حماد اظہرکی وزارتی ترقی غالباً بلکہ تقریباً یقینا دنیا کی سب سے زیادہ مختصر المیعاد ترقی ثابت ہوئی شعلۂ مستعجل کی اصطلاح تو سنی تھی لیکن اس کی بہرحال عمر ہوتی ہے یعنی عرصہ حیات ۔اعلان ہوا کہ انہیں وزیر ریونیو بنا دیا گیا ہے۔ یہ محکمہ حفیظ شیخ کے پاس تھا۔ اب انہیں وزیر اکنامک افیئرز بنا دیا گیا ہے۔ ٭٭٭٭٭ حماد میاں کے معاملے سے میاں اظہر یاد آ گئے۔ موصوف کو پرویز مشرف ‘ مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر نے وزیر اعظم بنانے کے وعدے پر مسلم لیگ ن سے توڑا۔ انہوں نے کچھ اور ارکان توڑے جن میں برادران گجرات پہلے سے پکے ہوئے پھل کی طرح ٹوٹنے کے منتظر تھے اور اپنی مسلم لیگ بنا لی۔ پھر وزارت عظمیٰ کا انتظار کرنے لگے۔ پاجامہ شیروانی بھی سلوا لی۔ تین صفحے کا خطاب لکھوایا اور اسے یاد بھی کیا جو انہوں نے حلف اٹھانے کے بعد قوم سے کرنا تھا۔ سہانا خواب دیکھتے دیکھتے آنکھ لگ گئی اور جب آنکھ کھلی تو ظفر اللہ جمالی وزیر اعظم بن چکے تھے اور سرکاری لیگ کے کسی بہی کھاتے میں ان کا نام تک نہ تھا۔ یعنی ان کے باب میں تو شعلہ مستعجل کی نوبت ہی نہیں آئی۔ شرقوطہ مستعجل ہونے تک بھی بات نہیں پہنچی۔ حسرت اس شعلے پہ ہے… ٭٭٭٭٭ گیلپ سروے کے مطابق عوام کی غالب اکثریت وزیر اعظم کی کارکردگی سے نالاں ہے۔ ایک تعداد نے ان کی کارکردگی کو برا قرار دیا۔دوسرے نے نہایت برا۔ ہو سکتا ہے کسی طبقے نے’’برا ترین‘‘ بھی قرار دیا ہو لیکن سروے میں اس کا ذکر نہیں۔ سچی بات ہے کہ وزیر اعظم سے زیادتی ہو رہی ہے۔ کل پرسوں کی بات ہے‘ وزیر اعظم کے اب تک حامی سمجھے جانے والے دانشور کے منہ سے اچانک نکلا کہ وزیر اعظم کی کارکردگی صفر ہے۔ دوسرے صاحب نے اصلاح کی کہ حضور صفر نہیں‘ منفی صفر ہے۔ زیادتی اس معنی میں کہ کارکردگی ہر شعبے میں دیکھی جاتی ہے‘ پھر مارکنگ کی جاتی ہے اور ایسا تو ہو نہیں سکتا کہ ایک شعبہ بھی ایسا نہ ہو جہاں کارکردگی نہ ہوئی ہو۔ایک کلاسیکل مثال اس امتحانی امیدوار کی ہے جس نے اپنا امتحانی پرچہ اول سے آخر تک خالی چھوڑ دیا تھا اور پھر یقین کر بیٹھا تھا کہ رزلٹ میں انڈا آئے گالیکن نتیجہ آیا تو اسے حیرت ہوئی کہ ممتحن نے اسے صفائی کے پانچ نمبر دیے تھے۔ کارکردگی کو برا نہایت برا یا برا ترین قرار دینے والے یاد رکھیں‘ پروٹوکول لینا بھی ایک قسم کی کارکردگی ہے۔ جس روز یہ سروے آیا‘ اسی روز ٹی وی پر وہ فوٹیج بھی چلی جو وزیر اعظم کے دورہ کراچی کے موقع پر بنائی گئی تھی۔ایک شہری جو بہت جلدی میں تھا اور روک لئے جانے پر بھنایا ہوا تھا۔ غصے میں کچھ بڑ بڑا رہا تھا۔ پولیس والا اسے سمجھا رہا تھا۔ شاید کچھ اس قسم کی بات کر رہا ہو گا کہ تم آگے نہیں جا سکتے۔دو گھنٹے تک شہریوں کا آنا جانا منع ہے۔ ٭٭٭٭٭ سچ پوچھئے تو اس معاملے میں وزیر اعظم حسن کارکردگی کی بدولت تمام سابقہ وزرائے اعظم‘ صدور ‘ گورنر جنرل اور وائسرائے حضرات پر بازی لے چکے ہیں۔ ہر پروازچارٹرڈ ‘ ہرقافلہ درجنوں لگژری چمچماتی گاڑیوں سے بھر پور‘ ہٹو بچو کی مغل شاہی صدائیں ‘بند راستے ‘ہر چوک پر چوکی‘ ہر نکر پر ناکہ۔ کہا جاتا ہے کہ پی ٹی آئی اگلا الیکشن اسی حسن کارکردگی پر لڑے گی ٭٭٭٭٭ وزیر اعظم کا یہ معاملہ ہے تو صوبائی حکومتیں حسن کارکردگی کے اس صیغے میں پیچھے کیوں رہیں۔ پچھلے دنوں خبر تھی کہ پنجاب کے وزراء کے لئے نئی گاڑیاں خریدی جا رہی ہیں۔ وزراء پھر ترجمان‘ مشیر‘ معاون ‘ کمیٹی چیئرمین الگ سے۔ سبحان اللہ ضرب ماشاء اللہ۔ پرانی گاڑیاں کہاں جائیں گی۔ یہ معلوم نہیں ہے۔ اب خبر آئی ہے کہ پختونخواہ کی کابینہ کے لئے جن گاڑیوں کا آرڈر دیا گیا تھا۔ ان کی آمد کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے اور سب سے پہلی گاڑی شوکت یوسف زئی کی آئی ہے ‘جس کی مالیت 80لاکھ روپے ہے۔ حماد اظہر کے پاس تفصیل تو ہو گی کہ ہمارا ’’امپورٹ بل‘‘ اس سال کتنے کا بنا ہو گا؟ لوگ تو اعتراض کرنے کی بیماری کے بیمار ہیں‘ اعتراض کئے بغیر کہاں رہیں گے لیکن انہیں بات کو سمجھنا چاہیے۔ معاملہ نئی نکور تبدیلی کا ہے اور نئی نکور تبدیلی پرانی گاڑیوں میں تو آنے سے رہی۔ ٭٭٭٭٭ ماہر اقتصادیات حفیظ پاشا نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف کے تخمینے کے برعکس کہ مہنگائی بڑھنے کی شرح 13فیصد ہو گی۔اصل سچائی یہ ہے کہ یہ شرح 15سے 16فیصد کے درمیان ہو گی۔ یعنی آئی ایم ایف جو یہ کہہ رہا تھا کہ عوام کے تن بدن پر صرف کچھا بنیان رہ جائے گی‘ وہ غلط کہہ رہا تھا۔ تبدیل سرکار اصل میں عوام کو کچھا بنیان سے بھی بے نیاز کر دے گی۔ لوگ سائیں لوک بن کر سڑکوں پر گھوما کریں گے۔