وزیر اعظم عمران خان نے ایک بار پھر اپوزیشن کی طرف سے نیب زدہ لوگوں کے لئے این آر او مانگنے کا تذکرہ کیا ہے۔ انہوں نے اس بار لاہور میں راوی ڈیویلپمنٹ پراجیکٹ کے افتتاح کی تقریب میں جس انداز سے اس این آر او مانگے جانے کا ذکر کیا ہے، اگر اس میں ماضی کے صیغے کا استعمال جان بوجھ کر کیا گیا ہے تو اسکا مطلب ہے کہ میاں نواز شریف کی بیرون ملک روانگی کے بعد ایک اور این آر او کی تفصیلات حتمی طور پر طے ہو چکی ہیں اب اس پر عملدرآمد کب ہوتا ہے اسکے لئے تھوڑا انتظار کرنا ہو گا۔ وزیر اعظم نے جمعہ کے روز افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جب بھی اپوزیشن کے ساتھ ملکی معاملات جیسے کہ حالیہ قانون سازی کا معاملہ تھا، پر بات کریں وہ این آر او مانگتے ’’تھے‘‘۔ اگر ’’تھے‘‘ کا لفظ غلطی سے ادا نہیں ہوا تو میرا اندازہ درست ہے کہ کچھ معاملات طے پا گئے ہیں۔ورنہ ہمیشہ عمران خان جب بھی اپوزیشن کے مطالبے کا ذکر کرتے تو ہمیشہ حال کا صیغہ استعمال کرتے اور باالخصوص اسکے ساتھ یہ ضرور کہتے کہ کسی کو این آر او نہیں دونگا۔ لیکن لاہور میں ہونے والی اس تقریب میں انہوں نے این آر او نہ دینے کی دھمکی نہیںلگائی۔بلکہ کچھ غیر جذباتی انداز بھی اپنایا حا لانکہ وہ اس معاملے میں بات کرتے ہوئے بہت جذباتی ہو جایا کرتے تھے۔ دکھائی یہ دے رہا ہے کہ انکی طبیعت میں ٹھہرائو آ رہا ہے اور ساتھ ہی ساتھ انہیں ملکی سیاست کی حقیقتوں کا ادراک بھی کسی حد تک ہو چکا ہے۔ملک کے وزیر اعظم بننے کے بعد بھی آپکے اشارے پر سب کچھ نہیں ہوتا اس میں بہت سے مقامات آہ و فغاں ہیں جو آہستہ آہستہ انکو سمجھ آ رہے ہیں۔ جہاں تک وزیر اعظم کی طبیعت میں ٹھہرائو کا معاملہ ہے تو اسے بہت اچھی پیش رفت کہا جا سکتا ہے لیکن کرپشن پر مفاہمت نہ تو ملک کیلئے اچھی ہے اور نہ ہی تحریک انصاف کی سیاست کے لئے۔اگر عمران خان واقعی کرپشن پر کمپرومائز کر رہے ہیں تو پھر کوئی دن جاتا ہے ’’پرانا پاکستان‘‘ اور پرانے لوگ اپنے پرانے ہتھکنڈوں کے ساتھ مسند اقتدار پر براجمان ہونگے۔ دوسری طرف اپوزیشن اتنی سادہ لوح ہے کہ وزیر اعظم جب بھی انکی طرف سے این آر او کے مطالبے کا ذکر کرتے ہیں تو وہ انتہائی معصومیت سے پوچھتے ہیں کہ کون مانگ رہا ہے۔ ہم میں سے تو کوئی بھی اس حق میں نہیں ہے۔ ہم عدالتوںکا سامنا کرینگے اور سرخرو ہو کر نکلیں گے وغیرہ وغیرہ۔۔ جیسے بیانات سب نیب زدگان داغ رہے ہوتے ہیں۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ جب بھی حکومت کسی مسئلے پر اپوزیشن سے تعاون کی درخواست کرتی ہے تو پہلا مطالبہ یہی ہوتا ہے کہ یا نیب کو ختم کیا جائے یا پھر ایسی ترامیم لائی جائیں کہ اسکے ناخن اور دانت نکال دیئے جائیں۔حال ہی میں ایف اے ٹی ایف اور لیگل اسسٹنس کے قوانین پر جس قسم کا مجوزہ ترمیمی ڈھانچہ نیب کے حوالے سے اپوزیشن نے پیش کیا وہ اس بات کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کہ ملزمان و مجرمان نیب سے کس قدر خوفزدہ ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے قائد تا حیات نا اہلی کے بعد اپنے با اعتماد ساتھیوں کو اگرچہ کہہ چکے ہیں کہ ہم نے بھگت لیا ہے اب دوسروں کے بھگتنے کی باری ہے اس لئے نیب کے قانون کو بدلنے کی کوئی ضرورت نہیں لیکن انکے شیدائی اور اندھے پیروکار جو اس وقت نیب کی گرفت میں ہیں اپنے قائد کے حکم کوماننے کو تیار نہیں اور ایڑی چوٹی کا زور لگا کر اس قانون کو بدلوانا چاہتے ہیں۔ سادہ لوح اپوزیشن نے انتہائی شدو مد سے نیب قانون کی تبدیلی کے لئے کوشش کی اور حکومت کو ایف اے ٹی ایف اور لیگل اسسٹنس قوانین پر حمایت سے صاف جواب دیدیا۔اس معاملے کے لئے جو کمیٹی بنی اس کا بھی بائیکاٹ کر دیا گیا۔ لیکن بالآخر قانون سازی پر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی تحریک انصاف سے مکمل ہم آہنگی دیکھنے میں آئی۔حالا نکہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے نیب پر انکے مسودہ کا پارلیمنٹ میں جس طرح مذاق اڑایا اور اپوزیشن کو شرمندگی سے دوچار کیا اسکے بعد لگتا تھا کہ اپوزیشن کسی طرح حکومت کی قانون سازی میں مدد نہیں کریگی لیکن اپوزیشن کا غصہ باسی کڑاہی میں ابال ثابت ہوا۔جس انداز میں ان دونوں جماعتوں نے حکومت کی حمایت کی اس پر انکے سب سے بڑے حواری مولانا فضل الرحمٰن کی جماعت پارلیمنٹ کے اندر پھٹ پڑی اور گزشتہ تین روز سے وہ اپنے ہم خیال سیاسی اتحادیوں کو بلا ناغہ طعن و تشنیع کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں اپنی شرمندگی کو پس پشت ڈالتے ہوئے اپوزیشن نے حکومت کی بھرپور حمایت کی اور دونوں قوانین پاس ہو گئے۔ اسکے باوجود اپوزیشن بہت سادگی سے پوچھ رہی ہے کہ کون این آر او مانگ رہا ہے۔ اپوزیشن کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ انکے نیب زدگان کو این آر او پہ این آر او مل رہا ہے۔میاں نواز شریف کا ملک سے باہر جانا اسکی سب سے بڑی مثال ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ بات عیاں ہوتی چلی جا رہی ہے کہ وہ ایک خاص انتظام جو خاص لوگوں نے کرایا تھا اسکے تحت باہر گئے ہیں اور اسکے بدلے میں وہ اپنی جماعت کو حکومت کے ہر مشکل وقت میں مدد کے لئے بھیج دیتے ہیں۔ خاص طور پر پارلیمنٹ میں انتہائی حساس نوعیت کی قانون سازی کے حوالے سے مسلم لیگ (ن) کی غیبی اور ظاہری مدد ہمیشہ حکومت کو میسر رہی ہے۔ اسی طرح سے پیپلز پارٹی جو ابھی تک چھوٹے چھوٹے این آر او پر گزارہ کر رہی تھی لگتا ہے اس بار انہیں بھی بڑا این آر او مل گیا ہے۔اسکی ممکنہ صورت وہی ہو سکتی ہے جو میاں نواز شریف کی دفعہ ہوئی تھی کہ شدید بیمار اور کسی بھی وقت خدانخواستہ صحت جواب دے جانے کا خوف دلا کر انہیں باہر بھیج دیا گیا، اسی طرح سے محترم آصف زرداری اب اس مرحلے سے شاید گزریں اور انکی منزل مشرق وسطیٰ یا امریکہ ٹھہرے۔تھوڑا انتظار کریںاس سادہ لوح اپوزیشن کے اس معصومانہ سوال، ’’ کون این آر او مانگ رہا ہے‘‘ کا جواب مل جائے گا۔