یہ غالبا 2000ء کی بات ہے میں اس وقت صحافت سے راہ فرار اختیار کرکے ایک پے کارڈ فون کمپنی میں بطور ڈپٹی ایڈمن منیجر ملازمت کررہا تھا بلوچ کالونی کراچی میں واقع دفتر میں میرے ذمہ ّآگ بگولہ صارفین پر ٹھنڈا پانی بھی ڈالنا تھا ان دنوں موبائل فونزاتنے عام نہیں تھے اور پبلک کال آفس کا کاروبار زوروں پر تھا دفتر میں ہر روز درجنوں لوگ فون لگوانے آتے تھے اور اتنے ہی وہ آگ بگولہ بھیِ ،جو رجسٹریشن کروانے اور رقم کی ادائیگی کے بعد بھی پی سی او کی نعمت سے محروم تھے ان ہی دنوں ایک صاحب میرے سامنے آکر بیٹھ گئے میں سمجھا کہ یہ بھی اپنا کوئی دکھڑا لے کر آئیں ہوں گے لیکن وہ ہمیں دکھی کرنے آئے تھے، انہوںنے اپناتعارف میٹر انسپکٹر کے طور پر کرایا،ان دنوں کراچی الیکڑک سپلائی کارپوریشن ’’کے الیکڑک‘‘ نہیں بنی تھی، میں نے ان صاحب سے چائے ناشتے کا پوچھا ،انہوں نے منع کر دیا اور سیدھا مطلب پر آتے ہوئے کہنے لگے کہ آپ کے دو میٹر خراب ہیں وہ تبدیل کرانے ہوں گے،میں نے عرض کیا جناب ! بڑی مہربانی آپ مالک ہو ہمارا کیا ہے، میٹر ٹھیک کرادیں یا نیا لگوا دیں، اس پر ان کے لبوں پر شیطانی سے مسکراہٹ رقص کرنے لگی کہنے لگے یہ اتناآسان نہیں ہے ،نیا میٹر لگے گا تو ساتھ میں لاکھوں کا جرمانہ بھی آئے گا، میںنے کہاجرمانہ کس بات کا جناب ،میٹر کی خرابی میں ہمارا کیا قصور ؟ اس پر انہوں نے اپنی شیطانی مسکراہٹ مزید شیطانی بناتے ہوئے کہا کہ کیا پتہ میٹر خراب ہوا ہے یا کیا گیا ہے، یہ تو ہماری لیبارٹری سے چیک ہوگا ، اگرمیٹر خود ہی خراب ہواہو تو بھی آپ کو دو سالوں کا اوسط بل تو دینا ہوگا ،کیوں کہ خراب میٹر آپکی بجلی کے استعمال کا صحیح طرح نہیں بتارہا تھا ،کیا پتہ آپ بجلی ڈیڑھ دو لاکھ روپوں کی استعمال کرتے ہوں لیکن میٹر کی خرابی کے باعث بل توپندرہ بیس ہزار کااوسط آرہا ہے آ پ کو کمپنی کانقصان تو بھرنا ہوگا ،انہوںنے مجھے پیشکش کی کہ میں اسے اتنے لاکھ روپے دے دوں ،تو میں میٹر بھی لگوا دوں گا اور سپلیمنٹری بل سے بھی بچالو ں گا ،میں نے انہیں چائے پلا کرروانہ کردیا اور وہ معنی خیز انداز میں سرہلاتے ہوئے چلے گئے ،اس میٹر انسپکٹر نے ہمیں ڈراڈرا کر نچوڑنے کی بہت کوشش کی ،ہم نے میٹر کا کیس انکوائری میں ڈال دیا تھا ،کچھ عرصے بعد وہ صاحب غائب ہو گئے اور ان کی جگہ ایک اور صاحب آگئے، وہ بڑے مناسب اور بھلے آدمی تھے، ہمارا نیا میٹر لگ گیا اوریہ قصہ ماضی کا حصہ بن گیا،تین چار ماہ بعد پہلے والے میٹر انسپکٹر صاحب اس حال میں سامنے آئے کہ سر سے بال غائب تھے انہوںنے آتے ہی بجلی کے بل منگوائے ،میں نے بل سامنے رکھ دیئے ،انہوںنے الٹ پلٹ کر بل چیک کئے اور مجھ سے پوچھا اس میٹر کا کیا ہوا جو خراب تھا، میںنے مسکراتے ہوئے کہا ’’نیا لگ گیا ‘‘ یہ سن کر انہیں پتنگے لگ گئے لیکن ظاہر ہے کیا کرتے وہ بڑبڑاتے ہوئے چلے گئے ان کے جانے کے بعد میں نے میٹر انسپکٹر عظیم کوفون کرکے بتایا توانہوںنے کہا کہ وہ دراصل حج پر چلے گئے تھے اور وہ مجھ سے بھی کافی لڑا ہے کہ وہ میرا شکارتھا ،تم نے میرے ہاتھ سے نکال دیا ،یہ سن کر میں حیران رہ گیا کہ یہ کون سا اور کیسا حج تھاجو ادائیگی کے بعد ہفتہ بھی قائم نہیں رہا ۔ایک بارکراچی کے ادارہ امراج قلب سے ایک صاحب نے فون کیا اور کہا کہ یہاں کوئی پرسان حال نہیں ہے ،مریض درد سے کراہتا رہتا ہے کوئی دیکھنے نہیں آتا، یہاں اسٹاف نے اندھیر مچارکھی ہے ،جب تک خاکروب کے ہاتھ پر دس روپے نہ رکھے جائیں اس وقت تک وہ مریض کے بستر کے نیچے سے جھاڑو تک نہیں لگاتا،اسی سے ملتی جلتی شکائت جناح اسپتال کے چوکیداروں سے موصول ہوئی، جو مٹھی گرم ہونے کے بعد ملاقات کے اوقات نظر انداز کر دیا کرتے تھے عدالتوں،تھانوں کا تو ذکر ہی کیا،یہاں تو اور بھی براحال ہے اگر آپ کا شناختی کارڈ گم ہوجائے اور آپ قانونی تقاضہ پورا کرنے کیلئے تھانے میں انداراج کرانے جائیں تویہ بنا کچھ لئے دیئے ممکن نہیں آپ ڈیوٹی افسر سے سوال کرنے کی ہمت کرلیں تووہ صاف کہتا تھا ،یہ کاغذ ،بال پین اور کاربن پیپر ہمیں سرکار سے نہیں ملتے آپ جیسے شہری تعاون نہیں کریں گے تو کیا ہم اپنی جیب سے لائیں گے ؟ ماریہ سلیم فیصل آباد کی نوجوان لکھاری ہیں ،تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں، ان کی ایک نصابی کتاب آکسفورڈ پرنٹنگ پریس نے شائع کی یہ اعزاز کی بات ہے انہیں خوش ہونا چاہئے وہ خوش بھی ہیں اور ساتھ ہی کتاب چوروں سے پریشان بھی ،انہوںنے مجھے بتایا کہ اسلام آباد کے اردو بازار میں میری کتاب گھٹیا کاغذ پر چھاپ چھاپ کر بیچی جارہی ہے، مجھے بتائیں کہ میں اسے ڈاکے پر کیا کروں ،میرے پاس ان کے اس سوال کا کوئی جواب نہ تھاکیوں کہ میں جانتا ہوں میں اتنا بااختیا ر نہیں کہ میری درخواست پر اسلام آباد پولیس کتب فروشوں کے گوداموں پر چھاپے مار کر اس کتاب کا سرقہ زدہ ایڈیشن برآمد کرے۔ مجھے یہ سارے واقعا ت نو دسمبر کے حوالے سے ’’چاچاگوگل ‘ ‘ کی یاد دہانی سے اک اک کرکے یاد آرہے ہیں بلکہ زیادہ درست جملہ یہ ہے کہ مجھے یہ سب یاد کرنے کی ضرورت نہیں کہ یہ سب میرے اورایسے ہی کئی بیسیوںواقعات آپ سب کے سامنے ہوں گے ،تلخ بدبودار سچ یہی ہے کہ ہم کرپشن کی دلدل میں اب گردن گردن تک دھنسی ہوئی قوم ہیںہم کتابیں چھوڑتے ہیں نہ سڑکیں شاہراہیں ،ہمارے شاعر ادیب لکھاری آئیڈیاز چرا لیتے ہیں، ہمارے یہاں کرپشن جون جولائی کے آموں کی طرح عام ہے ،اقوام متحدہ کے ایک ذیلی ادارے کے مطابق پاکستان میں540ارب روپے کی ٹیکس چوری ہوتی ہے ،کرپشن ایک ایسا حمام ہے، جس میں نیچے سے اوپر تک سب ہی ننگے ہیں اور یہ سب اس قدر ننگے ہیں کہ ان کے درمیان کوئی زیرجامہ والا بھی دکھائی نہیں دیتا ،سب سے خطرناک بات اس حمام میں ان لوگوں کی موجودگی ہے جنہیں ہم قیادت کے لئے چنتے ہیں اور یہی ہیں چونا لگارہے ہوتے ہیں ،ہمارا معاشرہ تنزلی کی چٹان سے لڑھکتا ہوا وہ پتھر ہے جو بس لڑھکے ہی جارہا ہے، ذلت کا اک سفر جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا، ایسے میں گوگل ہمیں نو دسمبر کی یاد دلا کر جھنجھوڑنے کی ناکام کوشش نہیں کررہا تو کیا کررہا ہے سرد دسمبر کا یہ دن بھی گزر جائے گاپیچھے کرپشن رہ جائے گی !