غزہ اور فلسطین کے مظلوم مسلمانوں پر جاری اسرائیلی دہشت گردی میں ،معصوم بچوں کی لاشیں اٹھاتے والدین، خوف سے کانپتے بچے، ملبے کے ڈھیر پر بیٹھے خاندان اور بلند و بالا عمارتوں کے زمین بوس ہوتے مناظر کے درمیان عالمی میڈیا پر ایک ایسی خبر نشر ہوئی ،جس کا بظاہر تو اس سارے ظلم و بربریت سے کوئی تعلق نظر نہیں آتا، لیکن وہ جو حقیقتِ حال سے آگاہ ہیں، انہیں معلوم ہے کہ اسرائیلی قتل و غارت کا پشت پناہ کون ہے ۔ خبر کے مطابق ، گوانتا ناموبے سے اٹھارہ سال بعد ایک پاکستانی تاجر سیف اللہ پراچہ کو بغیر فرد جرم عائد کیے، اسکی رہائی کا اعلان ہوا ہے۔ یہ قید اور رہائی ایک علامت ہے اس قوت کی جس کے بل بوتے پر گذشتہ ستر سالوں سے نہ صرف فلسطین بلکہ دنیا کے ہر ملک میں مسلمانوں کا خون بہایا جا رہا ہے۔لیکن اس قتل و غارت پر عالمی اداروں، انسانی حقوق کی انجمنوں، دو سو سے زیادہ ممالک کی ’’سول سوسائٹیوں‘‘اور جاندار ’’آزاد‘‘ میڈیا مسلسل اپنی مہر تصدیق بھی ثبت کررہا ہے۔ گوانتا ناموبے دراصل اس عالمی قید خانے کی ایک چھوٹی سے مکمل تصویر (Miniature)ہے، جہاں بے گناہ لوگوں کو پکڑکر لایا جاتا رہا ، ان پر دہشت گردی کا الزام لگا کر انہیں پوری دنیا کے لیئے ایک ناقابلِ قبول شخص قرار دیا جاتا رہا ، ان کے حق میں معمولی سی آواز بلند کرنے والوں کو بھی دہشت گردوں کا سہولت کار، ہمدرداور شدت پسند کہہ کر خوف زدہ کیا جاتا اور یوں پوری دنیا کو ’’گنگ‘‘ یعنی بے زبان کرنے کے بعد ان قیدیوں کو اس عقوبت خانے میں بدترین تشددوالی زندگی میسر کی جاتی رہی ۔ یہ قیدی وہ بدقسمت تھے جنکی باقی ماندہ زندگی ایک ایسی اذیت میں ڈھل گئی، جس کے خاتمے کا کوئی تصور ہی نہیں تھا۔ان کو تاحیات قیدی کے طور پر جانا جانے لگا۔ ان میں سے ایک پاکستانی تاجر سیف اللہ پراچہ بھی تھے۔ سیف اللہ پراچہ کی کہانی جہاں عالمی سطح کی بے انصافی کی کہانی ہے وہاں، اس ظلم پر دنیا کی مکمل خاموشی کی داستان بھی ہے۔ یہ رہائی بھی کبھی عمل میں نہ آتی اگر افغانستان کے مردانِ حّر ’’طالبان‘‘ نے امریکہ اور اس کے حواریوں کو بدترین شکست سے نہ دوچار کیا ہوتا۔ طالبان کی فتح نے دنیا کی اس واحد عالمی طاقت کے تقریباً ہر ادارے اور ہر سوچنے والے ذہن میں یہ تصور ضرور راسخ کیا ہے کہ فتح کے لئے ٹیکنالوجی کا عروج، افواج کی اکثریت اور عالمی سپورٹ کافی نہیں ہوتی۔ یہ سب کچھ ذلیل و رسوا ہو جاتا ہے اگر مقابلے میں دشمن توّکل کی دولت ، ایمان کے جذبے اور شہادت کی آرزو سے مالا مال ہو۔ سیف اللہ پراچہ سے میری سرِ راہ کوئٹہ میں شاید ایک یا دو ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب افغانستان میں ملا محمد عمرؒ کی ایسی حکومت تھی جس نے وہاں تقریباً 17سال کے بعد خطے کو امن بخشا تھا۔ افغانستان کے پرامن حالات سے متاثر پاکستان کا یہ دیندار تاجر، سیف اللہ پراچہ وہاں معاشی بحالی میں مدددینے کے لیئے بے تاب تھا۔میں نام اور ملاقات بھول جاتا لیکن ایک دن 2003ء میں اچانک خبر پڑھی کہ سیف اللہ پراچہ کو القاعدہ سے تعلق کے شبے میں بینکاک سے گرفتار کر لیا گیا،جس نے چونکا کر رکھ دیا ۔ سیف اللہ پراچہ جس کا بچپن انتہائی غربت میں گذرا، ایک وظیفہ پر چوبیس سال کی عمر میں نیویارک انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں تعلیم کی غرض سے گیا ، جہاں اس کی ملاقات ایک پاکستانی خاتون سے ہوئی جو اس کی بیوی بنی اور پھر وہ پندرہ سال امریکہ میں ایک پرسکون زندگی گذارکر 1986ء میں پاکستان آگیا۔ اس نے یہاں آکر پاکستانی گارمنٹس کا بیرون ملک سپلائی کا کاروبار شروع کیا،اور ساتھ ساتھ وہ ملک بھر میں خیراتی کاموں میں بھی مشغول ہو گیا۔اس نے ایک بہت بڑ اہسپتال بھی قائم کیا۔ ملا محمد عمرؒ کی حکومت کے قیام کے بعد اس نے کچھ ساتھیوں سمیت معاشی بحالی کے جذبے کے تحت 1999ء سے 2000ء تک افغانستان کے تین دورے کیے۔ ان دوروں کی تفصیل اس نے اپنی این جی او، کونسل آف ویلفیئر آرگنائزیشن کی ویب سائٹ پربھی جاری کی۔ وہ ان چوبیس لوگوں میں شامل تھا، جنہیں قندھار میں اسامہ بن لادن سے ملاقات کا ’’شرف‘‘ حاصل ہوا۔ سیف اللہ پراچہ نے اسامہ بن لادن سے اسکے مؤقف کی وضاحت کیلئے ایک تفصیلی انٹرویوکے لیئے کہا۔ سیف اللہ نے اس مقصد کے لیئے اپنے کراچی دفتر میں ایک بہت بڑا سٹوڈیو بھی بنا رکھا تھا جہاں ڈاکٹر غلام مرتضیٰ ملک اور ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کے لیکچر بھی ریکارڈ ہوتے تھے۔ ملاقات کے دوران سیف اللہ پراچہ نے اسامہ بن لادن کو اپنا بزنس وزٹنگ کارڈ دیا، تاکہ وہ اس سے رابطہ کرسکے، لیکن اسامہ بن لادن نے اس سے کوئی رابطہ نہ کیا۔ سیف اللہ پراچہ نے مئی 2001ء میں امریکی صدر جارج بش کو پانچ صفحات پر ایک مشتمل خط تحریر کیا، جس میں کہا گیا کہ امریکہ، طالبان حکومت سے پابندیاں اٹھا لے، کیونکہ طالبان منشیات، دہشت گردی اور اشتراکیت کے خلاف بہت مدد گار ثابت ہو سکتے ہیں۔ گیارہ ستمبر کے واقعہ کے بعدپراچہ نے پاکستان میں امریکی کونسل جنرل سے اس سانحے کا افسوس بھی کیا۔ لیکن ایک دن اچانک 2002ء میں ایک شخص ’’میر‘‘کے نام سے پراچہ کے پاس اسکا وہ والا کارڈ لے کر آیا جو اس نے اسامہ بن لادن کو دیا تھا اور اس سے میڈیا کے حوالے سے گفتگو کرنے لگا۔ لیکن اب ایسا نا ممکن ہو چکا تھا۔ پراچہ نے معذرت کی، مگر وہ اس سے چھوٹی موٹی مدد حاصل کرتا رہا، جیسے بینک میں اکاؤنٹ کھلوانا وغیرہ ۔ اس نے پراچہ کو کاروبار میں لگانے کے لیئے دو لاکھ ڈالرکی پیشکش کی جو اس نے مسترد کر دی۔ اس کے ساتھ ایک اور نوجوان بھی ہوتا جس کا نام وہ مصطفے بتاتا۔ سیف اللہ پراچہ کا بیٹا عزیر انکے ساتھ کام کرتا تھا،جو ان ملاقاتوں میں شامل رہتا۔ وہ بزنس کے سلسلے میں امریکہ چلا گیا۔ مارچ 2003ء کو،ایک دن اچانک سیف اللہ پراچہ نے ٹی وی پر دیکھا کہ ایک شخص خالد شیخ محمد کو راولپنڈی میں گرفتار کیا گیا ہے تو وہ حیران رہ گیا کیونکہ یہ تو وہی شخص تھا جو ’’میر‘‘ کے نام سے اس سے ملنے آتا تھا۔خالد شیخ کی گرفتاری کے چند دن بعد ہی 28مارچ 2003ء کو سیف اللہ پراچہ کے بیٹے عزیر کو نیو یارک سے ایف بی آئی نے اٹھا لیا۔ سیف اللہ پراچہ، اپنے بیٹے سے ملاقات چاہتا تھا۔ اس نے اپنے پارٹنر نیویارک کے یہودی چارلس اینٹ بے (Charles Anteby) سے کچھ کرنے کی درخواست کی، اور امریکی سفیر کوخط بھی لکھا۔ چارلس نے گفتگو کے لیئے اسے بینکاک بلایا ،کیونکہ وہ پاکستان نہیں آنا چاہتا تھا۔لیکن 5جولائی 2003ء کو بینکاک ایئر پورٹ سے باہر نکلتے ہی سیف اللہ کو گرفتار کر لیا گیا اور آج تقریباً اٹھارہ سال بعد وہ صرف اسامہ بن لادن کو وزٹنگ کارڈ دینے کے معمولی جرم کی 18سال سزا بھگت کر رہا ہورہا ہے۔اٹھارہ سالہ اذیت ناک جیل ، جہاں روا ررکھے جانے والے سلوک، بہیمانہ تشدد اور بربریت کی داستانیں جدید انسانی تاریخ کا بدنما چہرہ ہیں۔ یہ ہے وہ امریکہ جو اسرائیل کی ریاست کی پشت پناہی کرتا ہے ۔ یہ امریکہ آج اپنا ہاتھ اٹھا لے تو یہ اسرائیلی ریاست صرف چند گھنٹوں میں دنیا کے نقشے سے ختم کی جا سکتی ہے۔ ہر وہ بچہ جو غزہ میں مر رہا ہے، جو بوڑھا اذیت میں ہے، جو نوجوان شہید ہو رہا ہے، جوخاتون اپنے پیاروں کی لاشوں پر رو رہی ہے، ان کا سب کامجرم دراصل ’’نیتن یاہو‘‘ نہیں ہے بلکہ ’’جوبائیڈن‘‘ ہے۔ کوئی ہے جو براہ راست اس اصل مجرم کا گریبان پکڑے۔کوئی اسمبلی اس کے خلاف قرار داد منظور کرے، اس ملک سے اپنے تعلقات توڑے۔ساڑھے سات ارب بزدل انسانوں کا سمندر ہے یہ دنیا۔