دنیا بہت تیزی سے تبدیل ہوگئی ہے ا وردفاعِ وطن کے تقاضے بھی۔ اب برّی‘ بحری‘ اورفضائی افواج کے ساتھ ساتھ سائبر فوج کی بھی ضرورت ہے۔ کچھ برس پہلے تک معاشروں اور قوموں کی سلامتی کا تصوّر یہ تھا کہ انکی علاقائی حدود کی سا لمیت برقرار رہے‘ کوئی بیرونی طاقت انکی علاقائی حدود کو پامال نہ کرے۔ کسی حد تک معاشی استحکام بھی دفاع کا ایک ستون تھا۔ لیکن کمپیوٹر‘ انٹرنیٹ ‘ آپٹیکل فائبر‘سیٹلائیٹ ‘ اسمارٹ فون‘ روبوٹس‘ مصنوعی ذہانت‘ الگورتھم‘ انٹرنیٹ آف تھنگز(آئی او ٹی) کی ایجادات نے سلامتی اوراقتدارِ اعلیٰ کے تصوّرا ت تبدیل کردیے ہیں۔ اب کسی قوم کے دفاع میں زمینی‘ بحری اور فضائی حدود کے تحفظ کے ساتھ ساتھ اسکی سائبر حدود کی سلامتی بھی شامل ہوگئی ہے۔ سائبر حملوں کے ذریعے بھی کسی قوم کی خود مختاری کوکمزور بنایا جاسکتا ہے۔ دنیا میںسائنس اور ٹیکنالوجی میںاتنی تیز رفتاری سے ترقی ہورہی ہے کہ ہر شعبۂ زندگی ایک انقلاب کی لپیٹ میں آچکا ہے۔ دفتری کام کاج کاغذوں کی بجائے ڈیجیٹل آلات میں رقم کیا جاتا ہے۔ خط و کتابت ‘ پیغام رسانی ای میل اوروٹس ایپ ایسی آن لائن ایپلی کیشنز کے ذریعے کی جاتی ہے۔ بینکوں کی آن لائن ترسیلات کا چلن بڑھ گیاہے۔ الیکٹرانک کامرس فروغ پذیر ہے۔کورونا وبا کے باعث آن لائن تعلیم وتدریس پہلے سے زیادہ مروّج ہوگئی ہے۔ علاج معالجہ میں آن لائن خدمات میّسر ہیں۔ تفریح کے ذرائع آن لائن پلیٹ فارم پر دستیاب اور مقبول ہیں۔ غرض‘ جسمانی‘ فزیکل دنیا کی جگہ سائبر دنیا غالب ہوتی جارہی ہے۔تیز رفتار چوتھی جنریشن کے انٹرنیٹ کے بعد پانچویں جنریشن (فائیو۔جی)کی آمد آمد ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ان تمام ایجادات میں پاکستان کا حصّہ صفر ہے۔ ہم دوسرے ملکوں کی بنائی ٹیکنالوجی اور الیکٹرانک‘ڈیجیٹل مصنوعات استعمال کرتے ہیں۔ غیر ملکی کمپنیوں کے رحم و کرم پر ہیں۔ ہم اپنا مال خرچ کرکے نت نئی چیزیں استعمال کرنا چاہتے ہیں لیکن بنانا نہیں چاہتے۔ سائنسی دریافت اورٹیکنالوجی کی ایجاد سے پَرے رہنا چاہتے ہیں۔ اس وجہ سے ہماری سائبر سلامتی کو نسبتاً زیادہ خطرات لاحق ہیں۔ دنیا کے کئی ترقی یافتہ ممالک جیسے امریکہ‘ چین ‘ جاپان وغیرہ نے سائبر دنیا سے درپیش سلامتی کے خطرات کو پندرہ بیس برس پہلے بھانپنا شروع کردیا تھا۔انڈیا نے بھی آٹھ سال پہلے سائبر تحفظ کے لیے حکمت ِعملی ‘ قوانین‘ ضوابط اور ادارے قائم کرنا شروع کردیے تھے لیکن ہم حسب ِروایت اس کام کی اہمیت کا بروقت اندازہ نہیںلگاسکے۔ ہماری سائبر سلامتی پر حملے زور پکڑنے لگے اور سائبر دنیا میں ہونے والے جرائم نے معاشرہ کو متاثر کرنا شروع کیا تو حکومت بھی کچھ حرکت میں آئی۔ پانچ سال پہلے وفاقی حکومت نے سائبر جرائم کی روک تھام کا قانون (پری وینشن آف سائبر کرائم ایکٹ 2016) نافذ کیا ۔ وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے) اس قانون کے تحت جرائم کی تحقیقات کرکے ملزموں کو عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کرسکتا ہے۔ سائبر جرائم پر کسی حد تک پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن ایکٹ1996 بھی لاگو ہوتا ہے۔پاکستان میںسائبر جرائم کی روک تھام سے متعلق تو قانون سازی کرلی گئی لیکن سائبر سلامتی ایسے اہم عنوان کی طرف توجہ نہیںدی گئی۔ بہرحال‘ اب وفاقی حکومت نے سائبر سلامتی پر ایک پالیسی دستاویز منظور کرلی ہے جس کی بنیاد پر قوانین اور ادارے تشکیل دیے جائیں گے۔ یہ ایک مثبت پیش رفت ہے۔ سائبر پالیسی کا اجر اِسلیے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ چند ہفتے پہلے یہ انکشاف ہُوا کہ بھارتی حکومت نے اسرائیلی کمپنی کا تیار کردہ’پیگاسس ‘ نامی جاسوسی سافٹ وئیرنامی خریدا اور اس سے اور لوگوں کے ساتھ ساتھ وزیراعظم عمران خان (جب وہ اپوزیشن لیڈر تھے)کے تین موبائل ٹیلی فون ہیک کرنے کی کوشش کی۔پاکستانی ادارے تحقیقات کررہے ہیں کہ کیا عمران خان کے ٹیلی فون واقعی ہیک ہوئے تھے یا یہ کوشش ناکام ہوگئی تھی۔ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بات کا شاید کبھی درست علم نہ ہوسکے کیونکہ سافٹ وئیر کی نوعیت ایسی ہے۔ یہ بہت پیچیدہ اور اعلیٰ ترقی یافتہ جاسوسی سافٹ وئیر پانچ برس پہلے بنایا گیا تھا جو سَروَر کے ذریعے بھی اسمارٹ فون میں داخل ہوکر براجمان ہوجاتا ہے اور آپکے فون میں ہونے والی تمام سرگرمیاں اور معلومات جاسوسی کرنے والے کو منتقل کرتا رہتا ہے۔ اسکے علاوہ بھی کئی جاسوسی سافٹ وئیر ہونگے جنکا ابھی تک علم ہی نہیں ہوسکا۔ظاہر ہے کہ دنیا پر چودھراہٹ قائم کرنے کے خواہاں بڑے ممالک اور بھارت ہماری افواج کی معلومات چوری کرنے کیلیے ایسے سافٹ وئیر استعمال کرتے ہونگے تاکہ انہیں ہمارے سلامتی کے اداروں کی حکمت عملی اور ان کے تمام منصوبوں کا پہلے سے علم ہوجائے۔ ہمارے ریٹائرڈ فوجی افسران ‘ سفارت کار اور دانشورسماجی میڈیا کی ایپلی کیشنز کے ذریعے قومی سلامتی کے معاملات پر بحث مباحثہ کرتے رہتے ہیں۔ یہ گفتگو اگر دشمن کی دسترس میںہو توہمارے لیے بہت سی مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔ اب تو وفاقی کابینہ کی سمریاں بھی وزیروں ‘ مشیروں اور متعلقہ سرکاری افسروں کوکاغذوں کی بجائے آن لائن بھیجی جاتی ہیں جس مقصد کیلیے انہیں ٹیبلٹ فراہم کیے گئے ہیں۔ اگر وہ بھی جاسوسی سافٹ وئیر کی پہنچ میں ہوں تو ملک کی کوئی بھی چیز غیرملکیوں کی دسترس میں آسکتی ہے۔ ہمارا کوئی قومی فیصلہ راز نہیں رہ سکتا۔ ایک بین الاقوامی ادارہ گلوبل سائبر سکیورٹی ایجنڈا (جی سی اے)چار برسوں سے ہر سال سائبر سکیورٹی انڈیکس جاری کرتا ہے۔ اس سال جون میں جاری کیے گئے انڈیکس کے مطابق بھارت کی سائبر سلامتی پاکستان کی نسبت بہت زیادہ مضبوط ہے۔ بھارت کا دنیا کے ممالک میںدسواں درجہ ہے جبکہ پاکستان کا 79 واں۔یہ ایک تشویش ناک بات ہے۔ بھارت کے موقر انگریزی اخبار’ دی ہندو‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارت کی سائبر انٹیلی جنس زیادہ تر پاکستان پر مرکوز ہے۔اسکابڑا ہدف پاکستان ہے۔ سائبر سلامتی کے معاملہ میں ہم بہت دیرسے جاگے ہیں۔ اب ضرورت یہ ہے کہ سائبر پالیسی جاری ہونے کے بعد اسکے تحت جو قانون سازی ہونا ہے اس میں تاخیر نہ کی جائے۔ حکومت اور اپوزیشن ملکر پارلیمان سے قوانین کے بل منظور کروائیں۔ ایک تو ڈیٹا (آن لائن معلومات)کے تحفظ کا قانون ہے اور دوسرا نجی زندگی کے تحفٖظ کا قانون۔اس پالیسی میں ایک اچھی بات یہ ہے کہ تعلیمی نصاب میں بھی سائبر سکیورٹی کا مضمون شامل کیا جائے گا۔ملک میں سائبر سلامتی کے ماہرین کی کمی ہے۔ زیادہ ماہرین تیار کرنے کیلیے حکومت نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کرے اور وظائف دے‘ اعلیٰ تعلیم کیلیے بیرون ممالک بھیجے۔ یا اعلیٰ ماہرین کو اساتذہ کے طور پر ملک میںبُلا کر یونی ورسٹیوں میں اپنے طالبعلموںکی تربیت کروائے۔ سائبرسلامتی سے متعلق قوانین کے منظور ہونے پر کمپیوٹر ایمرجنسی رسپانس ٹیم (سرٹ) کے نام سے وفاقی اور نیچے اداروں کی سطح پر تنظیمیں بنائی جائیں گی۔ ان میں باہم رابطہ قائم کیا جائے گا۔تبھی ہم سائبرسکیورٹی کی طرف بڑھنا شروع ہونگے۔ سائبر سلامتی کے ادارے فوج کی طرح ہیں۔ انکے بغیر ہم محفوظ نہیں رہ سکتے۔ ہمارے تحفظ اور سلامتی کا تقاضا ہے کہ سائبر فوج کو ترجیحی بنیادوں پرقائم کرکے پوری طرح مسلّح کیا جائے۔ مستقبل کی جنگیں میدانوںسے زیادہ سائبر دنیا میں لڑی جائیں گی۔