ان کی تحریر پڑھ کر بنا پیئے ہی نشہ آ جائے، یہ کم ہوتا ہے یہ معجزہ مگر آج ہوا ہے۔ میں جن سوالوں پر غور کر رہا تھا ان میں بعض کی طرف اشارے ملے ہیں۔ کالم کا عنوان ہے کہ کیمونسٹ ماسکو میں ریپ ناممکن تھا۔ اس کے بعد انہوں نے ماسکو کی شاموں کا نقشہ کھینچا ہے اور بتایا ہے کہ کمیونسٹ پارٹی کا رعب اور دبدبہ اتنا تھا کہ کوئی راہ چلتی خواتین کی طرف میلی نگاہ سے نہیں دیکھ سکتا تھا۔ یہ درست ہے کہ وہاں وہ آزادیاں نہ تھیں جو جمہوری ملکوں میں ہوتی ہیں۔ پھر اس بات کا بھی ذکر کیا کہ امریکہ جیسے جمہوری ملکوں کی جیلیں جنسی مجرموں سے بھری پڑی ہیں۔ اس سے ذہن کسی تھنک ٹینک کے اس تجزیے کی طرف جاتا ہے کہ جہاں سزائیں سخت ہیں۔ وہاں جنسی جرائم کم ہیں۔ یہ ساری بحث اس تناظر میں آتی ہے کہ موٹر وے کے حالیہ واقعات کے مجرموں کو سرعام پھانسی دی جائے یا انسانی حقوق کے مشہور زمانہ چمپئن رضا ربانی کی یہ بات مان لی جائے کہ سخت سزائیں جرائم کو ختم نہیں کرتیں۔ یورپ والوں نے پھانسی کی سزا ختم کر رکھی ہے اور اسے انسانیت کی تذلیل سمجھتے ہیں۔ ان کے خیال میں گویا موٹر وے کا واقعہ انسانیت کی چھوٹی یا کم تر توہین ہے۔ بہرحال امریکہ میں بعض ریاستوں میں موت کی سزا موجود ہے۔ وہ انسانیت کا اتنا احترام کرتے ہیں کہ تشدد کے لئے انہوں نے گوئٹے نامابے الگ سے بنا رکھا ہے۔ اسے گویا ایسے ملک کی سرحدوںسے باہر رکھ کر یہ سوچ لیا ہے کہ وہ اس ٹارچر سیل کی اذیت سے بری الذمہ ہیں۔ یہاں مرے سامنے یہ سوال پیدا ہو گیا کہ میں جبر کا نظام قبول کر کے یہ سب جرائم ختم کر دوں یا انسانی آزادیوں کا احترام کر کے رائج الوقت جمہوریت کو گلے لگائوں۔ میں اس سوال کو ایک نئی جہت سے آشنا کرتا ہوں۔ جب ایک بار عمران خاں نے ریاست مدینہ کے حوالے سے سکینڈے نیوین ممالک کو اسلامی فلاحی ریاست کے مترادف قرار دیا‘ تو میں نے لکھا تھا‘ بس کیجیے‘ بس یہیں رک جائیے۔ان ریاستوں میں تو وہ گناہ جائز ہیں جس کی سزا ہمارے ہاں سنگسار کرنا ہے‘ مگر اس معاشرے میں یہ سب کچھ چلتا ہے۔ اس لئے اس جدید فلاحی ریاست کا موازنہ ریاست مدینہ سے نہ کیجیے۔خوامخواہ خلط مبحث ہو گا۔ اس طرح اس وقت عرض کرتا ہوں کہ سٹالن کے ماسکو کے بجائے آپ اگر درہء عمرؓ کو یاد کریں اور اس ریاست کا تصور کریں جو دنیا کے ایک گوشے سے دوسرے گوشے تک پھیلی ہوئی تھی تو آپ کو پتہ چل جائے گا کہ ریاست کا رعب و دبدبہ کیا ہوتا ہے۔ ایک ایسی ریاست کا رعب و دبدبہ جہاں ایک بڑھیا کھڑی ہو کر پوچھ سکتی ہے کہ عمرؓ تم نے یہ کرتہ کہاں سے بنایا اور جہاں کا حکمران کہتا ہے کہ میں اس خوف سے کانپ جاتا ہوں کہ اگر فرات کے کنارے ایک کتا بھی بھوک سے مر گیا تو قیامت کے روز خدا کے حضور کیا جواب دوں گا اور اس حکمران کے رعب و دبدبہ کا یہ عالم ہے کہ وہ اس وقت دنیا کے سب سے بڑے سپہ سالار (خالد بن ولیدکو برطرف کرتا ہے تو کسی کی مجال نہیں ہوتی کہ اس کی حکم عدولی کرے۔ میں یہاں کوئی خطبہ نہیں دے رہا کہ سٹالن کے جبر کے بجائے ہم اگر سچ مچ ریاست مدینہ یا خلافت علیٰ منہاج النبوۃ سے استنباط کر کے آج کے عہد کے لئے کوئی نظام وضع کریں تو ایک ایسے معاشرے کی بنیاد رکھ سکتے ہیںجہا ں احتساب بھی ہو اور آزادی بھی۔ ویسے ایک نکتہ اور عرض کئے دیتا ہوں۔ اگر حکومت کے خوف سے وہاں ریب یا زنا بالجبر نہیں ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہاں جنسی عیاشیاں نہیں ہیں۔ میرے بعض جاننے والے روسی اور کمیونسٹ (شرقی) یورپ میں رہے ہیں، وہ بتاتے ہیں کہ وہاں جنس کس بھائو اور کس آسانی سے ملتی تھی۔ اس معاشرے میں شاید یہ گناہ نہیں تھا۔ اسی لئے اس معاشرے میں زنا کا مترادف کوئی لفظ ہے ہی نہیں۔ ریپ برا ہے تو اس فعل کی وجہ سے نہیں‘بلکہ اس لئے کہ اس میں جبر شامل ہے۔ انگریزی میں دوسرا لفظ Fornicationکا ہے یعنی زنا باالرضا۔ اس پر وہاں کوئی پابندی نہیں۔ میں فرانس کے نامور ادیب و فلسفی البر ٹ کامیو کا یہ فقرہ نقل کیا کرتا ہوں کہ بقول اس کے بیسوی صدی کے انسان کی تعریف یہ کی جائے گی کہ وہ اخبار پڑھتا تھا اور زنا باالرضا کرتا تھا۔ یعنی دونوں کام سطحی۔اخبار پڑھنا ،کتابیں پڑھنے کا مترادف تو نہیں ہو سکتا۔ انگریزی میں تیسرا لفظ adulteryکا ہے۔یعنی شادی شدہ افراد کے درمیان جنسی تعلقات۔یہ اگر برا ہے و اس لئے کہ غیر اخلاقی ہے‘ آپ نے معاہدہ توڑا‘ مگر اسے جرم نہیں سمجھتے۔اس حد تک کہ جب ترکی نے اس کے خلاف قانون پاس کرنا چاہا تو پورا مغرب چیخ اٹھا۔ ان دنوں ترکی کے یورپی یونین میں شمولیت کا چرچا تھا۔صاف کہہ دیا کہ ایسا ہوا تو ہم تمہیں اپنے کلب میں بالکل شامل نہیں کریں گے۔ مطلب یہ کہ مغرب کی آزادی میں یہ جنسی جرم کی آزادی ہے حتیٰ کہ امریکہ میں gay club.ہم جنس پرستی کے کلب بھی ہیں, وہاں یہ سب آزادیاں ہیں۔ مگر پھر بھی ان کی جیلیں جنسی جرائم کے مرتکب افراد سے کیوں بھری ہوئی ہیں۔ہمارے ہاں لوگ بہت واویلا کرتے ہیں کہ پاکستان میں گھٹن ہے‘اس لئے یہ جرائم ہوتے ہیں۔ آپ ذرا تجزیہ کر لیجیے اور سروے کرا لیجیے کہ مغرب کی آزادیوں میں یہ جرائم کیوں پھیلتے پھولتے ہیں او ان معاشروں میں کم کیوں ہوتے ہیں جہاں ریاست یا پارٹی بڑی کڑی نگرانی کرتی ہیں۔ اگر اس نکتے کو سمجھنا ہے تو ہمیں سٹالن کے جبر اور حضرت عمرؓ کے درّے کے فرق کو سمجھنا ہو گا۔ ایک نکتہ اس کالم نویس نے اور بیان کیا ہے کہ سٹالن میں انڈر گرائونڈ ٹرین کا جو کم ترین کرایہ مقرر کیا تھا اور ڈبل روٹی انڈوں وغیرہ کی جو قیمت طے کی تھی اس میں کبھی سر موفرق نہ آیا تھا۔ ہماری طرح نہیں کہ پوچھتے ہیں میٹرو پر یا اورنج ٹرین پر سبسڈی کیوں دیں اور گندم اور چینی کی قیمت صبح شام کیوں نہ بڑھیں۔ جو باتیں سیکھنے والی ہیں‘ وہ بھی سیکھتے نہیں اور اعتراض ہم فوراً ڈھونڈ لیتے ہیں۔ اشیائے خورونوش کی قیمتوں پر یورپ میں بھی خیال رکھا جاتا۔ ایک بار مجھے یاد ہے کہ برطانیہ میں ڈبل روٹی کی قیمت میں چند پینس کا اضافہ ہو گیا تھا تو برسر اقتدار پارٹی انتخاب ہار گئی تھی۔ ہم کہ فاضل گندم پیدا کرنے والا ملک تھے۔ روٹی کو عام آدمی کی پہنچ سے باہر کر رہے ہیں۔ اس وقت ہم نے یوکرین سے جو گندم منگوائی ہے وہ دو ہزار روپے من ہے۔ کیا خیال ہے آئندہ سیزن میں ہم گندم کی قیمت خرید 1400روپے من مقرر کر پائیں گے۔ ہمیں سچ مچ ریاست مدینہ قائم کرنے کی طرف قدم بڑھانا چاہیے اور یہ جان لینا چاہیے کہ ریاست مدینہ کا آج کوئی ماڈل دنیا میں نہیں ہے۔ ہم جن نظاموں کی شان میں رطب اللسان ہو جاتے ہیں۔ ان کی بنیادی خرابیوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ یاد رکھیے جو نظام اپنی روح میں بد ہو گا‘ اس میں دوچار اچھی باتیں ہو سکتی ہیں۔ مگر دراصل وہ خراب ہی ہو گا۔