سیدنا یوسف علیہ السلام جناب سیدنا یعقوب علیہ السلام کے فرزند ارجمند اور جناب سیدنا اسحاق بن سیدنا ابراہیم علیہما السلام کے پوتے ہیں۔سیدنا یعقوب علیہ السلام کے گیارہ بیٹے تھے اور جناب یوسف علیہ السلام سب سے زیادہ حسین و جمیل تھے ۔ آپ علیہ السلام اپنے والد گرامی کے زیادہ قریب اور محبوب تھے جس وجہ سے بھائی سیدنا یوسف علیہ السلام سے بہت حسد رکھتے تھے ۔بھائیوں نے جناب یوسف علیہ السلام سے چھٹکارا پانے کے لیے ان کو کنویں میں پھینک دیا،اللہ تعالیٰ نے آپ کو محفوظ رکھا اور وہاں سے ایک قافلہ والے آپ کو نکال کر مصر لے گئے اور عزیز مصر کے ہاتھوں بیچ دیا۔ عزیز مصر کی بیوی زلیخا آپ کے حسن پر فریفتہ ہوگئی۔زلیخا نے جناب یوسف علیہ السلام کو اپنے قریب کرنے اور برائی پر آمادہ کرنے کی بہت کوشش کی مگر ناکام رہی۔جناب یوسف علیہ السلام کے انکار کرنے پر زلیخا نے عزیز مصر کے سامنے ان پر تہمت لگائی اورآپ علیہ السلام کوجیل بھیجوا دیا۔سیدنا یوسف علیہ السلام کئی سال جیل میں رہے آخرکار آپ کی بے گناہی ثابت ہوگئی اورآپ علیہ السلام جیل سے رہا ہوئے اور عزیز مصر کے وزیر بن گئے ۔سیدنا یوسف علیہ السلام وزارت کے ساتھ ساتھ فریضہ نبوت بھی سر انجام دیتے رہے ۔عزیز مصر کے بعدآپ علیہ السلام نے مصر پر حکومت بھی کی۔ایک طویل عرصہ کے بعد آپ علیہ السلام کی اپنے بھائیوں اور والد سیدنا یعقوب علیہ السلام سے ملاقات ہوئی اور پھر سارے مل کر مصر میں رہنے لگ گئے ۔ قرآن مجید سورہ یوسف میں آپ علیہ السلام کے حالات زندگی تفصیل سے بیان ہوئے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے ان حالات و واقعات میں بے شمار حکمتیں ،عبرتیں اور اسرار پوشیدہ فرمائے ہیں۔ اسی لیے ان واقعات کو بیان کرنے کے کئی مقاصد ہیں جن میں سے چند اہم درج ذیل ہیں: ۱۔ایک اہم مقصد یہ ہے کہ لوگ ان حالات و واقعات کو پڑھ کر ان میں غور و فکر کریں۔ ۲۔اہلِ ایمان اپنے سے قبل مبعوث کئے جانے والے انبیاء کے قصص سے باخبر ہوسکیں۔ ۳۔انبیا علیھم السلام کے قصص سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تسلی و تسکین حاصل ہو۔ ۴۔لوگ سابقہ اقوام کے احوال سے عبرت حاصل کریں جنھوں نے انبیاء کی نافرمانی کی۔ حیات سیدنا یوسف علیہ السلام میں مخفی اسرار و رموز: 1۔جناب سیدنا یوسف علیہ السلام کے حالات زندگی کا مطالعہ کریں توصبر کی اہمیت واضح ہوتی ہے ۔جس وقت بندہ مصائب ومشکلات میں گرفتار ہو جاتا ہے اور رنج و الم میں مزید اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے تو ایسے میں اللہ کریم بندے کو صبر و اسقامت کی نعمت سے سرفراز فرماتے ہیں اور جس وقت وہ اس امتحان سے نکل جاتا ہے تو پھر وہ کامیابی کی نعمت پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہے ۔سیدنایعقوب وسیدنا یوسف علیہما السلام کی زندگی میں یہ کیفیات ہر حالت میں نظر آتی ہیں۔بھائیوں کی ایذارسانیوں پر صبر،کنویں میں ڈالے جانے سے لے کر مصر میں بکنے اور قید تک صبر ،محبوب والد گرامی کی جدائی پر صبر کرنا اور عزیز مصر اور اس کی بیوی کی طرف سے لگائی جانے والی تہمت کو خندہ پیشانی سے برداشت کرنا ،ان تمام مصائب میں صبر کرنا یہ عظیمت کا مقام ہے ۔قرآن مجید جناب یعقوب علیہ السلام کے کلام کو بطور استحسان وتعریف بیان کرتا ہے کہ انہوں نے کس طرح اپنے نورِ نظر کی جدائی پر صابرانہ کلمات ادا فرمائے :پس صبر ہی بہتر ہے اور جو کچھ تم بیان کرتے ہو اس پر اللہ تعالیٰ سے نصرت مطلوب ہے ۔(یوسف:18)گویا ہمیں جناب یوسف علیہ السلام کے قصہ سے یہ درس ملتا ہے کہ ہم ہر مصیبت و مشکل میں صبر و رضا کا دامن تھام لیں اور شور وغل کرنے کی بجائے رضائے الہی پر صابر وشاکر رہیں۔ 2۔سیدنا یوسف علیہ السلام کے قصہ سے ہمیں عزت نفس کا درس بھی ملتا ہے کہ جیسے آپ علیہ السلام نے قید وبند میں عزیز مصر کی طرف سے دی گئی اذیتیں برداشت کیں اور اس وقت تک برداشت کیں جب تک بادشاہ نے آپ کی بے گناہی کا اعلان نہیں کردیا۔اس دوران آپ علیہاالسلام نے کسی طرح کی سفارشیں نہیں کیں کہ مجھے معاف کردیا جائے میں بے قصور ہوں بلکہ آپ تو راضی برضائے الہی تھے ۔ 3۔قصہ یوسف علیہ السلام کے بیان کا ایک مقصدلوگوں کو حسد و بغض جیسے اخلاقی امراض کے انجام سے آگاہ کرنا ہے ۔جیسا کہ جناب یوسف علیہ السلام کے بھائی ان سے حد درجہ حسد کرتے تھے اور اسی حسد کی آگ نے انہیں یوسف علیہ السلام کو ہر طرح کی اذیتیں دینے پر آمادہ کیا مگر اس کے باوجود وہ یوسف علیہ السلام کا کچھ بگاڑ نہیں سکے ۔حسد ایمان کے لیے اتنا بڑا خطرہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:حسد ایمان کا صفایا کر دیتی ہے ۔(الترمذی)لہذا ہمیں دلوں کو اگر نور عرفان سے آراستہ کرنا ہے تو حسد وبغض سے دل پاک کرنے ہوں گے ۔ 4۔یوسف علیہ السلام کے احسن القصص سے ہمیں عفو و درگزراور احسان و اکرام کا سبق بھی حاصل ہوتا ہے ۔وہ لوگ جو آپ کی جان سے کھیل گئے ایسے بدترین دشمنوں سے بدلہ نہ لینا یہ محسنین کا ہی شیوہ ہے ۔یوسف علیہ السلام کے دربار میں بھائی اپنے جرائم پر نادم و شرمندہ سر جھکائے آپ کے فیصلے کے منتظر تھے کہ شاہِ مصر جناب یوسف علیہ السلام نے ایسا مثالی فیصلہ فرمایا جو قیامت تک آنے والے لوگوں کے لیے مشعلِ راہ ہے ،آپ علیہ السلام نے فرمایا: آج تم پر کوئی سرزنش نہیں،اللہ تعالیٰ تمہیں بخش دے ، وہ سب مہربانوں سے زیادہ مہربان ہے ۔ (یوسف:92) ہمیں چاہیے کہ ہم بھی اپنی زندگی میں عفو و درگزر سے کام لیں اور بے شک ’’ عافین عن الناس ‘‘یہ اہلِ ایمان ہی کی شان ہے ۔ 5۔سورہ یوسف کا مطالعہ کریں تو یہ بات اظہر من الشمس ہوتی ہے کہ جس کو اللہ تعالیٰ بچا نا چاہے اسے دنیا کی کوئی طاقت نقصان نہیں پہنچا سکتی۔دشمن انسان کو کمزور اور بے بس کر دینا چاہتا ہے مگر اس کو کیا معلوم کہ پیدا کرنے والے کی منشاء ومرضی کیا ہے ؟یوسف علیہ السلام سے چھٹکارا پانے کے لیے بھائیوں نے کنویں میں پھینکا،انہیں کیا پتا تھا کہ یہ ان کے عروج کی پہلی سیڑھی ہے ۔زلیخا نے زندان میں آپ علیہ السلام کو قید کیا مگر اسے کیا خبر تھی کہ یہی راستہ آپ کو مصر کے تحت تک لے جائے گا۔اس لیے زندگی میں نہ خود کسی کے لیے رکاوٹیں کھڑی کریں اور نہ ہی اس بات سے خائف ہوں کہ کوئی آپ کی ترقی میں حائل ہوسکتا ہے ،نیت صاف رکھیں اور اللہ تعالیٰ کی ذات اقدس پر بھروسہ رکھیں۔ 6۔جناب یوسف علیہ السلام کے قصہ سے یہ سبق بھی ملتا ہے کہ مایوسی گناہ ہے ۔حالات کیسے ہی ناسازگار اور ناموافق کیوں نہ ہوں بندے کو رب کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے ۔مشکل حالات میں اللہ تعالیٰ سے نصرت طلب کرتے ہوئے صبرو رضا کا مظاہرہ کرنا چاہیے ۔جیسا کہ سیدنا یعقوب علیہ السلام نے پہلے اپنے صاحبزادے جناب یوسف علیہ السلام کی جدائی کا غم برداشت کیا بعد میں دوسرے بیٹے بنیامین کے فراق پر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پر امید رہے اور بیٹوں سے فرمایا:میرے بچو!تم جاؤ یوسف اور اس کے بھائی کو پوری طرح تلاش کرو اور اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا،یقینا اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ناامید وہی ہوتے ہیں جو کافر ہوں(یوسف:87) اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں یہ استدعا ہے کہ وہ ہمیں قصص قرآنیہ سے عبرت حاصل کرنے اوران کے اسرار و رموز کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین