خواتین وحضرات آپ کا شکریہ؛ جنہوں نے اس مرتبہ ایک بار پھر سالگرہ پر محبت بھرے پیغامات ارسال کرکے اس دن کو خاص ہی نہیں بلکہ چار چاند لگادیئے۔ سوشل میڈیا کی ایجاد سے قبل ہماری سالگرہ دبے پاوں آتی اور گزرجاتی۔کانوں کان خبر نہ ہوتی۔ بعض اوقات ہمیں خود بھی یاد نہ رہتا کہ آج ہمارا جنم دن ہے لیکن سوشل میڈیا بالخصوص فیس بک نے ہماری زندگی میں ایک جل ترنگ پیدا کی۔دوردیسوں سے دوست احباب یاد کرتے ہیں اور محبت بھرے سندیسوں سے دل کو گرماتے ہیں۔ اظہار تشکر کے لیے الفاظ دستیاب نہیں۔ انگریزی میں اس طرح کے موقع پر کہتے ہیں: You made my day ماضی کے جھرکوں میں جھانکتاہوں تو یاد پڑتاہے کہ ہمارے سکول میں چار سو کے لگ بھگ طلبہ میں سے کسی ایک کی بھی سالگرہ نہیں منائی جاتی تھی۔ کالے کپڑوں میں ملبوس، تختیاں تھامے آٹھ بجے کے لگ بھگ سکول میں نمودار ہوتے تو چہرے پر مسرت کم اور خوف کے سائے زیادہ لہرا رہے ہوتے۔ ہر روز دل ہی دل میں دعا کرتے کہ یا اللہ استاد آج چھٹی کرجائیں، بارش ہوجائے یا کم ازکم پلے ڈے ہوجائیں تاکہ سبق یاد نہ ہونے پر مرغا نہ بننا پڑے۔ دل کی گہرائیوں سے نکلی ہوئی یہ التجا کم ہی بارگاہ ایزی میں قبول ہوتی ۔ اکثر استاد طلبہ کی مرمت کے لیے بہت اعلیٰ نسل کی چھڑی کا اہتمام فرماتے۔ غالباً یہ اس زمانے میں اساتذہ کے پیکیج کا حصہ ہوتاتھا۔ دن کو آدھی چھٹی (بریک )ہوتی تو بھاگ کر ٹوپہ سون کے بازار میں پہنچ جاتے،جہاں دوتین چائے خانے (ڈہابے ) اور کچھ کچی دکانیں تھیں۔ تنگ سی سڑک اور وہ بھی اکثر کیچڑ میں لت پت رہتی ‘ کے کنارے لگے پتھروں پر ڈورتے بھاگتے جاتے بازار میں پہنچ جاتے۔ بھایوٹا،جن کا اصل نام ابراہیم خان تھا‘ لکڑی کی خستہ سی دو کرسیاں اور چند پنچ رکھے ٹین کے ایک کمرے میںجسے ہم ہوٹل کہتے تھے، مٹی والے تیل کے چولہے پر گرما گرما چائے اور ’’بنداور کیک رس ‘‘لیے ہمارے منتظر ہوتے۔ گرمی کی دوپہر ڈھلتے ہی ہوٹل کے ایک کونے میں کچھ ریٹائرڈ فوجی بھی گیپ بازی کے لیے جمع ہوجاتے جو اپنی یونٹوں اور معرکوں کی کہانیاں مصالہ لگاکرسناتے۔ بھایوٹا بڑی دلدار قسم کی شخصیت تھے۔ فوجیوں کی گفتگو میں خلل ڈالنے یا انہیں چھیڑنے کی خاطر کوئی چٹکلا چھوڑکر محفل کو زعفران راز بنادیتے۔ بسا اوقات انہیں باہم الجھا کر لطف لیتے۔ ہمارے گاؤں میں ان دنوں اکثر بزرگ فوج سے ریٹائرڈ ہوکر اس چھوٹے سے بازار میں دکان ڈال دیتے۔ اس طرح دن بھی کٹ جاتا اور کاروبار زیست بھی رواں دواں رہتا۔ گھر سے خرچ کے لیے آٹھ آنے ملتے۔ پچیس پیسے کی چائے اور پچیس پیسے کا بند۔کبھی کبھی بھایوٹا کو ہم چونا بھی لگادیتے۔ اَبا کو کام کے لیے راولپنڈی جانا پڑتا تو ہمارا خرچ گول ہوجاتا۔ چائے پی کرادھار کرجاتے۔ ان کے پاس ادھاردینے کے سوا کوئی چارہ بھی نہ ہوتا‘ چائے جو ہم پہلے ہی نوش فرماچکے ہوتے۔ چچا شاہ محمد کی بھی اکثر یادآتی ہے۔مسجدکے پاس ہی ان کی چھوٹی سی دکان تھی۔ چینی،پتی،آٹااور ٹافیاں بیچتے لیکن ان کا اصل کام کلہاڑیوں کو دستے لگانا تھا۔ گزشتہ سے پیوستہ عید پر ملاقات ہوئی تو ہم نے چچاکے ساتھ سلفی بنائی جو بچپن کی یادوں نے چچا کی آنکھوں کو نمناک کردیا ۔چچا شاہ محمد نے مسجد سے ہمارالگاؤدیکھا تو بہت متاثر ہوئے۔ کہنے لگے کہ تم جلدی آجایاکرو ہم ساتھ مل کر جمعہ کی نماز کے لیے مسجد کی صفیں بچھایا کریں گے۔ کئی برس تک چچا شاہ محمد کے ہمراہ جمعہ کی نماز کی صفیں بچھاتا رہا۔ ہمارے استاد منشی خان بھی ہمارے ہمرکاب ہوجاتے۔ بعد میں امریکہ کی ریاست ورجینیا جابسے اور پھر لوٹ کر نہ آئے۔ دو برس قبل امریکہ میں ملاقات ہوئی جہاں ان کے دونوں بیٹے حفظ قرآن کے بعد اب یونیورسٹی جانے کی تیاری کررہے تھے۔ اس زمانے میں ہمار ے گاؤں ٹوپہ سون کی مسجد کافی بڑا مرکز تھی۔ علاقے میں ایک ہی سڑک تھی اور نجی گاڑیاں خال خال۔ اس لیے گردونواح کے تمام لوگ یہاں نماز جمعہ ادا کرنے آتے۔ عیدپر تو میلے کا سماں ہوتا۔ نوجوانوں کے گروہوں میں مارکٹائی بھی ہوجاتی۔ رفتہ رفتہ یہ سلسلہ تھم گیا۔لوگ اپنے اپنے محلوں تک محدود ہوتے گئے۔ ہماری جامع مسجد کے خطیب ہدایت حسین شاہ ایک معتدل مزاج عالم دین اور باغ وبہار شخصیت کے مالک تھے۔ اگرچہ وہ بریلوی مکتب فکر کے پرچارک تھے لیکن مسلکوں کی بحث میں الجھنے سے گریز کرتے۔ ستر اوراسی کی دہائی میں پونچھ کے اکثر نوجوان فوج کے بجائے سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں کا ملازمت کے لیے رخ کرنے لگے تو لوگوں کا مذہب کے بارے میں روایتی تصور بھی بدلنے لگا۔ اکثر محفلوں میں وہابی، دیوبندی اور بریلوی کی بحث چھڑجاتی۔ بسا اوقات بات تلخی پر تمام ہوتی۔ ہمارے کچھ چچیرے اور پھوپھی زاد بھائی سعودی عرب سے لوٹے تو انہوں نے گاؤں میں ایک نیابحث ومباحثہ شروع کردیا۔ بتایا گیاکہ نذر نیاز اور گیارھویں شریف نہ صرف جائز نہیں بلکہ بدعت ہیں۔ یہ سن کر دھچکا تو بہت لگا۔ بہت دنوں تک یہ کسک رہی کہ کیا ہم صدیوں سے غلط راستہ پر گامزن رہے۔ برادرم سیلم ایوب اور یہ خاکسار کئی برسوں تک گیارھویںشریف کی نیاز میں شریک بزرگوں کو مکیاں لگاتے، کندھے دباتے۔ ان کی خدمت میں انواع واقسام کے پکوان پیش کرتے۔ ہمارے گاؤں میں ہر سال عرس ہوتا تو ایک میلے کا سماں ہوتا۔ دور دور سے لوگ آتے۔ تین دن تک نعتیں، تقریریں اور قوالیاں چلتی۔ نماز جمعہ کے بعد ہدایت حسین شاہ صاحب مرحوم کے گرد نمازی دائرے کی شکل میں مودب کھڑے ہوجاتے۔ شاہ صاحب کو قدرت نے بے حد سریلی آواز عطا کی تھی۔ وہ پرسوز آواز میں امام احمد رضا محدثِ بریلوی کا مرقومہ سلام عقیدت پیش کرتے : مصطفی جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام شمعِ بزمِ ہدایت پہ لاکھوں سلام گاؤں کے اس چھوٹے سے بازار میں پروفیسر عبدالخالق نے بھی گلی کی نکڑ پر قائم چائے خانے میں ایک پررونق محفل سجا رکھی ہوتی تھی۔ وہ مرجع خلائق ہیں۔ اگرچہ پیشے کے اعتبار سے اسلامیات کے معلم ہیں لیکن زندگی بھر بزرگوں اور اولیاء اللہ کی تلاش میں سرگرداں رہے۔ صبر وتحمل کا ایک پہاڑ۔ کون سی گالی تھی جو انہیں نہ دی گئی لیکن کبھی رنجیدہ نہ ہوتے بلکہ ہر تلخ بات کو مسکراکرٹال دیتے۔ ایک اچھے صوفی کی یہی پہچان ہے کہ وہ گالی کھا کر بھی بدمزہ نہیں ہوتا۔ پامسٹری اور علم نجوم کا بھی شوق رکھتے تھے۔ ہاتھ کی لکیروں کے ذریعے مستقبل میں جھانکتے۔ نوجوان ان سے کافی متاثر تھے لیکن بہت سارے لبرل حضرات بھی ان سے فیض پاتے۔ ممتاز پامسٹ افتخار حسرت اور عبدالقیوم ساقی اگرچہ سیاسی اور خیالات میں بائیں بازو کی فکر کے حامل تھے لیکن زانوے تلمذ وہ بھی پروفیسر صاحب کی بیٹھک میں ہی طے کرتے۔ ایک صبح منہ اندھیرے خاموشی سے وہ میرپور سدھار گئے۔گاؤں میں مشہور ہوگیا کہ کھڑی شریف والے بابے میاں محمد بخش المعروف عارفِ کھڑی شریف جو سلسلہ قادریہ کے مشہور صوفی بزرگ تھے نے انہیں بلاوا بھیجا۔ اب وہ میاں محمد بخش کے مزار پر ملتے ہیںیا پھر یونیورسٹی میں۔ گاؤں والے انہیں یاد کرتے ہیں کہ اب ان سایہاں کوئی نہیں۔ وہ محفلیں اور شامیں سب اجڑگئی۔ ڈھلتی عمر کے کچھ بزرگوں اور ریٹائرڈ سرکاری ملازموں کے سوا اب یہاں کوئی نظر نہیں آتا۔ لڑکے بالے پاسپورٹ بننے کی عمر کو پہنچتے ہیں تو انہیں سات سمند رپار نوکری کے لیے بھیج دیاجاتاہے کہ وطن عزیز میں زندگی کرنے کے مواقع ہی پیدا نہ کیے جاسکے۔ کیسے کیسے ہیرے خطہ عرب کے ریگزاروں میں خاندان کا پیٹ پالنے کی خاطر خاک چھانتے پھرے۔ ان کی مائیں،بہنیں اور بیٹیاں خلیج کے گدلے ساحلوں سے ہر ماہ آنے والے ریالوں اور درہموں کے انتظار میں صبح وشام کرتی ہیں۔ یہ روح فرسا کہانی پھر کبھی سہی۔