بات اسی زبان میں کی جاتی ہے جس میں دوسرے کو سہولت ہو۔ اس میں محبت کی آمیزش ہو تو کچھ تکلف بھی آ جاتا ہے۔ میں نے اس سے ایک تقریب میں پوچھا "The dress you wore yesterday was fine" اس نے تنگ آ کر کہا "What is the fault in it" میں نے کہا There remains no fault when you wear any thing" گویا بقول امجد اسلام امجد ’’تو جس رنگ کے کپڑے پہنے وہ موسم کا رنگ‘‘ ہر زبان کا اپنا ہی ایک لطف اور مزہ ہے۔ ایک دن جب میں نے شعر پوسٹ پر لگایا: بے تکلف ہوا تو پہلی بار اس نے اردو میں بات کی مجھ سے میرے دوست جنید اکرم نے فوراً احتجاجی فون کیا کہ یہ کیا بات ہوئی۔ ایک پنجابی کو اردو کے حق میں نہیں۔ جنید اکرم لیجنڈ فنکار سہیل احمد کا بھائی ہے اور فقیر محمد فقیر یعنی بابائے پنجابی کا نواسہ ہے۔ چنانچہ میں نے ان کا مان رکھا اور فوراً ایک نیا شعر پوسٹ پر لگایا: بھل جاناں واں انگریزی تے اردو وی جد اوہنوں پنجابی بولدے سنناواں میری میڈم شائستہ سونو ایسی ہی پنجابی بولتی ہے۔ وہ اگر پنجابی نہ بولیں تو انگریزی بولتی ہیں۔ اردو کہیں درمیان میں ہی دم توڑ جاتی ہے۔ یعنی وہ دو انتہائوں رہتی ہیں۔ پتہ نہیں میں ایسے کیوں سوچتا ہوں کہ سب زباینں ہماری ہیں۔ شاید میں ادیب ہوں اس لیے سمجھتا ہوں کہ سب زبانیں ادب کی ہیں۔ ہاں آپ اپنی مادری زبان سے پیار کریں مگر دوسری زبانوں سے نفرت نہیں۔ میں نے تو خیر اس کا عملی ثبوت دیا ہے کہ میں نے ماسٹر انگریزی میں کیا، اس زبان میں خواب بھی دیکھے مگر اس زبان کو کمپلیکس نہیں بنایا۔ میری پہلی شعری کتاب Blinking Star انگریزی میں تھی مگر میں نے چھ شعری مجموعے اپنی مادری زبان پنجابی میں دیئے۔ اردو میں تو خیر کیا کچھ کہہ دیا۔ دیکھیے اگر آپ مادر سے مادری زبان بولتے ہیں اور قوم سے قومی زبان بولتے ہیں۔ کچھ مزاج کی بھی بات ہے کہ مجھے فارسی اور سرائیکی میٹھی اور شیریں لگتی ہیں۔ ’’ول کیا کھاسو‘‘ سن کر بھوک ہی ختم ہو جاتی ہے۔ فارسی ہماری اجتماعی سائیکی کا حصہ ہے کہ ایک زمانے میں یہ اس قدر رائج تھی کہ ہمیں پنجابی صوفیا کی کتابوں کے عنوانات بھی فارسی میں ملتے ہیں۔ اس وساطت سے ہمارے پاس عجم کا بے بہا علمی اور ادبی سرمایہ آیا۔ انگریز نے ہمارے ساتھ ہاتھ کیا کہ ہمیں اپنے علمی ذخیرے سے کاٹ کر رکھ دیا۔ اردو انگریز نے ہرگز نافذ نہیں کی یہ تو مسلمانوں کے رابطے کی زبان تھی۔ لشکری زبان جو تمام زبانوں سے مل کر بنی تھی اور سب کے لیے اسے سمجھنا آسان تھا۔ اسی باعث قائداعظم نے بہتر جانا کہ سب کو اکٹھا رکھنے کے لیے اردو کا قومی زبان ہونا ضروری ہے۔ علم دریا کی طرح ہے اپنا رستہ بنا لیتا ہے۔ فارسی شعرا مثلاً سعدی و رومی کے کلام میں بھی عربی درآتی اور اسی طرح اردو میں فارسی در آتی ہے۔ یہ سب محاسن کی بات ہے۔ اضافتوں کی تہہ داری یا پھر بندش کا اختصار۔ یہ انگریزی میں بھی ہوا، تب عالمانہ فیشن یہ تھا کہ ذہین و فطین لاطینی اور یونانی زبانیں پڑھنا چاہتے تھے کہ اس میں علم کا وسیع خزانہ تھا۔ یہ الگ بات کہ انگریزی پڑھنے والے عام زندگی میں بہتر رہے کہ رابطے کی اور دفتری زبان تھی۔ چرچل نے اس پر بہت اچھا مضمون لکھا ہے کہ انگریزی پڑھنے والے جو بظاہر نالائق سمجھے جاتے تھے، عملی زندگی میں بہت اچھے رہے۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ بچے کی وراثت میں یعنی DNA میں اس کی مادری زبان آئی ہے اور وہ اپنی مادری زبان زیادہ آسانی سے سیکھ سکتا ہے مگر سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ اب اردو بولنے والی پنجابی مائوں کے بچے تو پنجابی جانتے ہی نہیں۔ وہ تو اردو سے بھی تھوڑے تھوڑے باغی ہورہے ہیں۔ اصل میں ہمارے نظام نے ستیا ناس کیا ہے۔ یہ فطری بات ہے کہ انسان ترقی اور خوشحالی کی طرف جاتا ہے۔ یا یوں کہیں کہ وہ ترغیب اور کشش کی طرف لپکتا ہے۔ جب روزگار اور نوکریاں ہی وہاں رکھی ہیں جہاں مطلوب ہی انگریزی ہے تو کیا کیا جائے۔ پھر پنجابی یا کوئی بھی علاقائی زبان کو اگر رائج کیا جائے تو کیسے۔ پہلے تو ہم بیوروکریسی اور پھر پڑھنے والے خود ہی برگشتہ ہو چکے ہیں۔ جتنے بھی پرائیویٹ سکول ہیں وہاں انگریزی ہی میڈیم ہے۔ خاص طور پر سائنس اور سوشل ایجوکیشن سب کچھ انگریزی میں ہے۔ یہ ایک ایسی حقیقت جس سے آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں۔ یہ مسابقت کا دور ہے۔ ایک زمانے میں اردو کے اکابرین نے سائنسی کتب کو اردو میں ڈھالنے کی کوشش کی تھی، وہ بھی دم توڑ گئی۔ ہم نے مان لیا کہ آپ علاقائی زبانوں کو پاکستان کی زبانیں مان لیں اور پھر انہیں پرائمری سے لاگو بھی کردیں تو اس کا سلیبس کیسے تیار ہوگا جو فی زمانہ رائج علوم کو اس میں ڈھال دے۔ خدانخواستہ میں دوسری زبانوں کے خلاف نہیں لکھ رہا۔ اگر دوسری زبانوں کو آگے لانا ہے تو اس کے لیے سنجیدگی سے کوشش کی جائے، صرف بنستی پٹکے سر پر باندھ کر اور گلے میں ڈھول ڈال کر یہ کام ہونے والا نہیں ہے۔ پنجابی ہمارے صوفیا کی زبان ہے۔ اردوبھی مسلمانوں کی زبان ہے۔ اردو کی تحریک چلانے والی فاطمہ بھی انگریزی کے خلاف زیادہ بولتی ہیں اور اردو کے حق میں کم۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس مقصد کے لیے بہت خلوص چاہیے۔ پنجابی کے لیے کوششیں ہوئی ہیں تو وہ گریٹر پنجاب کی طرف نکل جاتی ہیں۔ ہم گرمکھی یعنی گرو کی زبان کو اپناتے ہیں اور اپنی پنجابی کو شاہ مکھی یعنی شاہوں کی زبان سمجھتے ہیں۔ ہماری سمت نمائی سکھ کیوں کریں گے۔ ہمارے پیچھے ہماری اک تہذیب ہے اور نظریہ ہے۔ آپ دیکھتے نہیں کہ ہندو اردو سے خائف ہے۔ اردو وہ زنجیر ہے جو کروڑوں مسلمانوں کو جوڑتی ہے۔ باقی مقامی زبانیں اپنی اپنی خوشبو رکھتی ہیں۔ اردو ایک اجتماعی فضا پیدا کرتی ہے جس میں سب سہولت سے سانس لے سکتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کی ساری زبانوں کی ثقافت بہت رچ ہے مگر ایک سطح پر ہمیں عالمی مقابلے کا سامنا ہے۔ ایسے ہی جیسے اہل مغرب نے ہمارے البیرونی اور بو علی سینا ایسے لوگوں کو لے کر آگے بڑھے، ہم بھی ان کی ایجادات و دریافت سے مستفید ہو سکتے ہیں۔ جدید علم کو اپنانے میں کیا حرج ہے۔آخر میں ایک شعر ؎ آنکھ میں روشن چاند ستارا دل میں سبز امنگ آئو چلیں ہم پرچم لیکر اک دوجے کے سنگ