مٹاتے ہیں جو وہ ہم کو، سو اپنا کام کرتے ہیں مجھے حیرت تو اْن پہ ہے، جو اس مٹنے پہ مرتے ہیں کلام ِپاک میں ہے کہ انسان کے اپنے اعضا و جوارح، اس کے بھلے برے، سب اعمال کی گواہی دیں گے۔ ہمارے بعض ہم قوم اور ہم مذہب بھی، گواہیاں دے رہے ہیں، مگر افسوس کہ ہمارے خلاف اور سراسر جھوٹی! پراپیگنڈا اور لابنگ، اْس ففتھ جنریشن وار کا لازمی جزو ہیں، جو دنیا پر مسلط ہو چکی ہے۔ سچائی، اصول پسندی اور راست معاملگی، یہ سب قصے کہانیاں بنتی جا رہی ہیں۔ افسوس کہ ہم میں کچھ ایسے "نابغے" پیدا ہو کر رہے، جنہیں ساری خوبیاں مغرب اور ساری خرابیاں مسلمانوں میں نظر آتی ہیں۔ ان کا افسوس اور ہمارا المیہ، بقول ِمولانا ظفر علی خاں، یہ ہے کہ ع کیوں نہ یہ ولیم کے یا ولسن کے گھر پیدا ہوئے ان کے دلوں اور دماغوں کے ساتھ ساتھ، زبانیں بے قابو ہو چکی ہیں۔ ایک جنگ وہ ہے، جس میں دْرید و بْرید و شکست و بہ بست یلان را سر و سینہ و پا و دست اس جنگ کے وار، دیکھے جا سکتے ہیں، روکنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔ لیکن یہاں ایک جنگ ایسی درپیش ہے، جو ایک عالَم کو صمْْ، بکمْْ، عمیْْ بنائے دے رہی ہے۔ روبوٹوں کے مانند، یہ آنکھیں رکھتے ہیں، مگر بصیرت سے خالی ہیں۔ کان رکھتے ہیں، سْنتے ہیں لیکن حق کے سوا۔ حسن ِظن سے کام لے کر کہا جا سکتا ہے کہ دنیاداری نے، ان کی آنکھیں چندھیا دیں، کان بہرے کر دیے۔ دلوں پر مْہریں اور زبانوں کو لونی لگا دی۔ نقصان اپنی قوم کا کرتے ہیں اور اس پر فخر بھی کرتے ہیں۔ یہ طفل ِناداں، غریق ِغفلت، ہوائے ذلت میں تَن رہے ہیں خبر نہیں، نظر نہیں ہے، بنائے جاتے ہیں، بَن رہے ہیں سوء ِظن کہتا ہے کہ یہ سب پاپی پیٹ کی خاطر ہو رہا ہے۔ کیا یہ واقف نہیں ہیں کہ مغربی میڈیا کے لوگ اور اس کے مبصرین کی کاوشیں، مسلمانوں کی اصلاح کے لیے نہیں ہیں۔ انہیں اصل کَد اسلام سے ہے اور اسی کی "اصلاح" چاہتے ہیں۔ یہاں حال پہلے ہی وہ ہے کہ جان سپرد ِڈاکٹر، روح سپرد ِڈارون عقل سپرد ِماسٹر، مال سپرد ِآں جناب! امریکن کانگرس کی مسلمان رکن الہان عْمر کا ذکر پہلے بھی ہو چکا ہے۔ ان کے خلاف، ایک قرارداد لانے کی کوششیں، ان کی اپنی جماعت کر رہی ہے۔ الہان میں تین "خرابیاں" ایسی ہیں، جو آڑے آتی رہیں گی۔ عورت، افریقی اور مسلمان! سدا سے دستور یہ چلا آیا ہے کہ مکالمے اور مقابلے میں، کم از کم دو فریق ہوتے ہیں۔ یہ عجیب دور ہے، جس میں دونوں جانب جھوٹے ہیں۔ ایک طرف سیاہ اور دوسری طرف سفید جھوٹ! سچائی الگ کھڑی سر پیٹ رہی ہے۔ الہان کے حق میں دو آوازیں اٹھی تو ہیں، لیکن دیکھیے کہاں تک ساتھ دیتی ہیں۔عربی کا مشہور شاعر متنبی، ایک زمانے کے بعد اپنے قبیلے میں جب واپس آیا تو اس کی بہت آئو بھگت ہوئی۔ متنبی نے آبدیدہ ہو کر کہا کہ کبرنی موت الکبریٰ۔ بڑوں کی موت نے، بڑا ہمیں بنا دیا! یہ وہ زمانہ ہے کہ بڑوں کی جگہ بیٹھنے والے تو کجا، وہ نشستیں ہی ملیا میٹ کر دی گئی ہیں! ایسا ایسا "قد آور" بونا پیدا ہو رہا ہے کہ خدا کی پناہ! یہ ہونا ہی تھا۔ اس دنیا کو اگر ختم ہونا ہے، اور اس کا ختم ہونا برحق ہے، تو پھر یہ ہونا ہی تھا! آنکھیں جنہیں دیکھنا چاہتیں، وہ سب چہرے، خیال و خواب ہو چکے ہیں! دو چار کا رونا کیا روئیے۔ ایک زمانہ، ایک عہد ہی فنا کے گھاٹ اتر گیا! ہم ہزار تاویلیں کرتے رہیں لیکن یہ ہونا ہی تھا۔ اور ع موت کے جلووں کے آگے، ناز ِمنطق کچھ نہیں ٭٭٭٭٭ ترقی پسندی یا ماضی فراموشی؟ خواجہ زکریا صاحب کہا کرتے ہیں کہ ترقی پسندوں نے، لگتا ہے کہ کسی اجلاس میں طے کر لیا تھا کہ تین شاعروں کو، تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ مولانا حالی، اکبر الٰہ آبادی اور علامہ اقبال! اس میں کوئی شک نہیں کہ ان تینوں کے خلاف، نکھٹو شاعروں اور پھْسینڈے نقادوں نے، بڑا زور لگایا ہے۔ استاذالاساتذہ پروفیسر رشید احمد صدیقی نے حالی کو ماضی، اکبر کو حال اور اقبال کو مستقبل کا شاعر کہا تھا۔ حالی کے صرف مسدس کو لیا جائے، اکبر کے صرف حالات ِحاضرہ پر تبصرے دیکھے جائیں اور اقبال کے صرف "شاہین" پر نظر کی جائے، تو یہ بات درست بھی ہے۔ لیکن ان تینوں کا میدان، اس سے بہت زیادہ وسیع رہا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ترقی پسند، پھر ان سے اتنی خار کیوں کھاتے ہیں؟ خود ترقی پسندی کی تعریف، ایک فقرے میں یوں کی جا سکتی ہے۔ "جو میرا جی چاہے گا، اور جیسے چاہے گا، کہوں گا"۔ زبان "الفاظ کی کوئی اہمیت نہیں، اصل چیز معنی ہیں"۔ انداز "میں اسلوب ساز ہوں!"۔ خیال "یہ بطن الشاعر میں گھْٹا رہ بھی جائے تو مضائقہ نہیں۔ دیکھنے کی چیز وہ "عظمت" ہے، جسے شاعر نے چھونے کی کوشش کی ہے!"۔ یہ بات صحیح ہے کہ اردو شاعری، روایتی اور گھِسے پٹے مضامین میں پھنسی ہوئی تھی۔ اس میں پہلی "بدعت"، نظیر اکبر آبادی نے کی۔ لیکن چند مبتذل شعروں نے، ان کے پورے کلام پر فحش کی مہر لگوا دی۔ ان کے بعد مومن اور پھر غالب نے، معنی آفرینی کی طرف توجہ کی۔ طبعاً یہ دونوں مشکل پسند تھے، سو حقائق کی دنیا میں، ان کا بھی گزر نہیں ہوا۔ ایسے میں اکبر الٰہ آبادی نمودار ہوئے۔ اکبر پہلے شاعر تھے، جنہوں نے تصوف کے سوا، فلسفیانہ مضامین اور حالات ِحاضرہ کو بھی نظم کیا۔ اس ایک خدمت سے، کہنا چاہیے کہ وہ پہلے اور غالباً سب سے بڑے ترقی پسند ہی نہیں، اردو شاعری کے سب سے بڑے محسن بھی ثابت ہوتے ہیں! مگر ترقی پسندوں کے نزدیک، اکبر کی صرف وہ شاعری، جو انگریز دشمنی پر مشتمل ہے، لائق ِتحسین ہے۔ باقی سب کچھ ماضی پرستی ہے۔ خیر، اکبر کی شاعری اتنی زوردار ہے کہ پروپیگنڈے کا ہتھیار، ان کے خلاف زیادہ کارگر نہیں ہو پایا۔ علامہ اقبال کے معاملے میں، مشکل یہ آ پڑی کہ ایک عدد مْلک کی بِنا، ان کے افکار نے ڈالی تھی۔ ان کو بھی زہر کے گھونٹ بھر کر تسلیم کرنا ہی پڑا۔ پیچھے رہ گئے مولانا حالی، سو ان کا سب سے بڑا جرم، مسدس لکھنا قرار پایا۔ مسدس سے پہلے کی شاعری کو، رد اس لیے نہیں کیا جا سکتا تھا کہ انہیں غالب جیسے استاد کی سند مل چکی تھی۔ اس کا حل یہ نکالا گیا کہ اس کلام کی تقسیم، دور ِاول اور دور ِآخر کہہ کے کر دی گئی۔ خواجہ زکریا صاحب نے، اپنے مرتب کردہ کلیات ِحالی میں قدیم اور جدید کی تقسیم کو، ناقص ثابت کر دیا ہے۔