سحر ہوتی ہے تو سحر انگیز منظر ہوتا ہے۔ پرندوں کی چہکار سے صبح جاگتی ہے شبنم کے موتی ادھر ادھرکے پودوں پر اور گھاس پر جگمگانے لگتے ہیں۔ زندگی سے بھر پور تازہ ہوا‘ پھولوں کو چھوتی ہوئی مشام جاں کو آن مہکاتی ہے۔ پھر تتلیوں کا گلگشت اور بھنوروں کا پھولوں پر منڈلانا‘شہد کی مکھیوں کا گلوں کے رس اٹھانا اور سب سے بڑھ کر تمازت بڑھاتی کرنیں‘ جسم کو ٹکور کرنے والی سرما کی دھوپ۔ مگر یہ سب کچھ بشر کے وجود کے ساتھ ہی شہادت پاتے ہیں بلکہ ہر موسم ہی اس کے آنے جانے ہی سے ہے۔یہ کائنات تو شاید شہود ڈھونڈتی ہے۔ پہلے پھولوں سے لدھے ہوئے املتاس کے پیڑوں یا مہکتے ہوئے سرسوں کے پھول فطرت کی گواہی پیش کرتے ہیں۔ مہکتی ہوئی دل آویز صبح کا ذکر میں نے اس لئے کیا کہ مجھے ایک شام یاد آ گئی جب میرا کزن توصیف احمد قریشی اور دوست تنویر حسین جو اب ڈاکٹر بھی ہے‘ میرے ساتھ تھے۔ بچے ‘جوان‘ بوڑھے اور عورتیں باغ جناح کی رونق کو دوبالا کر رہے تھے۔ ایک عجب دلکش منظر تھا۔ بچے تتلیوں کے پیچھے بھاگتے تو مائیں اپنے بچوں کو پکڑنے کے لئے ان کے پیچھے ۔خوانچہ فروشوں کی آوازیں سب کو متوجہ کر رہی تھیںہم اصل میں قائد اعظم لائبریری سے ذرا سستانے کے لئے نکلے تھے یہ مشق سخن کے دن تھے کیفیات کو الفاظ میں ڈھلتے دیر نہیں لگتی تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے شام کے سائے دراز ہونے لگے۔ دھوپ سمٹنے لگی میں نے تنویر حسین سے کہا دیکھو یار دن کی جدائی کی ساعتیں ۔خود بخود یہ منظر نظم ہونے لگا ہے اس شعری اظہار کی آخری سطور مجھے اب بھی یاد ہیں: سامنے کے بنچوں پر زرد زرد دھوپ ہے یہ بھی تو جدائی کا جاگتا سا روپ ہے دیکھتے ہی دیکھتے آئی شام پیاس میں تھا جناح باغ بھی ماتمی لباس میں سارے رنگ مر گئے بولنے کی آس میں آپ حیران ہونگے کہ یہ سب کچھ لکھنے کا جواز کیا یعنی کچھ پس تحریر یا باعث تحریر ہی ہو گا۔جو یقینا میں کالم لکھنے بیٹھا تو میرے سامنے فروری تازہ بیاض آ گیا جس کی پیشانی پر غالب ‘ منیر نیازی‘ فخر الدین بلے اور صدیقہ بیگم کی تصاویر چھپی ہوئی ہیں۔ میں چاروں کو اچھی طرح جانتا ہوں۔ آپ حیران ہونگے کہ غالب کو کس طرح‘ وہ اس طرح کہ میرے محبوب شاعر منیر نیازی کہا کرتے تھے یار سعد!اصل میں میرے ہمعصر ولی دکنی ‘ میر اور غالب ہیں۔ میں سمجھتا ہوں اس لحاظ سے کم اپنے کلاسکس کے ساتھ یہ جی رہے ہوتے ہیں۔ ان چاروں تصاویر کو دیکھ کر اور منیر نیازی کو بطور خاص سامنے پا کر رومانٹک ہو گیا کہ ہائے ہائے یہ کیا لوگ تھے: پھول خوشبو کے نشے میں بکھر جاتے ہیں لوگ پہچان بناتے ہوئے مر جاتے ہیں عمران منظور نے اچھا کیا کہ ان سب کو یاد کیا اور ان پر مضامین لکھوائے۔ وہ بہت محنت سے ادب کے اس چراغ کو روشن رکھے ہوئے ہیں جسے خالد احمد نے روشن کیا تھا اور یہ ثابت ہوا کہ اس ماہنامہ نے شاعروں کو شہرت بھی دی اور پہچان بھی کہ ان کی تصاویر بھی ان کی تخلیق کے ساتھ شائع ہوتی ہیں۔ یقینا لکھنے والے اپنی تصویر کا پاس رکھتے ہوئے تخلیق بھی اچھی ہی بھجواتے ہیں۔ اہتمام کے ساتھ حمدو نعت کے کشادہ حصے بھی اس کا حصہ ہوتے ہیں۔ یوں تو اس شمارے میں بہت کچھ پڑھنے والا ہے مگر جمیل احمد عدیل کا مضمون ڈاکٹر خورشید رضوی ایک اجمالی جائزہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ ایک تو خورشید رضوی کی تخلیقی اور علمی شخصیت اور اوپر سے جمیل احمد عدیل کی طرحدار اور خوبصورت زبان‘ لطف ہی تو آ گیا۔ انہوں نے ڈاکٹر صاحب کی ’’بازدید‘‘ سے دو تین جملے لکھے ہیں‘ آپ بھی پڑھیے اور سر دھنیے‘ فن کار کے سر پر لٹکی ہوئی تلوار ہی اس کے فنی احکامات کی ضامن ہوتی ہے۔ جب یہ تلوار ہٹا لی جائے تو عافیت کا زنگ فنی جوہر کو چاٹ لیتا ہے۔ اس بات سے پہلے بھی ایک بات انہوں نے کہی ’’ لطافت کی بنیاد کثافت پر ہے اور کمال کی اساس مکروہات زمانہ پر‘‘ آئینہ بھی تو تبھی بنتا ہے پردہ زنگاری پر ہی سبزہ لہکتا ہے۔ سچ کہا تھا رضوی صاحب نے: میں عمیق تھا کہ پلا ہوا تھا سکوت کا یہ جو لوگ محو کلام تھے مجھے کھا گئے ایک اور ماہنامہ ادب دوست میرے سامنے دھرا ہے جسے سعید اقبال سعدی اور ارشد نعیم کی کاوشوں کا نتیجہ کہا جا سکتا ہے۔ کمال یہ ہوا کہ اے جی جوش صاحب کے بیٹے خالد تاج کے اپنے والد کی اس نشانی کو مٹنے نہیں دیا۔ ارشد نعیم خود بھی ایک سنجیدہ قلم کار اور خوبصورت شاعر ہے وہ اچھے اچھے مضامین لکھوا لیتا ہے۔ شاعری بھی خوب ہوتی ہے میرے سامنے آفتاب اقبال شمیم کی غزل آئی تو میں کتنی دیر تک اس غزل کے سحر میں رہا۔ میں تو سمجھتا تھا کہ وہ نظم ہی اعلیٰ درجے کی کہتے ہیں مگر کیا غزل کہی انہوں نے: جب چاہا خود کو شادیانا شاد کر لیا اپنے لئے فریب سا ایجاد کر لیا کیا سوچنا کہ شوق کا انجام کیا ہوا جب اختیار پیشۂ فرہاد کر لیا آیا نیا شعور نئی الجھنوں کے ساتھ سمجھے تھے ہم کہ ذہن کو آزاد کر لیا تو میرے پیارے قارئین!؟ میں نے سوچا کہ ذرا سا منہ کا ذائقہ بدل لیا جائے۔ آپ بھی سیاست پر پڑھ پڑھ کر تھک جاتے ہیں اور ہم لکھ لکھ کر اکتا جاتے ہیں۔ میں روٹین میں بھی اخبارات اور کتب کے درمیان کبھی کبھی میاں محمد کو سنتا ہوں تو مجھے بہت اچھا لگتا ہے۔ شاید یہ میرا ذاتی خیال ہو کہ میاں محمد جیسا جدید صوفی شاعر اور کوئی نہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ہر صوفی شاعر اپنی اپنی جگہ اپنے وصف خاص میں یکتا ہے ‘جیسے کہ وارث شاہ کلاسک ہیں کہ جس مضمون کو انہوں نے ہاتھ ڈال دیا‘ اس کے سارے امکانات ختم کر دیے۔ بلھے شاہ اپنے انداز میں دلوں کو چھوتے ہیں۔ بس میاں محمد تو میاں محمد ہیں: سیں سیں میل سنگت دے ویکھے تے تھاں تھاں وتھاں پیئیاں جنہاں بناں اک پل نہیں سی لنگدا اوہ شکلاں یاد نہ رہیاں