وزیر اعظم عمران خان نے بڑے تزک واحتشام سے خود کھانا بانٹ کر ’ کوئی بھو کانہ سو ئے ‘ پر وگرام کا افتتاح کیا اور کہا کہ احسا س پروگرام کے تحت حکومت تین کروڑ خاندانوں کو سبسڈی دے گی جو براہ راست مستحقین کے بینک اکاؤنٹس میںبھجوائے گی ۔ اس کے ساتھ ہی یہ خبر بھی شائع ہوئی ہے کہ آئندہ مالی سال کے دوران شرح نمو صرف 1.3فیصد رہے گی یعنی رواں مالی سال کے دوران معیشت کی ابتر صورتحال کے پیش نظر یہ اضافہ آبادی میں اضافے کی شرح سے بھی خاصا کم ہو گا گویا کہ وطن عزیز میں غریبوں کی تعداد مزید بڑھ جائے گی ۔ ورلڈ بینک نے جس بنیادی خرابی کی طرف اشارہ کیا ہے، اس کا مطلب سیدھا سادا ہے کہ محض نوٹ چھاپ کر اس طرح کے پاپولر منصوبوں سے کام نہیں چلے گا اور حالات بد سے بد تر ہوتے چلے جائیں گے ۔جہاں تک سیاسی صورتحال کا تعلق ہے وہ تو پہلے ہی دگرگوں ہے،اپوزیشن اتحا د پی ڈی ایم 26مارچ کو لانگ مارچ کی منصوبہ بندی کی طرف سرگرم عمل ہے ۔ گویا کہ اقتصادیات ہو یا سیاسیات اور انتظامی معاملات کے بارے میں بھی یہی کہا جا سکتا ہے اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی۔ حکومت کی طرف سے صنعت کاروں کو مالیا تی پیکیج کی صورت میںدی گئی رعایتیں ابھی تک سودمند نہیں ہو پائیں، دوسری طرف آئی ایم ایف کے ساتھ کٹھن اور گنجلک مذاکرات بھی جاری ہیں ۔ آ ئی ایم ایف کی فرمائش پر سبسڈ یز ختم کرنے سے بجلی اور گیس کی قیمت میں اضافہ ہو رہا ہے، اسی طرح ملک میں کپاس کی فصل ناکافی ہونے کے باعث ٹیکسٹا ئل کے شعبے کو بھی چیلنجز کا سامنا ہے ۔برآمدات وقتی طور پر اضافے کے بعد جمود کا شکار نظر آتی ہیں ۔ اس صورتحال میںاشیائے خورونوش کی قیمتوں میں گونا گوں اضافے اور بجلی ،گیس ،تیل اور ادویات کی قیمتوں کا آسمان سے با تیں کرنا کسی خطرے سے کم نہیں ۔ خان صاحب اس ہو شربا مہنگائی پر تشویش کا اظہار اور اس میں کمی لانے کے لیے اقدامات کا بھی اعلان کرتے رہتے ہیں لیکن وہ مارکیٹ فورسز کے سامنے بے بس نظر آتے ہیں ۔ اقتصادیات کی بحرانی صورتحال میںوزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ شیخ سینیٹ کی نشست پر یوسف رضا گیلانی سے شکست کھا چکے ہیں ، یہ حکومت کے لیے بہت بڑا سیٹ بیک ہے کیونکہ شیخ صاحب وزیر خزانہ نہ ہونے کی بنا پر این ایف سی اور ای سی سی کے اجلاسوں کی صدارت نہیں کر سکیں گے ۔ اس مرحلے پرانہیں تبدیل کرنا جبکہ آئی ایم ایف اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں سے پیچید ہ مذاکرات جاری ہیں حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے ۔دوسری طرف چیف جسٹس لاہورہائیکورٹ جسٹس قاسم خان نے جمعرات کو حکومتی مشیروں کی کوالیفکیشن کیس میں اپنے ریمارکس میں کہا الیکشن ہارنے پر حفیظ شیخ کو اخلاقی طور پر مستعفی ہوجانا چاہیے تھا، جمہوری ملکوں میں لوگ ہارنے کے بعد مستعفی ہوجاتے ہیں، کیا حکومت کوعبدالحفیظ شیخ کے علاوہ 22 کروڑ عوام میں کوئی نہیں ملا؟۔ کورونا وبا کی تیسری لہر پاکستان میں پھیل چکی ہے ۔ حکومت کی بے خبری کا یہ حال ہے کہ مارچ کے دوران اکانومی کھولنے اور روزمرہ کے معاملات معمول پر لانے کے لیے ایسے اقدامات کا اعلان کیا گیاجن پر عمل درآمد ہونے سے پہلے ہی انہیں واپس لینا پڑا۔ تعلیمی ادارے 15سے 28مارچ تک موسم بہار کی چھٹیوں کے بہانے بند کر دیئے گئے، کاروبار رات دس بجے کے بعد بند کر دئیے جائیں گے،انِ ڈور ڈائننگ، شادی کی تقریبات اور سینما گھروں پر 15 مارچ سے عائد پابندیاں ہٹانے کا فیصلہ موجودہ صورتحال کے پیش نظر واپس لے لیا گیا اور اب یہ پابندیاں 15 اپریل تک جاری رہیں گی، آؤٹ ڈور شادیوں میں 300 سے بڑا اجتما ع نہیں ہوسکے گا ۔ کوڈو 19کی ویکسین درآمد کرنے کے بارے میں اس قد ر کوتاہی سے کام لیا گیا کہ چین سے عطیہ میں ملنے والی ویکسین کے سوا باقی ممالک سے ویکسین درآمد کرنے کے معاملے میں زبانی جمع خرچ سے ہی کام لیا گیا۔ اس میں حکومت کے ہا تھ پیر پھولے تو بھارت سے ویکسین درآمد کرنے کی کاوشیں کی جا رہی ہیںاور قوم کو تسلی دی جا رہی ہے کہ اسی ما ہ ویکسین کی کھیپ پاکستان پہنچ جائے گی اور اس کی قلت نہیں ہو گی ۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ہیلتھ ورکرزاور 60سال سے زائد عمر کے بزرگوں کو ویکسین لگائی جارہی ہے لیکن یہ وافر مقدار میں میسر نہیں ہے۔ اس تناظر میں جب ہر طرف بے چینی پھیلی ہوئی ہے، ا پوزیشن کا اپنی حالیہ کامیابیوں کے بعد مورال بڑھا ہوا ہے ،وہ حکومت سے برسرپیکار ہونے کے لیے تیارنظر آتی ہے لیکن دوسری طرف افسوسناک بات یہ ہے کہ وزیراعظم اور ان کے ترجمان مسلسل یہ نعرہ لگا رہے ہیں کہ ان کا پالا چوروں اور ڈاکوؤں پر مشتمل اپوزیشن سے پڑاہے لیکن وہ حکومت میں رہیں یا نہ رہیں ان کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے جدوجہد جاری رکھیں گے۔ ملک جس شدید بحرانی کیفیت کی طرف بڑھ رہا ہے غا لبا ً اس کا کسی کو پوری طرح ادراک نہیں ہے اگرہوتا توبہتر سمت چلانے کی کوئی سعی تو کی جاتی۔ بعض تجزیہ کار خان صاحب پر الزام عا ئد کرتے ہیں کہ انہیں جب تک تیسری قوت کی حمایت حاصل ہے ان کا کوئی بال بیکا نہیں کرسکتا ۔اگر یہی سوچ حکمران اتحاد میں جاگزین ہے تویہ نوشتہ دیوار پڑھنے سے برملا انکار کے مترادف ہو گا ۔ موجودہ ابتر سیاسی ا ور اقتصادی صورتحال میں لوگ سڑکوں پرنکلنے پر مجبور ہو جائیں توکوئی قوت بھی کسی حکومت کو بچانے کے لیے نہیں آئے گی ۔ خان صاحب آجکل روحانیت کی بہت باتیں کرتے ہیں، وہ علامہ اقبالؒ کے بھی شیدائی ہیں لیکن روحانیت کا اصل تقاضا یہ ہے کہ انسان خوشامد اور خوشامدیوں سے گریز کرے اور نرگسیت کے رویئے سے بچے کیونکہ تاریخ میں جملہ امراض کی بناپر سینکڑوں حکمرانوں کواقتدار سے ہا تھ دھونا پڑا ۔ خان صاحب اگرچہ اپنے مشن میں نیک نیت ہیں لیکن دعا ہے ان کا ایسا حشر نہ ہو۔