنی تک پہنچ جائے تو یہاں بات واقعی ذہنیت کی آجاتی ہے۔ تعلیم ، صحت و صفائی اور انصاف کے شعبے ہی پس ماندہ رکھے گئے ہیں۔ اس سلسلے میں کی گئی پیش رفت عمارتی ٹھیکوں اور سفارشی افراد کی بھرتی تک ہی محدود رہتی ہے۔ ایک قبائلی اور جاگیردارانہ معاشرے میں معاشرتی اونچ نیچ کا ہونا فطری ہے تو مساوات کا فروغ پائیدار ترقی اور انسانی اعشاریوں کی بہتری سے منسلک ہے۔ یوں طبقاتی مفادات اور ریاست کے فطری تقاضوں میں تنائو موجود ہے۔ اگر کوئی سیاسی پارٹی اس تناو کو ختم کرنا چاہتی ہے تو اسے اس کا عملی مظاہر کرنا ہوگا کیونکہ باتیں کرنے کے معاملے میں ہمارے ہاں مفکران عظام کی کمی ہرگز نہیں ہے۔ بنیادی حقوق وہ نقطہ ہے جہاں سیاسی پارٹیوں کا موقف اور ان کی سیاست کا رخ انہیں ایک دوسرے سے ممتاز کرتا ہے۔ کیا تحریک انصاف بنیادی حقوق کے معاملے میں اشرافیائی پارٹیوں سے مختلف ہے؟ اگر جواب ہاں میں ہے تو یہ ٹیکسوں کے نظام میں تبدیلی اور خود مختار مقامی حکومتوں کے قیام سے معاشرے میں حقیقی تبدیلی کا آغاز کرسکتی ہے۔ عدل کا تقاضہ ہے کہ جن لوگوں کو بنیادی حقوق پوری طرح حاصل نہیں ، ان سے ٹیکسوں کے معاملے میں رعایت ہی نہیں بلکہ سرے سے وصول ہی نہ کیے جائیں۔ اسی طرح بنیادی حقوق کی فراہمی کے لیے مقامی حکومتیں لازم ہیں۔ جیسا کہ آئین کہتا ہے ، نہ صرف وہ سیاسی طور پر بلکہ مالی طور پر بھی خود مختار ہوں۔ اگر یہ دو کام کرلیے جائیں تو نہ صرف مساوات کے تقاضے پورے ہونگے بلکہ جمہوریت کی بے چین روح کو بھی قرار آجائیگا۔