اللہ تعالیٰ کا ہم پر یہ احسان ہے جس نے اپنی تمام مخلوقات میں سے ہمیں انسان بنایا اور اس سے بڑھ کر یہ احسان ہے کہ اُس نے ہمیں اپنے پیارے خاتم النبیین محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اُمت میں پیدا کیا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ قرآن شریف میں ارشاد فرماتا ہے :’’اے لوگو! اپنے رب کی نافرمانی سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے اُس کا جوڑا تخلیق فرمایا پھر ان دونوں کے ذریعے سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلائیں۔‘‘(النسائ) اسلام انسانی رشتوں میں باہم محبت‘ احترام‘وفا‘ خلوص‘ ہمدردی‘ ایثار‘ عدل‘ احسان اور باہمی تعاون کا درس دیتا ہے ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسان کو ایک جان سے پیدا کیا پھر جوڑا یعنی حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت اماں حوا علیہا السلام کو تخلیق فرمایا۔ پھر ان سے مرد اور عورتیں پھیلائیں۔ اِن کے درمیان نکاح کا نظام رائج ہوا جس سے اولادیں بڑھیں اور پھر پھیلتی چلی گئیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے مردوعورت کی طبعی اور جسمانی حالتوں میں نمایاں فرق رکھا ہے ۔ عورت کی فطرت میں اللہ تعالیٰ نے سکون، رحمت، شفقت، صبر اور ہمت جیسے بے مثال جذبات رکھے ہیں جبکہ مرد کو قوت، علم وفہم، شجاعت‘ غیرت مندی، انتظام و تدبیر امارت وخلافت جیسی نعمتوں سے مالا مال رکھا ہے ۔ داماد کی ذمہ داری: مرد کے اہلِ و عیال میں اُس کے بیوی بچوں کے علاوہ زیر کفالت لوگ شامل ہیں۔ یہ داماد کی ذمّہ داری ہے کہ وہ اپنے سسرالی رشتہ داروں کے حقوق ادا کرے ۔ قرآن شریف میں رشتہ داروں کے حقوق کی دائیگی کا حکم تقریباً دس جگہ آیا ہے ۔ بیوی کے میکے میں بیمار کی عیادت کے لیے جانا۔اُن کے جنازے میں شرکت کرنا۔ وفات پرتعزیت کرنا ضرورت مند اہل قرابت کی مدد کرنا۔ چونکہ سسرال مرد کے اہل قرابت ہیں اس کے لیے یہ ادائیگی اُن پر فرض ہے ۔ چونکہ عورت مرد کے ماتحت ہوتی ہے اس لیے مرد کو چاہیے کہ وہ اپنی بیوی کو اُس کے سسرال سے ملنے کی اجازت دے ۔ سسرال چونکہ مرد کے بچوں کا ننھیال ہے اس لیے اس کا اختیار بھی مرد کے پاس ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اُن سے ملنے کی اجازت دے ۔ خاتم النبیین رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اُسوہ حسنہ: رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:’’کامل ایمان والے وہ لوگ ہیں جو اپنے اخلاق میں سب سے ا چھے ہوں اور تم میں سب سے اچھے وہ ہیں جو اپنی بیویوں کے حق میں سب سے اچھے ہوں‘‘(ترمذی، ابواب الرضاعہ باب ماجاء فی حق المراۃ علی زوجہا) رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیوی کے گھر والوں کو گالی دینے سے سختی سے منع فرمایا حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:’’کوئی اپنے والدین کو گالی نہ دے صحابہ عرض کرنے لگے بھلا ایسا بھی ہوسکتا ہے ؟ فرمایا: ہاں وہ دوسرے کے والدین کو گالی دیتا ہے جواب میں دوسرا اس کے والدین کو گالی دیتا ہے ۔ لہٰذا دوسرے کے والدین کو گالی مت دو‘‘۔ (بخاری5973 مسلم کتاب الایمان90) سسرال والوں کے ہاں تحائف بھیجنا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:’’تحفے لو اور دو اس سے محبت بڑھے گی‘‘ یوں تو سب کو تحائف دینے چاہییں تاکہ محبت بڑھے ۔ مرد کو چاہیے کہ بیوی کے رشتہ داروں میں تحفے تحائف دیا کرے ۔ امّ المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب بھی قربانی فرماتے تو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی سہیلیوں کے گھر گوشت بھجواتے تھے ۔ امّ المئومنین سیّدہ میمونہ رضی اللہ عنہاسے روایت ہے کہ میں نے ایک لونڈی آزاد کی اور پھر خاتم النبیین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس کا ذکر کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:’’اگر تم اسے اپنے ماموں کو دے دیتیں تو زیادہ اجر ہوتا‘‘ اچھے شوہر کی صفت ہے کہ وہ بیوی کو اپنے رشتہ داروں کو ہدیہ کرنے کی ترغیب کرے ۔ مسئلہ: اپنے عزیزوں اقرباء پر خرچ کرنے کا ثواب عورت کو اُس صورت میں ہوگا جب وہ اپنے ذاتی مال سے خرچ کرے کیونکہ وہ شوہر کے مال کی امین ہے ۔ شوہر کا مال امانت کے طور پر اُس کے پاس موجود ہے ۔ وہ اس کمائی سے خرچ نہیں کرسکتی اگر وہ شوہر سے اجازت طلب کرے تو پھر کوئی حرج نہیں ہے ۔ بہو پر سسرال کے حقوق: ہمارے یہاں عورت کے سسرال کا نام ذہن میں آتے ہی جو تصوّر اُبھرتا ہے وہ ظُلم، جھگڑا‘لڑائی اورباہمی ٹکرائو ہے ۔ بہوبڑے شوق سے سسرال میں آتی ہے ساس بڑے مان سے بہو کو گھر میں لاتی ہے لیکن کچھ ہی عرصے میں سب تنکا تنکا ہونے لگتا ہے جو کہ ایک غلط روایت ہے ۔ بیوی کے حقوق ادا کرنے کی نوعیت: بیوی پر اپنے شوہر کی اطاعت لازم و ملزوم ہے کیونکہ وہ عورت کا سر پرست ہے ۔ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے :’’شوہر جب اپنی بیوی کو بُلائے تو وہ فوراً حاضر ہو جائے چاہے وہ تندور پر روٹی ہی کیوں نہ پکارہی ہو‘‘ عورت جسمانی طور پر صرف خاوند اور بچوں کے لیے مشقت اٹھانے کی ذمّہ دار ہے جس میں کھانا پکانا۔ کپڑے دھونااور صفائی کرنا وغیرہ شامل ہیں۔ عورت بچے پیدا کرتی ہے ، پھر رضاعت کا وقت رہتا ہے ۔ ان ایام میں اُسے آرام کی ضرورت ہوتی ہے لیکن وہ اپنے شوہر اور اپنے بچوں کی خدمت کرتی ہے کیونکہ یہ اُس کا فرض ہے ۔ اپنے مال سے اپنی زبان سے احسان کرتی ہے ۔ لوگوں سے خندہ پیشانی سے ملتی ہے ۔ مرد صبح سے لے کر شام تک اپنے کام کاج میں مصروف ہوتا ہے ۔ اپنی غیر موجودگی میں وہ عورت اُس کے گھر کی محافظ و نگہبان ہوتی ہے ۔ چنانچہ مرد کی ذمّہ داری میں اُس کے والدین بھی شامل ہیں لہٰذا جس وقت وہ گھر میں موجود نہ ہو تو یہ عورت کی ذمّہ داری ہے کہ وہ اپنے ساس اور سسر کی خدمت کرے ۔ اُنھیں کانٹا لگنے کے برابر بھی تکلیف نہ دے ۔ خاوند کے اہل خانہ میں وہ تمام افراد شامل ہیں جو اُس کی پرورش میں ہیں مثلاً خاوند کے کم سن بہن بھائی اور اس کے والدین۔ مطلقہ یا بیوہ بہن دوسری بیویوں کے بچے ،خاندان کے بیمار افراد،غلام اور مہمان وغیرہ۔ عورت کو نہ صرف ان کا حق ِنگرانی ادا کرنا چاہیے بلکہ اُن کے ساتھ احسان کا مظاہرہ کرنا چاہیے ۔ ان حقوق کی ادائیگی میں اپنے جواب کو لازم و ملزوم رکھے ۔ ساس سسر اور دیگر عمر رسیدہ افراد کی نگرانی: ساس اور دیگر عمر رسیدہ افراد کا حق ہے کہ عورت ان کی نگرانی میں اللہ کا خوف ملحوظ خاطر رکھیان کا احترام کرے ۔ ساس سسر ماں باپ جیسے ہوتے ہیں اور اُن کا مقام والدین کا سا ہے ۔ عورت کو چاہیے کہ ان کو اپنے والدین کی طرح سمجھے اُن کی خدمت کرے اِن کو اپنے والدین کی طرح سمجھے اُن کی خدمت کرے ۔ بڑھاپے میں اگرچرچڑاپن آجائے تو صبر سے کام لے ۔ صبر سے کام لینے سے آخرت میں اجرو ثواب کی حقدار ہوگی۔ جو بھی نیکی اور صلہ رحمی کرے فقط اپنی آخرت سنوارنے کے لئے کرے ۔ انسان اس دنیا میں بہت سے پریشانیوں میں گِھرا رہتا ہے کبھی مالی،کبھی سیاسی، کبھی علاقائی، کبھی خاندانی، کبھی گھریلوجھگڑا، کبھی تعلیمی مسائل، کبھی حادثات، کبھی جسمانی وذہنی بیماریاں۔مگراسلام ایسا دین ہے جو خوشبوئوں سے بھر پڑا ہے ۔ یہ ہمارے لیئے فلاح و نجات کا باعث ہے ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ تمام مردوں اور عورتوں کو توفیق دے کہ وہ سسرالی رشتہ داروں سے محبت کریں کہ سسرال والوں کی عزت کریں اور اُن کی خدمت کریں۔آمین