پاکستان تاریخ کے بدترین سیلاب کی زد میں ہے۔2010ء کے سیلاب کو بھی سوپر سیلاب کا نام دیا گیا تھا لیکن موجودہ سیلاب نے الفاظ کا چنائو مشکل بنا دیا ہے۔اس وقت پاکستان کا تقریباً 1/3حصہ زیر آب ہے۔پاکستان کے 160اضلاع میں سے 72سیلاب سے متاثر ہیں۔NDMAکے مطابق تقریباً 5ہزار کلو میٹر سڑکیں ٹوٹ پھوٹ گئی ہیں۔تقریبا ایک کروڑ کے قریب گھر مکمل یا جزوی طور پر تباہ ہوئے ہیں۔سات لاکھ مویشی سیلاب میں بہہ گئے ہیں ۔بارہ سو انسانی جانیں اب تک ضائع ہو چکی ہیں اور زخمیوں کی تعداد بھی کافی زیادہ ہے۔صوبہ سندھ سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔تقریباً ڈیڑھ کروڑ لوگ سندھ میں سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں۔سندھ کی حکومت کی کارکردگی بھی ناقابل یقین حد تک بری رہی ہے ،جس کے نتیجے میں سندھ کے وزراء اور عمائدین سیلاب زدہ علاقوں میں جانے سے ہچکچا رہے ہیں۔جو چند وزراء سیلاب زدہ علاقوں میں گئے ہیں‘ عوام نے ان کی خوب خبر لی ہے۔جس طمطراق سے یہ لوگ سیلاب زدہ علاقوں میں جاتے ہیں ،وہ متاثرہ عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ سندھ اسمبلی کے سپیکر اور قائم مقام گورنر پہلے تو سیلاب زدہ دیہات میں لوگوں کو ڈانٹ ڈپٹ کر آئے تھے لیکن ان کے ایک اور دورے میں جب وہ خالی ہاتھ اپنی شاندار گاڑیوں کے ساتھ سیلاب زدہ علاقہ میں پہنچے، تو عوام نے انہیں آڑے ہاتھوں لیا اور مردہ باد کے نعروں سے انہیں بھاگنے پر مجبور کر دیا۔مریم نواز کے جنوبی پنجاب کے دورے میں بھی ان کی گاڑیوں کی تعداد 63بتائی جاتی ہے۔لاہور سے ملتان جانے کے لئے بھی انہوں نے خصوصی طیارہ استعمال کیا۔ سیلاب سے متاثرہ لوگوں کی تعداد تقریباً ساڑھے تین کروڑ بتائی جاتی ہے۔ان میں سے بیشتر لوگ ایسے ہیں کہ انہیں چاروں طرف سے پانی نے گھیر رکھا ہے اور وہ قدرے اونچی سڑکوں پر بسیرا کئے ہوئے ہیں۔اس وجہ سے سڑکیں بھی مسدود ہو گئی ہیں اور انہیں مدد پہنچانا بھی آسان نہیں ہے۔ اگر انہیں خشک راشن مل بھی جائے تو ان کے پاس کھانا پکانے کا کوئی بندوبست نہیں ہے۔کھلے آسمان کے نیچے نہ دھوپ سے بچنے کے لئے کوئی سائبان ہے اور کھانا پکانے کے لئے ایندھن۔پہلا بڑا چیلنج تو یہ ہے کہ تقریباً تین کروڑ لوگوں کے کھانے کا بندوبست کیسے کیا جائے۔کراچی کے شہری ہزاروں ٹن کھانا سینکڑوں ٹرکوں کے ذریعے اپنے بہن بھائیوں کے لئے روانہ کر رہے ہیں۔ افواج پاکستان ہمیشہ کی طرح سیلاب زدگان کی خدمت کے لئے دن رات ایک کئے ہوئے ہیں۔ آرمی‘ ایئر فورس اور نیوی کے ہیلی کاپٹر دن رات اسی کام میں مصروف ہیں۔پاکستان کے شہری اور مختلف تنظیمیں دن رات اپنے بھائیوں کی خدمت میں مصروف ہیں۔الخدمت اور اخوت ہمیشہ کی طرح صف اول میں شامل ہیں۔اقوام متحدہ اور دوست ممالک کی مدد اور پاکستانی قوم کے جذبہ اخوت سے ہم اس سیلاب کی تباہ کاریوں پر قابو پا لیں گے۔بلوچستان کے وزیر اعلیٰ نے کہا ہے کہ اس نقصان کو پورا کرنے کے لئے 25سال درکار ہوں گے، وہ بھول گئے ہیں کہ اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ اگلے سال یہ سیلاب نہیں آئے گا اور 25سال میں تو نجانے کتنی دفعہ ہمیں سیلاب کا سامنا کرنا پڑے گا۔بارش اور سیلاب کا ذمہ دار تو ہم قدرت کو ٹھہرا سکتے ہیں لیکن اگر ہمارے حکمرانوں نے پاکستان میں اچھی گورننس کا رواج ڈالا ہوتا تو شاید اتنے نقصانات کا منہ نہ دیکھنا پڑتا۔موجودہ حکومت کی بات نہیں ہو رہی۔ اگر پی ٹی آئی کی حکومت بھی ہوتی تو نقصانات ایسے ہی ہوتے۔لیکن پچھلے 75سال حکمرانی کرنے والے لوگوں نے کبھی بھی اچھی پلاننگ کا مظاہرہ نہیں کیا۔ نہ کوئی ڈیم بنائے گئے نہ پل اور سڑکیں ایمانداری سے بنائی گئیں۔پاکستان میں تعمیرات میں کمیشن کھانے کی روایت اتنی مضبوط ہو گئی ہے کہ اب اسے رشوت سمجھا ہی نہیں جاتا۔ کسی بھی منصوبے کا 30-40فیصد بجٹ حکام کی جیب میں چلا جاتا ہے اور باقی رقم ٹھیکیدار کے منافع اور پروجیکٹ میں تقسیم ہوتی ہے۔جو حکام 30-40فیصد رقم کمیشن کی مد میں کھائیں گے وہ کوالٹی پہ کیا توجہ دیں گے۔اسی لئے ہماری سڑکیں‘ بند اور پل قدرتی آفات کے سامنے ڈھیر ہو جاتے ہیں۔دریائوں کے کناروں پر ہوٹل تعمیر کر دیے جاتے ہیں جو خلاف قانون ہیں لیکن ہمارے قانون کی قیمت ادا کر دی جاتی ہے۔اور کوئی ذمہ داری لینے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔اب وزیر اعظم نے فرمایا ہے کہ دریائوں کے کنارے ہوٹل بنانے والوں کے خلاف ایکشن لیا جائے گا۔جن لوگوں نے اس کی اجازت دی ان کے خلاف ایکشن کون لے گا۔جب تک پاکستان میں قانون کی حکومت قائم نہیں ہو گی‘ ہم کبھی بھی ترقی نہیں کر سکیں گے۔ہم موسمی تبدیلی کے حوالے سے خطرناک ممالک میں شامل ہیں۔اس دفعہ بارش معمول سے 500فیصد زیادہ ہوئی ہے۔ہمارے گلیشئر بھی تیزی سے پگھل رہے ہیں۔ہمارے ملک میں موسم کی پیشین گوئی کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔اس لئے اب ہمارے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے کہ ہم نہایت تیزی کے ساتھ غیر متوقع موسم کا مقابلہ کرنے کی تیاری کریں۔ہمیں سوچنا پڑے گا کہ اسی ریجن میں چین نے اپنے ملک میں 22ہزار ڈیم بنائے ہیں۔ ہمارے ہمسائے بھارت نے 4300ڈیم بنائے ہیں اور ہمارے ڈیم انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں۔بڑے اور قابل ذکر ڈیم تو شاید دو ہی ہیں۔منگلا اور تربیلا۔ان دو ڈیمز کی بھی سالوں سے مرمت نہیں کی گئی اور مٹی کے بھرنے سے ان کی افادیت اور پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کافی کم ہو چکی ہے۔ کالا باغ ڈیم کی مخالفت کرنے والے سیاستدانوں کے لئے بھی لمحہ فکریہ ہونا چاہیے کہ جو لوگ نوشہرہ کے ڈوبنے اور سندھ کی زمین بنجر ہونے کے خدشات ظاہر کرتے تھے اب وہ نوشہرہ کے ڈوبنے کا منظر بھی دیکھ رہے ہیں اور سندھ کا صوبہ سیلاب سے نقصانات اٹھانے میں سب سے آگے ہے۔ کاش ہم نے درست وقت پر درست فیصلے کئے ہوتے اور کالا باغ ڈیم بنا لیا ہوتا تو شاید نوشہرہ اور سندھ قدرے محفوظ ہوتے۔اس سیلاب سے تو ہم جیسے کیسے نبٹ لیں گے لیکن اب ہمیں اپنے مستقبل کی فکر کرنی چاہیے۔موسمی تبدیلی کے اثرات ابھی اور رنگ لائیں گے اور ہمیں ابھی سے منصوبہ بندی کرنی پڑے گی۔ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان کی حکومت اور تمام مقتدر حلقے ایک اونچے درجے کا کمیشن بنائیں جو پاکستان کی مستقبل کی منصوبہ بندی اور اس کے لئے قانون سازی کی سفارشات جلد ازجلد مرتب کرے اور قومی اسمبلی کے سامنے پیش کرے۔یہ کمیشن سفارش کرے کہ آئندہ سیلاب کی اتنی سخت صورت حال سے نبردآزما ہونے کے لئے کیا اقدامات ضروری ہیں۔یہ کمیشن تجاویز دے کہ پاکستان میں کتنے ڈیم بنانے کی ضرورت ہے کہ ہم سیلاب کے پانی کو ذخیرہ کر سکیں اور اپنی ضرورت کے مطابق پن بجلی پیدا کر سکیں۔اس سے ہماری زراعت اور برآمدات دونوں پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔یہ بھی تجویز کیا جائے کہ پاکستان میں سرکاری تعمیرات میں کمیشن کی لعنت سے کیسے چھٹکارہ پایا جائے اور سڑکوں‘ پلوں اور دیگر تعمیرات میں کوالٹی کنٹرول کیسے یقینی بنایا جائے۔اس کے لئے بلڈنگ کنٹرول اتھارٹیز کو کس طرح قانون کے تحت لایا جائے اور غیر قانونی تعمیرات اور پانی کے قدرتی راستوں کو روکنے کی اجازت دینے والوں کو کیا سزا دی جائے۔ان سزائوں کو مقرر کرتے وقت ہم چین اور دوسرے ممالک کے تجربات سے بھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔پاکستان کو غیر ملکی قرضوں اور IMFسے نجات حاصل کرنے کے لئے بھی کسی دیرپا منصوبے کی ضرورت ہے۔اگر اسی رفتار سے قرض لیتے رہے اور غیر منافع بخش منصوبوں میں لگاتے رہے تو وقت دور نہیں جب ہمارا سارا بجٹ سود ادا کرنے میں خرچ ہو جائے گا۔آج وزیر اعظم نے فرمایا ہے کہ انہیں چھینک مارنے کے لئے بھی IMFسے پوچھنا پڑتا ہے۔وزیر اعظم خوب جانتے ہیں کہ یہ نوبت کیوں آئی ہے۔تشویش کی بات یہ ہے کہ ہم اب بھی اپنا راستہ بدلنے پر تیار نہیں ہیں۔اللہ تعالیٰ بھی ان قوموں کی حالت نہیں بدلتا جو خود اپنی حالت نہ بدلنا چاہیں خدا کرے کہ یہ فلسفہ ہماری سیاسی قیادت کو سمجھ آ جائے اس سے پہلے کہ ایک اور سیلاب ہمیں خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے جائے۔