وزیراعظم عمران خان نے انسداد رشوت ستانی پنجاب کی کارکردگی پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے محکمہ کی کارکردگی بہتر بنانے کی ہدایت کی ہے۔ پاکستان کا شمار پہلے 50 بدعنوان ترین ممالک میں ہوتا ہے۔ سابق چیئرمین نیب فصیح بخاری بھی ملک میں روزانہ 12 ارب روپے کی کرپشن کا اعتراف کر چکے ہیں۔ ماضی کے حکمران کرپشن کے خاتمے کے لئے اقدامات کرنے کے حوالے سے مجرمانہ غفلت کے مرتکب پائے گئے۔حکمرانوں کی بدعنوانی کے خاتمے میں دلچسپی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اینٹی کرپشن پنجاب کو دانستہ طور پر غیرفعال رکھا گیا اور محکمہ میں ڈپٹی ڈائریکٹر کی کل چار اور اسسٹنٹ ڈائریکٹر کی 13 نشستوں میں سے بالترتیب 3 اور 11 نشستوں پر تقرری ہی نہ کی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ محکمہ میں 500 کے قریب انکوائریاں مختلف برانچوں میں زیر التوا پڑی رہیں۔ پنجاب کی بیوروکریسی کی اس حوالے سے چشم پوشی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ وزیراعظم نے پنجاب میں بدعنوانی کے خاتمے کے لئے پنجاب پولیس کے ایک آفیسر کو محکمہ کا سربراہ لگایا مگر وہ بھی محکمہ کی کارکردگی میں بہتری اور بدعنوانی کے انسداد کے لئے قابل قدر اقدامات نہ کر سکے یہاں تک کہ اب وزیراعظم کو خط لکھنا پڑاہے ۔ بہتر ہو گا۔ وزیراعلیٰ اور چیف سیکرٹری پنجاب صوبے میں بدعنوانی کے خاتمے کے لئے اقدامات کو یقینی بنائیں تاکہ وزیراعظم کا کرپشن فری پاکستان کا خواب پورا ہو سکے اور میرٹ اور شفافیت کو یقینی بنایا جا سکے۔