1969ء اور 1977ء کا تلخ تجربہ قوم کو بھولا نہیں مگر ہمارے اہل مذہب و سیاست اسے دہرانے پر تل گئے ہیں۔ آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو کو چھوڑ کرپی ڈی ایم کے سارے خوردو کلاں عمران خان کی حکومت کو گرانے اور دفاع وطن کے ذمہ دار اداروں فوج و آئی ایس آئی کے سربراہوں کو نیچا دکھانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں اور لیبل اس سعی نامشکور پر’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا لگا رکھا ہے۔ صرف پاکستانی ہی نہیں تیسری دنیا کے دیگر ممالک میں بھی سیاسی تحریکوں کو مفاد پرست عناصر اور طاقتور ممالک ہائی جیک کرتے اور اپنے مقاصد کی تکمیل کا ذریعہ بناتے ہیں عراق‘ لیبیا‘ تیونس اور مصر میں جو کچھ ہوا وہ کسی سے مخفی نہیں‘ ’’عرب بہار‘‘ کے مجاہدوں کومعاشی و سیاسی استحکام اور بُری بھلی خودمختاری گنوانے کے بعد اندازہ ہوا کہ ع خواب تھا جو کچھ کہ دیکھاجو سنا افسانہ تھا شام کا بشار الاسد ایران اور روس کی کھلی حمایت کے سبب سخت جاں نکلا باقی ممالک حکمرانوں کی تبدیلی کے باوجود کھنڈرات میں تبدیل ہو گئے‘ عرب بہار خزاں میں بدل گئی اور التحریر سکوائر کے فاتحین تاریخ کے سب سے بڑے ابتلا سے گزرے‘ جمال عبدالناصر نے جو کسر چھوڑی تھی وہ السیسی نے پوری کر دی مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چُگ گئیں کھیت۔ 1977ء میں تو سیاستدانوں نے ایک دوسرے کو تباہ کرنے کے شوق میں صرف جمہوریت سے ہاتھ دھوئے‘ گیارہ سالہ فوجی آمریت کا مزہ چکھا‘1969ء میں مگر ایوب خان کی نفرت میں اہل سیاست نے بھارت کے آلہ کار مصدقہ غدار کو گلے سے لگا لیا۔ اگرتلہ سازش کیس کو بعدازاں شیخ مجیب الرحمن اور اس کے قریبی ساتھیوں نے درست تسلیم کیا‘ غیر جانبدار مورخین نے اندرا مجیب گٹھ جوڑ اور مشرقی پاکستان میں بھارتی ریشہ دوانیوں کا پردہ چاک کیا مگر 1969ء میں ایوب خان کی نفرت نے ہمارے داناو بینا سیاستدانوں کی آنکھیں بند کر رکھی تھیں اور انہیں اگرتلہ سازش کیس بھی سیاستدانوں کو بدنام کرنے کی سازش نظر آتا تھا‘ گزشتہ روز 92نیوز کے پروگرام ’’مقابل‘‘ میں برادرم ہارون الرشید نے ایک عالمی منصوبے کا انکشاف کیا جس کا مقصد عمران خان کی حکومت گرا کر ایک ٹیکنو کریٹ حکومت کے قیام کی راہ ہموار کرنا ہے جو برسر اقتدار آ کر پاک چین تعلقات میں رخنہ اندازی‘ بھارت کی علاقائی بالادستی اور امریکی خواہش کے مطابق اسرائیل سے سفارتی تعلقات کے قیام کا راستہ ہموار کرے۔دو اڑھائی ماہ قبل جب حضرت مولانا اور میاں نواز شریف نے اچانک عمران خان کے بجائے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور آئی ایس آئی چیف جنرل فیض حمید کو تختہ مشق بنایا تو لوگ پہلے حیران پھر پریشان ہوئے۔ مولانا کے بارے میں عمومی تاثر یہ ہے کہ وہ کچی گولیاں نہیں کھیلتے‘ ان کے قریبی ساتھی ان دنوں مولانا کی خود اعتمادی کا تذکرہ کثرت سے کرتے ہیں‘ میاں نواز شریف کائیاں‘ موقع شناس اورسود و زیاں کا پورا حساب رکھنے کے عادی سیاستدان ہیں‘ مبینہ عالمی منصوبے‘ پی ڈی ایم کی اچانک تشکیل اور عمران خان کے ساتھ فوجی قیادت کو مشق ستم بنانے کی تازہ کوششوں کو اگر ایک دوسرے سے ملا کر دیکھا اور پرکھا جائے اور ڈانڈے بھارت و افغانستان کی صورت حال سے ملائے جائیں تو نقشہ یہ بنتا ہے کہ نیو کلیئر اسلامی جمہوریہ پاکستان نے گزشتہ دو اڑھائی سال سے چین کے ساتھ مل کر جس آزاد روی کا مظاہرہ کیا اور دنیا کو باور کرایا کہ ہم صرف امریکہ ہی نہیں اپنے دیرینہ دوستوں کے بھی محتاج نہیں‘ باعزت و باوقار زندگی بسر کرنے کے خواہش مند ہیں اور اپنی آزادی و خود مختاری پر مزید سمجھوتہ کرنا مشکل ہے تو یہ طرز عمل امریکہ کو ہضم ہو رہا ہے نہ ہمارے بعض دیرینہ حلیفوں کو اور نہ بھارت کے علاقائی مفاد میں ہے۔ حالیہ پاک بھارت سرحدی کشمکش اور فالس فلیگ آپریشن کے خدشات کے دوران پاکستان پانچوں بڑے دارالحکومتوں کو یہ پیغام دے چکا ہے کہ بھارت ہماری آزادی اور خود مختاری کے لئے خطرہ بنا تو جوہری آپشن خارج ازامکان نہیں‘ ہمارے دیرینہ کارفرما پاکستان کے اس دلیرانہ موقف کو ہموار سول ملٹری تعلقات اور تمام اداروں کی ایک صفحہ پر موجودگی کا نتیجہ سمجھتے اور اس ہم آہنگی کو توڑنے کے درپے ہیں۔ بھارتی نژاد مصنف اوی ناش پلوال کی کتاب My Enemy's Enemyپڑھ کر پاکستان کے خلاف حالیہ بھارتی سازشوں اور مودی‘ اشرف غنی گٹھ جوڑ کو سمجھنا آسان ہے ۔امریکہ طالبان سمجھوتے میں پاکستان کے کردار نے افغانستان سے بھارت کا بوریا بستر گول کرنے کی راہ ہموار کی جہاں بھارت نے ٹی ٹی پی‘ داعش اور بلوچ علیحدگی پسندوں کے لئے تربیتی کیمپ قائم کر رکھے ہیں اور جن کے ذریعے وہ پاکستان میں دہشت گردی اور علیحدگی پسندی کی مہم جاری رکھ سکتا ہے۔ یہ محض اتفاق نہیں کہ پی ڈی ایم نے پی ٹی ایم کو اپنا پلیٹ فارم مہیا کیا اور محمود اچکزئی اسی پلیٹ فارم سے پاکستان‘ پنجاب‘ پنجابیوں اور مہاجروں کے خلاف زبان درازی کرتا اور ڈیورنڈ لائن پر قائم باڑ کو اکھاڑ پھینکنے کی دھمکیاں دیتا ہے۔ بظاہر تاثر یہ پختہ ہو رہا ہے کہ پاکستان میں عرب بہار یا 1969ء اور 1977ء کی طرح پرتشدد تحریک کے ذریعے حکومت تبدیل کرنے کا کوئی منصوبہ زیر تکمیل ہے تو اس کی راہ میں اصل رکاوٹ عمران خان سے زیادہ فوجی قیادت ہے جسے پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے براہ راست ہدف تنقید بنایا جا رہا ہے۔ سول ملٹری اتحاد کمزور کئے بغیر یہ منصوبہ آگے نہیں بڑھ سکتا اس بنا پر اندرونی اور بیرونی قوتیں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں‘ کسی احتجاجی تحریک کو خواہ وہ پرامن ہو یا پرتشدد روکنا سیاسی حکومت کی اولین ذمہ داری ہے اور وہ محض انتظامی طاقت سے اسے کبھی روک نہیں پاتی ۔1969ء اور 1977ء کا تجربہ یہی ہے۔ عمران خان اپنی ناقص ٹیم اور اڑھائی سالہ بُری کارگزاری کی بنا پر اپنے ہی خیر خواہوں اور مداحوں کو مایوسی کی طرف دھکیل چکا ہے۔ عمران خان کے باتونی مشیر اور بزدار ‘ محمود خان ‘ اسد عمر‘ غلام سرور خان‘ عمر ایوب ٹائپ ساتھی مہنگائی کو کنٹرول کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں اور عوام کو جان و مال اور عزت و آبرو کا تحفظ فراہم کرنے سے قاصر۔ بیورو کریسی بار بار کے تبادلوں اور اعلیٰ سطحی فیصلوں میں عدم ثبات کے باعث کام کرنے کو تیار نہیں اور وفاقی کابینہ میں ہم آہنگی مفقود ہے۔ اڑھائی سال کا قیمتی وقت محض باتوں اور بیانات میں گزر گیا‘ اگر عالمی سرپرستی میں حکومت گرانے کے لئے کوئی منظم تحریک شروع ہوئی تو اس کا مقابلہ کون اور کیسے کرے گا؟ یہ سوالیہ نشان ہے۔ 1969ء میں ایوب خاں عالمی سازش کا شکار ہوئے تو وہ تنہائی اور تاشقند معاہدے کے تحت عدم مقبولیت کا شکار تھے‘1977ء میں ذوالفقار علی بھٹو کی حالت ایوب خان سے بدتر تھی۔ عمران خان مگر اس وقت مقبولیت کے عروج پر نہ سہی مگر اپنے حامیوں اور کارکنوں کی تائید و حمائت کے ہھتیار سے لیس ہیں اور پاک فوج کی قیادت بھی آئین کے مطابق سول حکومت کی وفادار ہے لیکن دبائو کا مقابلہ کرنے کے لئے عمران خان اور ان کے ساتھیوں کو مزید کچھ کر دکھانے کی ضرورت ہے‘ ایسا کچھ کہ اندرونی اور بیرونی عناصر تبدیلی کے بارے میں سوچتے ہوئے اندیشوں‘ خدشات اور خوف کا شکار ہوں۔1969ء اور 1977ء میں امریکہ ‘کو پاکستان سے پرخاش تھی نہ بھارت کو افغانستان میں دہشت گردوں کو تربیت دینے کی سہولت حاصل۔ سی پیک ایسا کوئی منصوبہ امریکہ اس کے اتحادیوں کے لئے سوہان روح تھا نہ چین کی ابھرتی ہوئی عسکری و دفاعی طاقت کسی سپر پاور کے لئے خطرہ۔ پاکستان کا دفاع تو الحمد للہ مضبوط ہے مگر سیاسی استحکام؟ بیرونی ریشہ دوانیوں اور اندرونی یورش کا مقابلہ کرنے کے لئے بیانات سے آگے بڑھ کر کچھ کر دکھانے کی ضرورت ہے۔ امریکہ بھارت گٹھ جوڑ‘ مودی اشرف غنی روابط اور پاکستان میں بھارتی شردھالوئوں کی بیرونی پشت پناہی کا توڑ باتوں سے نہیں حکمت و دانائی اور لاتوں سے کرنے کا وقت ہے ‘مودی ’’دشمن کے دشمن کو دوست‘‘ بنانے کی دیرینہ پالیسی پر عمل پیرا ہے‘ امریکہ اور اسرائیل ہمنوا ہیں اور اندرون ملک نفرت انگیز مہم برپا مگر گفتار کے غازی اپنی روش پر قائم ۔اللہ خیر کرے۔