حال ہی میں آنے والی ڈرامائی سیاسی تبدیلی کو تحریک انصاف نے سازش قرار دیا ہے باوجوداس کے کہ مقتدر اداروں کو اس اکھاڑپچھاڑمیں سازش کی بو تک نہیں آئی۔سابق حکمران پارٹی سڑکوں پر ہے اور اپنے موقف پر قائم ،اس وقت بھی جب یہ واضح ہوگیا ہے کہ پوری ایک دہائی مل جل کر حکومت کرنے والی پارٹیوں کو اپنی قسمت آزمائی کا فائدہ تو دور کی بات جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ معیشت کی نبض ڈوب رہی ہو، ملکی خزانہ قرضوں کا سود تک ادا کرنے کی سکت نہ رکھتا ہو ، تجارتی توازن بگڑ گیا ہو ، مہنگائی سے عوام کی چیخیں نکل رہی ہوں اور انتخابات سر پر ہوں تو ایسے میں کانٹوں کا تاج سر پر کون رکھے گا؟ دو ہزار اٹھارہ کے عام انتخابات میں تحریک انصاف کی تاریخی کامیابی کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کو اقتدار میں دلچسپی ہی نہیں رہ گئی تھی۔ ساڑھے تین سال تحریک انصاف حکومت کر گئی تھی تو بھی اس میں اس کا سارا اپنا کمال نہیں تھا بلکہ رقیبوں کی مہربانیاں بھی شامل تھیں ۔ معیشت کو اصلاحات کی ضرورت تھی تاکہ محصولات بڑھیں اور بیرونی قرضوں کی ادائیگی ممکن ہو سکے۔ یہ وہ معاملہ تھا جسے شاہ پرست پارٹیاں بوجوہ ٹالتی آرہی تھیں۔ انہوں نے بین الاقوامی اداروں کی صوابدید پر قرضے تو لیے تھے لیکن انکی واپسی کے لیے تاجروں اور صنعتکاروں پر ٹیکس لگا نہیں سکتی تھیں اور عام لوگوں میں سرکاری خزانے کا بوجھ اٹھانے کی مزید سکت نہیں تھی۔ ایک ٹانگ پر کھڑی تحریک انصاف اکیلے یہ کام نہیں کرسکتی تھی۔ اس نے حزب اختلاف کی قیادت کو احتساب کی ٹکٹکی پر چڑھائے رکھا تو اسے اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے تعاون کہاں سے ملنا تھا۔ عمران خان کے منہ سے سچ ہی نکلا جب انہوں نے میلسی جلسے سے خطاب میں کہہ دیا کہ تحریک عدم اعتماد لائے جانے پر انہوں نے خدا کا شکر ادا کیا تھا۔ اب جب و ہ اقتدار سے باہر ہوگئے ہیں اور نو ستارے اقتدار کے افق پر ٹمٹما رہے ہیں تو یقیناً وہ اندر سے خوش ہونگے۔ یہ اقتدار نہیں، مکافاتِ عمل ہے۔ جنہوں نے امریکہ کو سیاسی استحکام کے وعدے اور افغانستان سے اسکی افواج کے پر امن انخلا کے وعدے پر اقتدار حاصل کیا تھا وہ اس وعدے کو وفا نہ کرسکے، وہ ایوان میں عددی اکثریت نہ ہونے کے باوجود بھی اقتدار سنبھالنے پر مجبور ہیں۔ سوائے مشکل فیصلے لینے کے ان کے پاس چارہ نہیں۔ یوں اگر واقعی کوئی سازش ہوئی ہے تو شاہ پرست پارٹیوں کے ساتھ اور اس سازش میں تحریک انصاف بھی شامل ہے۔ حکمران اتحاد سمجھ رہا ہے کہ آئین میں ترامیم کرکے احتساب کے شکنجے سے نکل جائے گا۔ یہ خود فریبی اور خوش گمانی کے علاہ کچھ نہیں۔ دوسری طرف معیشت کو راہ راست پر لانے کیلیے ٹیکس اصلاحات کا ادھورا کام بہر حال کرنا ہے۔ عالمی مالیاتی اداروں کے قرضوں کی ادائیگی کایہی راستہ ہے۔ تحریک انصاف نے ان قرضوں کی ادائیگی کے لیے مزید قرضے لیے ، ٹیکس کے دا ئرہ کار بڑھانے کے لیے آئین سازی کی ضرورت تھی لیکن اس کے پاس مطلوبہ اکثریت نہیں تھی۔ احتساب کا شکنجہ آزمایا لیکن کام نہیں ہوا۔ ایک ہی راستہ تھا کہ تحریک انصاف کو مکھن میں سے بال کی طرح نکال لیا جائے اور حکومت کا لالچ دیکر معیشت کا ادھورا کام انہیں سے کرایا جائے جو اس میں سب سے بڑی رکاوٹ تھے۔ حکومتی تبدیلی تحریک انصاف کے لیے انعام بھی ہے کہ اس کی حکومت نے امریکی افواج کے افغانستان سے انخلا میں مدد کی ، سی پیک کی دوسرے مرحلے کو التوا میں ڈالا اور فیٹف اہداف کے حصول میں خاطر خواہ پیش رفت کی۔ تحریک انصاف کی حکومت نے ریکارڈ قرضے لیے جن کی ادائیگی بھی اتحادی حکومت نے کرنی ہے۔ اور اس کے پاس واحد راستہ یہی ہے کہ امیر طبقہ، جو سول حکومتوں کو اقتدار میں لاتا اور رخصت کرتا ہے، ان سے ان کی مراعات واپس لی جائیں اور ٹیکس لگادیا جائے۔ انہونی ہونے جارہی ہے کہ امیر طبقے نے اپنے اوپر ٹیکس لگانے ہیں۔ یہ کام تحریک انصاف نے نہ تو کیااور نہ ہی اس میں ایسا کرنے کی جرات تھی۔ اب صورت حال یہ ہے کہ کابینہ کے بیشتر ارکان ضمانت پر ہیں اور ان کے کیسوں پر فیصلہ التوا میں۔ اقتدار میں رہنے کے لیے پیپلز پارٹی نے ایم کیو ایم کو گلے سے لگایا ہے تو ن لیگ نے پیپلز پارٹی کو۔ انتخابات سر پر ہیں لیکن حکمران اتحاد نہ تو مہنگائی کم کرسکتا ہے اور نہ ہی امیر طبقے کو خوش۔ عام انتخابات کے نتائج پہلے ہی واضح ہیں اور یہ بھی پتہ نہیں کہ احتساب کے شکنجے سے نجات بھی مل پائے گی یا نہیں۔ حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ ایم کیو ایم پیپلز پارٹی پر بد عہدی کے الزامات لگا رہی ہے اور اس کی قیادت برملا کہہ رہی ہے کہ وہ حکمران اتحاد کو دی جانیوالی حمایت کے حوالے سے نظرثانی کا سوچ رہی ہے۔ ن لیگ پنجاب میں پائوں نہیں جما پارہی۔اگر کل کلاں ایم کیو ایم روٹھ جاتی ہے تو مرکز بھی ہاتھ سے جائے گا۔ یوں ڈیڑھ سال کی رعائت بھی ختم ہوتی نظر آرہی ہے۔ اب جن کے خلاف سازش ہوئی ہے وہ تواتنے مجبور ہیں کہ شکایت بھی نہیں کرسکتے اور جسے اس سازش کا فائدہ ہوا ہے وہ واویلا کر رہی ہے۔ وہ مثال تو سنی ہوگی کہ ایک ٹیڑھے دانتوں والی خاتون کی قریبی گائوں میں شادی ہوگئی۔ اپنے عیب کا اسے پتہ تھا اور تلخ تجربات بھی سامنے تھے۔ حل اس نے یہ نکالا کہ جیسے ہی کسی سے توتکار ہوتی تو جھٹ سے کہتی: ''اپنے دانت تو دیکھو کہ مجھ سے منہ ماری کرنے چلی ہو''۔ مخالف ہکا بکا رہ جاتا کہ عیب اپنا ، طعنہ دوسرے کو۔